جنوبی پنجاب کا جنت نظیر علاقہ کوہ ماڑی


چار موسموں، سرسبز وادیوں، لہلہاتے میدانوں، قدیم تہذیبوں اور بلند و بالا چوٹیوں پر مشتمل ارض پاک وہ جنت ہے جس کے مسحور کن نظارے دلوں کو موہ لیتے ہیں۔ خوبصورت جزیروں، قدیم تہذیبوں اور ساحل سمندر پر مشتمل باب الاسلام کہلانے والی وادی مہران ہو یا پھر معدنیات سے مالا مال بلوچستان، اسی طرح مشرق کے سوئزرلینڈ وادی سوات، ناران کاغان اور کیلاشیوں کی سرزمین کے پی کے ہویا پانچ دریاؤں سے سیراب ہوتا پنجاب، میرا پیارا پاکستان وہ گلدستہ ہے کہ جس کی خوشبو سے دنیا بھر سے سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس دھرتی کی مہمان نوازی ایسی کہ جو ایک بار آتا ہے تو گرویدہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس پاک ارض پر کئی ایسے مقامات ہیں جو کھوجے جانے کے لئے بے تاب ہیں مگر ناکافی سہولیات کی وجہ سے توجہ کا مرکز نہیں بن پاتے ہیں۔

صوفیاء کی سرزمین جنوبی پنجاب جہاں اپنی میٹھی بولی کی وجہ سے تو مشہور ہے ہی، وہاں کم ہی لوگوں کو اس بات کا علم ہو گا کہ پنجاب کے اس گرم ترین حصہ میں ایک مقام ایسا بھی ہے کہ جو مری جتنا ٹھنڈا، سوات جیسا خوبصورت ہے۔ قدرتی جھرنے ہویا جھیلیں، پہاڑی سلسلے ہوں یا پھر سنگلاخ وادیاں اس علاقے کی خوبصورتی کا کوئی ثانی ہی نہیں ہے۔ گزشتہ سالوں میں برفباری ہونے کی وجہ سے باقی صوبوں میں بسنے والے لوگوں اور سیاحت سے دلچسپی رکھنے والے افراد تک تو ڈیرہ غازی کے مغرب میں واقع پر افزاء مقام فورٹ منرو کی تو دھوم پہنچی۔ مگر اسی سے بیس کلومیٹر دور کوہ سلیمان کے دامن میں واقع کوہ ماڑی یا ماڑی کے بارے میں شاید ہی کسی کو علم ہو۔ اس کی وجہ اس مقام تک مواصلاتی رسائی نہ ہونا ہے۔

ضلع راجن پور کے مغرب میں 100 کلومیٹر کے فاصلہ پر موجود ماڑی تک جانے کے لئے دو راستوں کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جس میں سے براستہ فاضل پور، حاجی پور کی سڑک نسبتا بہتر ہے جبکہ دوسرا راستہ جام پور، داجل اور تاریخی جگہ ہڑند سے ہوتا ہوا جاتا ہے، کھڈوں سے بھری اس سڑک سے جاتے ہوئے انجر پنجر تو ہل ہی جاتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے سیاح یہاں جانے کے لئے زیادہ تر موٹر بائیکس کا استعمال کرتے ہیں جو کہ روڈ کی حالت میں سب سے بہتر آپشن ہے جبکہ گاڑیوں میں جیپ کا استعمال پتھریلے راستے کے لئے سب سے موزوں ہے۔

لنڈی سیداں سے آگے اونچائی کی طرف جاتے ہوئے بل کھاتی سڑک آگے آنے والے خوبصورت نظارے کی چاہ میں آپ کی ساری تکان اتار دیتی ہے۔ ماڑی پہنچتے ہی آپ کو پتھروں سے تیار کی گئی چند دکانیں نظر آئیں گی جہاں پر منرل واٹر، کولڈ ڈرنکس اور کھانے پینے کے لئے بسکٹس جیسی اشیاء مل جاتی ہیں مگر دوردراز کا علاقہ ہونے کی وجہ سے نرخ بہت زیادہ ہوتے ہیں، اسی طرح چند پنکچر اور مٹھائی کی دکانوں کے ساتھ چائے کا ہوٹل مل جاتا ہے۔

یہاں درجہ حرارت سخت گرمیوں میں بیس ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے لیکن راتیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں۔ ہوٹل، سرائے یا گیسٹ ہاؤس جیسی آرائش یہاں دستیاب نہیں ہیں تو سیاح یا تو دن گزار کر شام ڈھلے واپس آ جاتے ہیں یا پھر کوئی ایڈونچر سے بھرپور انسان کیمپنگ کر سکتا ہے۔ قبائلی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں بارڈر ملٹری پولیس ہی سکیورٹی کے انتظامات کو سنبھالتی ہے جبکہ ہسپتال یا انتظامی مشینری کا کوئی بھی دفتر یا پھر اہلکار نظر نہیں آتا ہے۔

پانچ ہزار فٹ کی اوسط بلندی پر واقع اس خوبصورت مقام سے طلوع آفتاب کا منظر بلاشبہ وہ نظارہ ہے جس کی یادیں ساری زندگی آپ کا سرمایہ رہیں گی۔ یہاں پر رہنے والی بلوچ آبادی پتھروں سے بنے ہوئے گھر یا پھر گھاس پھونس کی جھونپڑیوں میں رہتی ہے اور گزر بسر جانوروں پر کرتی ہے۔ یہاں پر قابل دید مناظر سے بھرپور علاقے جلیبی موڑ، وادی زیارت، وادی پیرمانکہ ہیں اس کے علاوہ کٹی پہاڑی، (جس کے بیچ سے نیلگوں پانی پر مشتمل جھرنا گزر رہا ہے ) اور ہرٹ لیک یعنی کہ دل کی شکل والی جھیل بھی خوبصورتی میں بے مثال ہے۔

وادی زیارت یہاں کا سرسبز علاقہ ہے جہاں کھجور کے درخت اور پتھروں سے جاری آبشاریں آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہوئی چلی جاتی ہیں۔ یہاں پر ایک بزرگ کا مزار بھی واقع ہے جہاں قریبی علاقوں سے زائرین موسم گرما میں حاضری کے لئے رخ کرتے ہیں۔ یہاں کی آبادی موسم سرما میں اپنے مویشیوں کو لے کر میدانی علاقوں میں چلی جاتی ہے کیونکہ یہاں پینے کے پانی کا واحد ذریعہ یہاں کی جھیلیں ہیں جو بارشیں ہونے کے وجہ سے بھرتی ہیں۔ سردیوں میں یہاں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یکبہی نامی چوٹی پر برفباری بھی ہوتی ہے۔

یکبہی چوٹی سطح سمندر سے 7400 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس پہاڑی سلسلہ کا سب سے اونچا مقام ہے۔ اس علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے صدر پرویز مشرف سے لے کر سابق وزیراعلی شہباز شریف کی جانب سے کئی بار اعلانات کیے گئے مگر بس صرف ایک سڑک ہی تعمیر کی جا سکی جو طوفانی بارشوں کے نتیجے میں آنے والی رود کوہیوں کی نذر ہو کر شکست و ریخت کا شکا ر ہے۔

موجودہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے یہاں کا دورہ کر کے اس علاقے کو سیاحتی مقام کا درجہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے چار چھوٹے ڈیمز، ایک ریسٹ ہاؤس اور فورٹ منرو تا کوہ ماڑی 20 کلومیٹر لنک روڈ بنانے کی بھی نوید سنائی۔ مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو، تاحال یہاں کوئی قابل ذکر منصوبہ نہیں شروع ہوسکا ہے۔ رواں سال عید الاضحی پر کے پی کے میں 27 لاکھ سے زائد افراد نے سفر کیا، دیکھا جائے تو ڈیرہ غازی خان تک سڑکوں کی صورتحال بہت بہتر ہے۔

ڈیرہ غازی خان سے راجن پور نیشنل ہائی وے کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ جام پور سے ماڑی تک کارپٹڈ سڑک اور ٹیلی کمیونیکیشن کی سہولت فراہم کردی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہسپتال اور پینے کا پانی اور رہائش کا انتظام ہو جائے تو یہ علاقہ سیاحوں کی جنت ثابت ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں کہیں بھی ایسا علاقہ نہ ہو گا جو قدیم تہذیب، جھرنوں، سرسبز وادیوں، صوفیاء کے مزاروں اور مہمان نوازی جیسے خوبصورت امتزاج پر مشتمل ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments