افسانہ۔ بک شیلف


بابا جی کی کٹیا کا دروازہ ان کے دل کے دروازے کی طرح ہمیشہ کھلا رہتا۔ ہر شام چند طلبا و طالبات ان سے فیض حاصل کرنے آتے۔ وہ جب کٹیا میں داخل ہوتے تو انہیں چاروں طرف بابا جی کی بیسیوں کتابیں بکھری نظر آتیں۔ چند کتابیں میزوں پر ’چند کرسیوں پر اور چند فرش کے قالین پر ۔ وہ قریب آتے تو کیا دیکھتے کہ بابا جی کسی کتاب پر جھکے اس کا بغور مطالعہ کر رہے ہیں۔ وہ پاؤں کی چاپ سن کر ان کی طرف دیکھتے اور مسکراتے ہوئے ان کا خیر مقدم کرتے۔ طلبا و طالبات ان کے قریب زمین پر ہی بیٹھ جاتے۔ پھر بابا جی کہتے

’میں تمہارے لیے سبز چائے بناتا ہوں‘ اور اٹھ کر چلے جاتے۔
اگر کوئی چائے بنانے کی اجازت مانگتا تو وہ منع کر دیتے۔ وہ سب کو اپنے ہاتھ سے بنائی چائے پلاتے۔
ایک دن ایک طالبہ نے پوچھا ’آپ ہمیشہ کتابیں کیوں پڑھتے رہتے ہیں؟‘

بابا جی مسکرائے اور کہنے لگے ’مجھے بچپن سے کتابوں کا شوق ہے۔ ادیب میرے استاد ہیں اور کتابیں میری استانیاں میں نے ان سے زندگی کے بہت سے راز سیکھے ہیں‘ ۔

دوسرے طالب علم نے کہا ’کیا آپ لکھتے بھی ہیں؟‘

بابا جی نے کہا ’میری کٹیا کے دائیں طرف کتابیں ہیں اور بائیں طرف کاغذ اور قلم۔ جب لکھنے کو جی چاہتا ہے تو میں کتابیں چھوڑ کر کاپیوں کی طرف چلا جاتا ہوں اور ایک غزل‘ نظم ’مقالہ یا افسانہ لکھ لیتا ہوں۔ میں نے کئی کتابیں لکھی ہیں اور اپنا ادبی قرض اتارا ہے‘ ۔

تیسری طالبہ نے پوچھا ’بابا جی آپ اتنا جھک کر کیوں پڑھتے ہیں؟‘

بابا جی ہنسے پھر کہنے لگے ’میری آنکھوں کی بینائی کمزور ہو رہی ہے۔ کیوں نہ ہو اب میری عمر اسی برس ہو گئی ہے‘

اگلی شام ایک طالب علم بابا جی کے لیے ایک محدب عدسہ لے آیا۔ کہنے لگا
’ بابا جی اس سے پڑھنے کی کوشش کریں تو الفاظ بڑے بڑے دکھائی دیں گے۔ پڑھنے میں آسانی ہوگی۔‘

بابا جی کہنے لگے ’تم نے بہت اچھا کیا یہ تحفہ لے آئے۔ اس کا بہت فائدہ ہو گا۔ اب سوچتا ہوں مجھے خود اس کا خیال کیوں نہ آیا۔‘

پھر بابا جی نے اپنے ماضی کے دھندلکوں میں جھانکتے ہوئے کہا
’کیا تم محدب عدسے کا راز جانتے ہو؟‘
سب طلبا و طالبات نے پوچھا ’وہ کیا ہے‘ ؟
بابا جی نے کہا ’محدب عدسہ آگ لگا سکتا ہے‘ ۔
’وہ کیسے‘ ؟ ایک طالب علم نے پوچھا

’ جب میں بچہ تھا تو سہ پہر کو ایک کاغذ اور محدب عدسہ لے کر کسی باغ میں چلا جایا کرتا تھا اور جب میں سورج کی روشنی کو کاغذ پر مرکوز کرتا تو دو منٹ سے کم عرصے میں کاغذ کو آگ لگ جاتی اور وہ جل اٹھتا۔ میں وہ آگ دیکھ کر بہت خوش ہوتا مجھے ایک بچہ ہونے کے باوجود ایسے لگتا جیسے میں کوئی جادوگر ہوں‘

سب طلبا و طالبات بابا جی کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے۔

پھر بابا جی نے کہا ’زندگی میں بھی وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کی شخصٓیت میں تخلیقی محدب عدسہ ہو۔ ایسے لوگ اپنی توجہ اپنے کسی کام‘ کسی خواب یا کسی آدرش پر مرکوز کر لیتے ہیں اور کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ عوام و خواص کے دلوں میں جذبوں کی آگ لگا دیتے ہیں ’

طلبا نے ایک دن بابا جی سے کہا
’آپ کی اجازت ہو تو ہم مل کر آپ کی کتابوں کر ترتیب دے دیں۔ ‘
’نہیں انہیں بے ترتیب ہی رہنے دو ۔ اس بے ترتیبی میں بھی ایک ترتیب ہے‘
’ لیکن پچھلے ہفتے آپ کو کنفیوشس کے اقوال نہیں مل رہے تھے‘

’لیکن آپ کے جانے کے بعد مجھے وہ کتاب مل گئی۔ تلاش کرنے کا بھی اپنا مزا ہے۔ میں کنفیوشس کا زریں اور سنہری قول تلاش کر رہا تھا‘

’وہ کیا ہے‘ ؟
’کنفیوشس فرماتے ہیں دوسروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو جیسا کہ تم چاہتے ہو وہ تم سے کریں‘
ایک شام ایک طالب علم نے بابا جی سے پوچھا
’آپ کا پسندیدہ دانشور کون ہے؟‘
’سقراط‘
وہ کیوں؟

’سقراط موت سے نہ ڈرتے تھے اور جو شخص موت سے نہ ڈرے وہ کسی اور چیز سے نہیں ڈرتا۔ ایسا انسان بہادر ہوتا ہے۔ ان کے دوست موت سے ایک رات پہلے ان کو لینے آئے تھے۔ وہ انہیں رات کی تاریکی میں کسی دوسرے ملک لے جا سکتے تھے لیکن سقراط نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور اگلے دن اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پی لیا۔ وہ اپنے سچ کے ساتھ وفادار تھے۔ ‘

پھر بابا جی نے طلبا و طالبات کی ملاقات ایک نئی خاتون سے کروائی جس کا نام مہ جبین تھا۔
سب کے سامنے مہ جبیں نے کہا ’میں آپ کے لیے چائے بناتی ہوں‘

سب طلبا و طالبات حیران ہوئے جب بابا جی نے کہا ’نیکی اور پوچھ پوچھ اور کچھ چائے ہمارے مہمانوں کے لیے بھی بنائیں‘

پھر مہ جبیں نے سب کے سامنے بابا جی کی کتابیں مرتب کرنی شروع کر دیں اور بابا جی خاموشی سے سب کچھ دیکھتے رہے۔

ایک شام مہمانوں سے نہ رہا گیا اور پوچھ ہی لیا
’بابا جی آپ مہ جبیں کی ہر بات مان لیتے ہیں‘
بابا جی مسکرائے اور کہنے لگے ’وہ بہت معصوم اور مخلص ہے۔ اس کا چہرہ بھی کتابی ہے‘
’لیکن آپ اس کی ہر بات نہ مانا کریں‘
’کیوں نہ مانا کروں‘
’وہ کہیں آپ کو نقصان نہ پہنچا دے‘
’ وہ بھلا مجھے نقصان کیوں پہنچائے گی۔ وہ تو مجھے فائدہ پہنچانا چاہتی ہے‘
’ جب کوئی انسان جذبات کی رو میں بہہ جائے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے‘

ایک دن سب بیٹھے تھے تو مہ جبیں آ گئی اور کتابوں کو ترتیب دینے لگی۔ بابا جی نے سب کے سامنے پوچھا ’آپ کتابیں کیوں ترتیب دے رہی ہیں؟‘

مہ جبیں نے کہا ’میں ایک زمانے میں لائبریری میں کام کیا کرتی تھی۔ مجھے کتابوں کو ترتیب دینے کا بڑا شوق ہے‘

’ کیا تم نے ارجنٹینا کے ادیب بورخیز کا نام سنا ہے‘
’نہیں‘

’وہ بھی ارجنٹینا کے شہر بونازارس کی ایک لاکھ کتابوں کی لائبریری کے لائبریرین تھے اور کہا کرتے تھے کہ جنت باغ نہیں لائبریری کا نام ہے۔ لیکن پھر وہ چالیس برس کی عمر میں نابینا ہو گئے۔ ‘

ایک طالب علم نے کہا ’بابا جی بورخیز کے بارے میں کچھ اور بتائیں‘
بابا جی نے کہا ’ایک دن بورخیز سے ایک اجنبی ملنے آیا۔ کہنے لگا میرا نام پول تھیرو ہے۔
بورخیز نے کہا ’کیا تم وہی پول تھیرو ہو جس نے چند سال پہلے جیمز جوئیس پر تنقیدی مضمون لکھا تھا؟‘
ہاں میں وہی پول تھیرو ہوں ’
’میں تمہاری تحریروں کا مداح ہوں‘
’اور میں آپ کی تحریروں کا ‘
’تم نے اچھا کیا مجھ سے ملنے آ گئے‘ ۔
’انگلستان سے چند ہزار میل کا فاصلہ طے کر کے‘

’اچھا پول تم جانتے ہو میں چند سالوں سے نابینا ہو گیا ہوں۔ میری دوست نے میری سب کتابیں شیلف میں اے سے زی تک سجا دی ہیں۔ تم خلیل جبران کی کتاب۔ پروفیٹ۔ نکالو اور مجھے ان کی بچوں کے بارے میں نظم سناؤ۔ وہ میری پسندیدہ نظموں میں سے ایک ہے۔ ‘

وہ نظم سننے کے بعد بورخیز نے پول تھیرو سے کہا
’آج شام تم میرے مہمان ہو میں تمہیں اپنے پسندیدہ ریستوران لے کر چلتا ہوں‘ ۔

پول تھیرو لکھتے ہیں بورخیز نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور آگے آگے چلنے لگے اور زندگی میں پہلی دفعہ میں نے ایک نابینا انسان کو اپنا خضر راہ بنایا۔ جب بورخیز ریستوران میں داخل ہوئے تو پول تھیرو یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ ریستوران میں سب حاضرین بورخیز کے احترام میں کھڑے ہو گئے اور اس وقت تک کھڑے رہے جب تک وہ اپنی پسندیدہ میز پر جا کر بیٹھ نہیں گئے۔ پول تھیرو لکھتے ہیں کہ وہ کسی ایسے بادشاہ یا وزیر کو بھی نہیں جانتا جس کی لوگوں نے اتنی عزت کی ہو۔

بابا جی کی باتیں سن کر مہ جبیں نے کہا۔

’میں بھی بورخیز کی کتابوں کی طرح آپ کے لیے دو بڑے بڑے بک شیلف لے آؤں گی اور ساری کتابیں الف سے ے تک سجا دوں گی۔‘

سب طلبا و طالبات کا خیال تھا کہ بابا جی مہ جبیں کو منع کر دیں گے۔ لیکن وہ خاموش رہے اور حاضرین بھی خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور حیرانی سے مسکراتے رہے۔

اس ملاقات کے بعد چند دن کی چھٹیاں تھیں اور طلبا و طالبات اپنے والدین سے ملنے گھروں کو چلے گئے تھے۔

وہ جب گھروں سے لوٹے تو بابا جی سے ملنے ان کی کٹیا میں گئے۔ لیکن کیا دیکھتے ہیں کہ کٹیا کے باہر ایک خون کی لکیر ہے اور خون بھی تازہ ہے۔ وہ کٹیا کے اندر گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بابا جی پر کتابوں کا بک شیلف گرا ہوا ہے۔ وہ کتابوں کے ایک بڑے سے ڈھیر میں دفن ہیں اور ان کے سر سے خون بہہ رہا ہے جو بہتے بہتے کٹیا کے باہر تک پھیل گیا ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments