گلگت بلتستان: عبوری عارضی صوبہ


اکیس ستمبر 2020 کو اسلام آبا دمیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں پارلیمانی سربراہوں کے ہونے والے اجلاس میں گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور ملک کا عبوری صوبہ بنانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس اجلاس کے فیصلے کی روشنی میں یکم نومبر 2020 کو گلگت میں یوم آزادی کی تقریب سے اور یکم دسمبر 2020 ء کو گلگت میں خالد خورشید کے بطور وزیر اعلی کے حلف برداری کی تقریب سے اپنے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کو ملک کا عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آئینی اصلاحات کی سفارشات مرتب کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ کمیٹی بنائی گئی جس کے کئی ایک اجلاس ہوئے جن میں گلگت بلتستان کے لئے مجوزہ آئینی و انتظامی اصلاحات کے خد و خال پر بات کی گئی۔ ان تمام اجلاسوں میں شرکا میں اصولی طور پر اتفاق موجود رہا کہ گلگت بلتستان کو ملک کا عبوری صوبہ بنایا جائے گا۔ البتہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں گلگت بلتستان کے لئے دی جانے والی نشستوں کی تعداد اور ان جیسے دیگر نکات زیر بحث رہے کیونکہ وزیر اعظم متعدد بار اپنی حکومت کے اس عزم کا اظہار کرچکے تھے کہ حکومت گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ Provisional Province) ) بنانے جا رہی ہے۔

حکومتی اعلی اہلکاروں اور متعلقہ وزارتوں کے سیکرٹریز پر مشتمل سفارشات مرتب کرنے کے لئے بنائی گئی کمیٹی ارکان کی جانب سے تواتر کے ساتھ یہ بیانات بھی سامنے آتے رہے کہ گلگت بلتستان کو ملک کا آئینی صوبہ بنایا جا رہا ہے البتہ یہ عبوری صوبہ ہو گا۔ یہ بھی سامنے آتا رہا کہ اب کی بار کیونکہ گلگت بلتستان کو باقاعدہ عبوری صوبہ بنا جا رہا ہے لہذا آئین میں تمام ضروری ترامیم کی جائیں گئیں۔ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لئے جب بھی بات آئینی ترامیم کی آتی ہے تو یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل نمبر ایک میں ترمیم سے ہو کر گزرتی ہیں۔

لہذا یہی کہا جاتا رہا کہ آئین کے آرٹیکل ون سمیت دیگر ضروری تمام آرٹیکلز میں ترامیم کی جائیں گیں۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے بہت زیادہ تن دہی سے کام کیا اور آئین کے آرٹیکل ون سمیت تمام متعلقہ آرٹیکلز میں ترامیم کا مسودہ تیار کر لیا۔ آئین میں ترامیم کے مسودے سے متعلق جب دفتر خارجہ اور نیشنل سکیورٹی کونسل کو بریفنگ دی گئی تو وزارت خارجہ اور نیشنل سکیورٹی کونسل کی جانب سے آئین کے آرٹیکل ون میں ترامیم پر تحفظات سامنے آئے جس پر وفاقی وزیر قانون نے آئین میں ترمیم کے مسودے میں تبدیلی کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 258 A میں ترمیم کا فیصلہ کیا گیا۔

جس کا اظہار وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے مورخہ یکم ستمبر کو وزیراعظم کے نام لکھے گئے مراسلے میں کیا ہے۔ اس ترمیم کے تحت گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی میں تین جنرل نشستیں اور ایک خاتون کی نشست دی جائے گی جبکہ سینیٹ میں نشستوں کی تعداد کا تعین ابھی ہونا باقی ہے۔ اسی طرح ملکی آئینی اداروں میں بھی گلگت بلتستان کو نمائندگی دینے، گلگت بلتستان چیف کورٹ کو ہائی کورٹ کا نام دینے اور گلگت بلتستان سپریم اپیلیٹ کورٹ کو ختم کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو لو گوں کو ملکی سپریم کورٹ تک رسائی دینے کی تجویز ہے۔ یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ اس آئینی ترمیمی مسودے کو حتمی شکل دینے کے بعد پہلے اسے گلگت بلتستان اسمبلی میں پیش کیا جائے جہاں سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دو تہائی ارکان کی حمایت سے منظور کرایا جا سکے گا۔

جس طرح کے اعلانات ہوتے رہے تھے کہ گلگت بلتستان کو ملک کا آئینی صوبہ بنایا جا رہا ہے اس کا تقاضا تھا کہ آئین کے آرٹیکل ون سمیت دیگر متعلقہ آرٹیکلز میں ترامیم کی جائیں۔ آخری مرحلے پہ جاکر آئین کے آرٹیکل ون میں ترمیم نہ کرنے کا فیصلہ مسئلہ کشمیر کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ تھی کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا مطلب ہی مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچنے سے بچانا تھا وگرنہ تاریخی اور زمینی حقائق کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کو ملک کا باقاعدہ پانچواں صوبہ بنایا جاتا۔

دوسری بات یہ کہ آئین کا آرٹیکل 258 A آرٹیکل ون کا متبادل نہیں ہے۔ آرٹیکل ون پاکستان کے حدود و اربعہ کا تعین کرتا ہے کہ پاکستان سے مراد کون کون سے علاقے ہیں جبکہ آرٹیکل 258 A ان علاقوں میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے قوانین کے اطلاق کے طریقے کو بیان کرتا ہے جو ملک کے کسی صوبے میں شامل نہیں۔ اب آرٹیکل ون میں ترمیم نہ کرنے سے گلگت بلتستان الحاق پاکستان کے 74 سال بعد بھی پاکستان کی جغرافیائی حدود میں شامل نہیں ہو سکیں گے۔

اس پر مزید ستم یہ کہ گلگت بلتستان کو آرٹیکل 258 A میں شامل کر کے گلگت بلتستان کے پاکستان کے صوبوں کی حدود سے باہر ہونے کو آئین کے اندر نہ صرف تسلیم کیا جا رہا ہے بلکہ اسی آرٹیکل یعنی آرٹیکلA 258 میں ترمیم کے ساتھ یہ لکھا جا رہا ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ کا درجہ دیا گیا ہے جو کہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر پاکستان کے موقف کو متاثر کیے بنا دیا جا رہا ہے جہاں لوگوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے ان کے مستقبل کے تعین کا موقعہ دیا جانا ہے۔

اس نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ آئین میں گلگت بلتستان جہاں جہاں لکھا جائے گا وہاں ساتھ عبوری کا لفظ لکھنے کا مطلب یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کو متاثر کیے بنا گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کیا جا رہا ہے۔ یوں ان ترامیم کے ذریعے گلگت بلتستان کی غیر متنازعہ حیثیت پر کئی ایک سوالات جنم لینے کے مواقع فراہم ہوں گے ۔ گلگت بلتستان ابھی تک پاکستان کے آئین میں شامل نہیں تھا لیکن اب کی بار ملکی آئین میں ترمیم کر کے ملکی آئین کا حصہ بنایا جا رہا تھا لیکن جس انداز سے گلگت بلتستان کو ملکی آئین کا حصہ بنایا جا رہا ہے اس سے نہ صرف گلگت بلتستان کی واضح آئینی و قانونی حیثیت متاثر ہوگی بلکہ اس حساس خطے کی واضح آئینی و قانونی حیثیت کو مشکوک بنا کر آگے جاکر ملک کے قومی مفادات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

ابھی تک ملکی آئین سمیت کسی بھی دستاویز میں گلگت بلتستان کو متنازعہ ظاہر نہیں کیا ہوا ہے۔ 1956 ء 1962 ء اور 1973 ء کے آئین میں اگر گلگت بلتستان کا بطور پاکستان میں شامل خطے کے تذکرہ موجود نہیں تو ان میں یہ بھی ذکر موجود نہیں کہ یہ خطے متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے حصے ہیں۔ کیونکہ گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا حصہ نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر کا حصہ نظریہ ضرورت کے تحت بنایا ہوا ہے لہذا گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بناتے ہوئے بھی آئین کے آرٹیکل ون میں شامل نہ کرنے اور آرٹیکل 258 A میں شامل کرنے وہ بھی مشروط کہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ممکنہ طور پر ہونے والے استصواب رائے سے متعلق پاکستان کے موقف میں تبدیلی لائے بنا۔

میرے نزدیک جب گلگت بلتستان کے ساتھ عبوری صوبہ لکھا جا رہا ہے تو آرٹیکل ون میں بھی گلگت بلتستان کو شامل کیا جائے تب بھی اس کو مشروط کرنے والے اضافی جملے لکھنے کی ضرورت نہیں رہتی چی جائے کہ گلگت بلتستان کو آرٹیکل 258 A میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اولاً یہ آرٹیکل ویسے بھی پاکستان کے آئینی صوبوں سے بیرون موجود علاقوں سے متعلق ہے لہذا یہاں بھی لفظ عبوری کے ساتھ پھر اتنی لمبی چوڑی وضاحت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔

یہاں یہ سوال بھی بے موقعہ نہیں ہے کہ آئین کا آرٹیکل 258 A جو کہ ان علاقوں سے متعلق ہے جو کسی صوبے کا حصہ نہیں اب گلگت بلتستان کو اسی آرٹیکل کے تحت پاکستان کا عبوری صوبہ قرار دیا جائے گا جو آئین کے آرٹیکل ون کا حصہ نہیں تو کیا گلگت بلتستان قانونی اور آئینی طور پر پاکستان کا حصہ گردانا جاسکتا ہے؟ گلگت بلتستان کی واضح آئینی و قانونی حیثیت کو ملکی آئین میں اس انداز سے دینا کہ اس پر سوالات اٹھ سکے یہ قومی مفاد میں نہیں۔

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے بھارت کا باقاعدہ حصہ بنائے جانے کے بعد پاکستان کو چاہیے کہ اپنے پاس موجود کشمیر کی حیثیت کو اور زیادہ مستحکم بنانے کے اقدامات کریں چی جائے کہ گلگت بلتستان جو ایک طویل جنگ آزادی کے نتیجے میں آزاد ہو کر پاکستان میں شامل ہوا ہے اس خطے کی صورت حال آزاد کشمیر سے یکسر مختلف ہے۔ لہذا کسی اصلاحات کے نفاذ کی قیمت پر ان علاقوں کی واضح حیثیت کو مشکوک بننے دینا کیسی صورت دانشمندانہ اقدام نہیں۔

میرے نزدیک ملکی آئین میں گلگت بلتستان کو متنازعہ لکھ کر گلگت بلتستان کو چار یا آٹھ نشستیں دینے سے بہتر ہے کہ گلگت بلتستان کی واضح حیثیت برقرار رہے اور گلگت بلتستان میں موجودہ سیلف گورننس کا نظام ہی چلتا رہے۔ اب تک بین الاقومی فورمز پر مسئلہ کشمیر کے حل کو لے کر جب بھی آپشنز کی بات ہوئی ہے وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کو لے کر ہوتی رہی ہے۔ گلگت بلتستان کا ذکر اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ہے نہ ہی گلگت بلتستان زیر بحث رہا ہے۔ اب ملکی آئین میں غیر ضروری طور پر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور رائے شماری سے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو مشروط کرنے سے دشمن کو گلگت بلتستان سے متعلق دعویٰ اور منفی پروپیگنڈا کرنے کا جواز فراہم ہو گا جو پاکستان اور گلگت بلتستان کے مفاد میں کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔

وفائیں نصف صدی سے نبھا گئے ہم لوگ
یہ وقت قرب ہے کیوں دور کر رہے ہو ہمیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments