پولیس: آگے سے دوڑے چل


ہمارے معاشرے میں نہ عزت، لکھاری کی ہے نہ بھکاری کی ہے اگر ہے تو وہ صرف تھانے دار کی ہے۔ جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ جانوروں کو ہانک سکتا ہے۔ یہ قوم ایسی ہے جو کہ خود کو تمام قوموں سے افضل سمجھتی ہے اس لیے کسی بھی قانون پر عمل نہیں کرتی۔ مثل مشہور ہے جس عہدے کے ساتھ دار لگا ہو، وہ آپ کو تختہ دار پر چڑھا سکتا ہے۔ جام صاحب بچپن سے یہی باتیں سن کر بڑے ہوئے تھے اور جب عہد جوانی میں وہ گم تھے تو چند لوگوں کے مشورے پر انہوں نے محکمہ پولیس میں تھانے دار بھرتی ہونے کی درخواست جمع کروا دی۔

قسمت کی کرنی ایسی ہوئی کہ تمام تر نکمے پن کے باوجود وہ پولیس میں تھانے دار بھرتی ہو گئے آپ خود سوچیں کہ جام صاحب جسے نکمے انسان اگر پولیس میں بھرتی ہو سکتے ہیں تو پولیس کا معیار اوپر اٹھنے کی بجائے، نیچے گرنا ہی ہے۔ پولیس میں بھرتی ہوتے ہی خاندان میں ان کی عظمت کا ڈنکا بجنے لگا۔ وہ دوست اور رشتے دار جو ان کو منہ تک نہیں لگاتے تھے اور آوارگی کے طعنے دیتے تھے۔ مٹھائیاں لے کر گھر پہنچے جام صاحب کو اپنی اتنی عزت پر کافی رونا آیا اور سوچا یہ میری عزت ہو رہی ہے یا ڈنڈے کی

تم کو آہستہ آہستہ سمجھ آ جائے گی۔
فکر مت کرو۔

جام صاحب تھانیداری کے مزے لے رہے تھے کہ ان کو تربیت کے لیے پولیس کالج سہالہ روانہ کر دیا گیا۔ وہ بہت خوش تھے کہ پولیس کی تربیت کے بعد وہ بہترین انسان بن جائیں گے حالانکہ اپنی زندگی کے پہلے 23 سال میں وہ انسان بننے میں کافی حد تک ناکام رہے تھے۔ لیکن ایک کوشش اور سہی۔ سہالہ کیا تھا ایک قید خانہ جس میں اب ایک سال جام صاحب کو گزارنا تھا۔ سہالہ میں آپ چل نہیں سکتے تھے بلکہ آگے سے دوڑے چل کرنا ہوتا ہے۔ جام صاحب جو کہ سست الوجود قسم کے انسان تھے دوڑے چل کی غذا پر کافی پریشان ہوئے۔ انہوں نے کئی مرتبہ پولیس کو خیر باد کرنے کا بھی سوچا مگر ڈنڈے کی طاقت کو دیکھ کر برداشت کر جاتے۔ ان کے ایک ساتھی جو کہ پولیس کانسٹیبل سے ترقی کرتے ہوئے تھانیدار ہوئے تھے اکثر ان کو مشورہ دیتے۔

”ڈھلی نہیں چھڈنی“
گھر نہیں دسنا
وہم نہیں کرنا

سہالہ میں تربیت کم اور پھٹیک زیادہ تھی۔ پھٹیک کا مطلب ہے۔ گھاس کی کٹائی کرنا ہوتی تھی، جام صاحب کو سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ پولیس میں تھانے دار بھرتی ہوئے تھے مالی تو نہیں مگر ان کو مالی کی تربیت کیوں دی جا رہی ہے۔ تربیت کے اختتام پر وہ درانتی چلانے کے کافی ماہر ہو چکے تھے اور اکیلے ہی کئی کنال گھاس کاٹ لیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پولیس سے فارغ ہو بھی گئے تو مالی بھرتی ہو جائیں گے۔ ایک ہنر انہوں نے سیکھ لیا تھا اور ہنر تمام عمر انسان کے ساتھ رہتا ہے۔

سہالہ میں قانون کی تربیت بھی دی جاتی تھی مگر جام صاحب نے دوران جماعت (اپنا معمول نیند پوری کرنے کا بنا رکھا تھا) ان کا کہنا تھا کہ کون سا ہمارے ملک میں قانون پر عمل درآمد ہوتا ہے جو اس کو سیکھا جائے انہوں نے پورا سال دوران تربیت قانون کی جماعت سو کر گزاری اور بہترین نمبروں سے قانون کا امتحان پاس کیا۔ جس پر ان کو آج تک فخر ہے۔

اسلحہ آتشیں کی بھی تربیت دی گئی جس میں انگریز کے دور کی 303 چلانا سکھائی گئی۔ جام صاحب کہتے ہیں کہ اس کو اسلحہ آتشیں کہنا اسلحے کی بے حرمتی ہے اس کو ملبہ کہنا چاہیے کیونکہ یہ بندوقیں اپنی مرضی سے چلتی ہیں اور اپنی مرضی سے ہی رکتی ہیں ان کی تربیت دینا کار لا حاصل سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

سہالہ میں جام صاحب نے پریڈ سیکھی جو تھانے میں آ کر ملزموں کو چھتر پریڈ کی صورت میں تحفے میں دی جام صاحب کا کہنا ہے ہر تھانے دار اپنے پریڈ ماسٹر کا بدلہ ملزموں سے لیتا ہے جب بھی وہ چھتر پریڈ لگاتا ہے اس کے ذہن میں پریڈ ماسٹر کا چہرہ ہوتا ہے۔ جس نے اس کو آگے سے دوڑے چل کروا کروا کر نانی یاد دلا دی تھی۔ اب وہ ملزموں کو ان کی نانی یاد دلاتے ہیں۔

جام صاحب کہتے ہیں کہ تھانے دار بننے کے لیے اگر کوئی شے فالتو ہے تو وہ سہالہ کی تربیت ہے اگر اس کو حذف کر لیا جائے تو شاید تھانے دار بننا ممکن ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments