پیرنٹس ویزا اور لبرلز گورنمنٹ


یہاں کینیڈا میں ہماری پاکستانی کمیونٹی کو لبرلز بہت پسند ہیں الیکشنز کے دنوں میں تو یہاں بھی اکثر لوگوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ اس بار الیکشن اچانک افتاد کی طرح آیا اور ہم سب کے پیارے ٹروڈو صاحب ایک بار پھر پی ایم بنے مسکرا رہے ہیں ان کی تصاویر اور ویڈیوز کے ساتھ ساتھ ان کی کارکردگی سے شاید ہی دنیا کا کوئی شخص ہو جو انھیں پسند نہ کرتا ہو سوائے ان کے مخالفین کے۔

اتنی ساری پسندیدگی کے باوجود بہت سے حقائق ہیں جو اکثر ستاتے ہیں۔ تمام پہ بات شاید نہ ہو پائے۔ فی الحال اس پہ بات کروں گی جس سے میں خود گزر رہی ہوں۔

کووڈ کی وجہ سے ویزا اپلائی نہیں کر سکتے۔ اور میں جو پندرہ سال بعد امی ابو کا ویزہ اپلائی کرنے جا رہی تھی ادھر ہی مایوس ہوکے بیٹھ ہو گئی۔ امیگریشن ایجنٹ سے بات کی تو اس نے required documents کی مد میں مجھے کاغذات کی ایک لمبی لسٹ تھما دی۔ جن میں سے کچھ میرے تھے کچھ امی ابو کے۔ جن کو دیکھتے ہی میں اتنی تھک گئی کہ چند ہفتوں تک دوبارہ سوچا ہی نہ اس بارے میں۔ خیر میری سستی، کووڈ کے بار بار کے لاک ڈاؤن اور کاغذات کی تکمیل کا یہ سفر پچھلے اکتوبر سے شروع ہوا تو اس سال ستمبر تک بات آن پہنچی۔

”جی اوپر والے فلور پہ تین کمرے ہیں اور میرے دو بچے ہیں“ کام کے دوران ایجنٹ کی کال آ گئی تو انھوں نے بتایا کہ ہم نے کچھ سوال بھیجے ہیں اور میرے فوراً جواب پر انھیں ہنسی آ گئی ”جی میں نے سوال دیکھ لیے تھے جوابی ای میل کا ٹائم نہیں نکال پائی تب سے“

ڈاکومنٹس میں پراپرٹی اونر شپ، پیرنٹس کے بینک اکاؤنٹس اور جانے کون کون سے پیپرز کے ساتھ امی ابو کا نکاح نامہ بھی چاہیے تھا ”بھلا اس ملک میں ساتھ رہنے کے لئے کون سا نکاح کی شرط لاگو ہوتی ہے جو انھیں میرے امی ابو کا نکاح نامہ درکار ہے۔ چالیس سال سے اوپر ہو گئے ان کے نکاح کو ۔ آج بھی انھیں ایک ساتھ یہاں آنے کے لئے نکاح نامہ درکار ہے۔ حد ہے ویسے“ بھائی کو امی ابو کے نکاح نامے کی انگلش ٹرانسلیشن کا بولا۔

انہی دنوں سانحہ افغانستان کے پیش نظر ہمارے پی ایم نے ایک بار پھر دل کھول کے افغانستانی مظلوم عوام کے لئے اپنے ملک کے راستوں کے ساتھ ڈائریکٹ سیٹیزن شپ بھی کھول دی۔ اس سے زیادہ انسانی جذبہ اور کیا ہو گا؟ یہی سب سیریا کی عوام کے لئے بھی ہوا۔ ہم بحیثیت پاکستانی اور کینیڈینز پھولے نہیں سماتے کہ ہمارے پی ایم کو مسلمانوں کی کتنی تکلیف محسوس ہوتی ہے

مگر اس تکلیف کا کیا کریں جو ہمیں بحیثیت ادھورے شہری اپنی فیملیوں کو نہ بلا سکنے کی ہوتی ہے؟

میرے پیرنٹس کو میرے پاس آنے کے لئے کووڈ کی پابندیوں کے بعد نا ختم ہونے والے کاغذات، میرے نانا دادا کی جائے وفات کے ساتھ ساتھ ان کی جائے پیدائش کی تفصیلات، بینک اکاؤنٹس میں بھاری رقوم، میری فیملی انکم سٹیٹمنٹس کے ساتھ ساتھ ڈھیر تفصیلات کے باوجود بھی جانے ویزا لگنے میں کتنا ٹائم لگے جن کی بیٹی پچھلے سولہ سال سے یہاں بحیثیت انتہائی ذمہ دار شہری اپنے حقوق سے زیادہ فرائض نبھا رہی ہے اور یہ آواز کسی ایک بیٹی کی نہیں بہت بڑی تعداد ہے ایسی بیٹیوں کی جو کئی سال سے اپنے والدین کو بلانے کا سوچ رہی ہیں۔ اسی انتظار میں والدین بوڑھے سے بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں کہ وہ بھی دیار غیر میں بسنے والی اپنی بیٹیوں کے گھر دیکھ سکیں۔ میرے پاس ڈھیر مثالیں ہیں ایسے لوگوں کی۔

یہاں کی مصروفیت اور تنہائی انسان کو اندر سے مارتی رہتی ہے کہنے کو بہت سے دوست احباب، فیملی فرینڈز۔ سوشل سرکلز ہیں مگر اپنے نظر نہیں آتے ہر جگہ فارمل ہوکے جانا پڑتا ہے نہ جائیں تو لوگ ہمیں دکھوں کا مارا ہوا سمجھنے لگتے ہیں

خیر تو بات یہ تھی کہ ہم جو ہر سال وقت سے پہلے ٹیکس بھرتے ہیں، انتہائی ذمے دار شہری؛ بنا کسی بحث کے ہر چیز پہ ایکسٹرا ٹیکس دیتے ہیں، شہر کے امن و امان، تحفظ، صفائی ستھرائی، الیکشن کے ٹائم میں ووٹنگ اور ہر سوشل ویلفیئر ایکٹیویٹیز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ہمارے والدین کے آنے کے لئے ایک بار پھر ہمارا برتھ سرٹیفیکیٹ بھی درکار ہے۔ اور کل ہی ایک دوست نے بتایا کہ پیرنٹس ویزہ ایشو ہونے میں ڈیڑھ سال لگ رہا ہے۔

یہ بھی صرف ملٹی پل اینٹری یا سنگل اینٹری ویزہ کے لیے ہے کیونکہ پیرنٹس امیگریشن اب پاسیبل ہی نہیں رہا اتنا مشکل کر دیا گیا ہے۔ ایسے میں ملکی خانہ جنگی سے تنگ عوام کے لئے ہمارے پی ایم امیگریشنز اور سیٹیزنشپ کی عنایات کر دیتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ رہائش اور سوشل ویلفیئر کی رقم بھی ماہانہ مہیا کی جاتی ہے۔ آنے والے بیشتر افراد کم پڑھے لکھے، ان پڑھ ہونے کے ساتھ ساتھ انگلش زبان سے مکمل بے بہرہ ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے نوکری کی بجائے گھر بیٹھ کے عیش کرنے اور بچے پیدا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ جتنے بچے زیادہ اتنا چائلڈ بینیفیٹ زیادہ۔ دوسری طرف ہم ٹیکس شدہ شہری جن کی انکم کی بیس پہ چائلڈ بینیفٹس برائے نام ہی آتے ہیں اور ٹیکس پورا جاتا ہے

کمیونٹی سنٹر میں والنٹیر کرتے ہوئے فوڈ بینک کی ہیلپ کرنے کا موقع ملا تو فوڈ بینکس کی لائنز میں بیٹھے ہوئے بھی افغانی اور دیگر ممالک کے عربی لوگ۔ ان کے گھر بھی لو ہاؤسنگ کی مد میں آتے ہیں۔ گورنمنٹ کرایہ دیتی ہے انھیں۔ کھانے کی چیزیں فراہم کرتی ہے اور ساتھ اسائلم کی بنیاد پر فوری امیگریشن۔ ویسے تو اب پاکستانی بھی امیگریشن کے لئے اسائلم کی بنیاد پر آ جاتے ہیں اور یہاں آ کر پاکستان کو خوب بدنام کرتے ہیں۔

عنایات اور شکایات کی اس لمبی داستاں کی تان بس یہیں ٹوٹتی ہے کہ اس سارے اسائلم، امیگریشن پراسس سے نہ صرف کینیڈین گوری قومیں پریشان ہیں بلکہ ہم دیسی پاکستانی بھی جب خود پہ نظر ڈالتے ہیں تو یہ سب زیادتی لگتی ہے کہ ہمارے اور ہماری فیملیز کے لئے امیگریشن تو دور وزٹ ویزہ جوئے شیر لانے کے برابر کر دیا گیا ہے دوسری طرف عنایات اور مراعات کا ایک دور ہے جو ختم نہیں ہوتا کاش ہمارے پی ایم اپنی انتہائی ذمے دار عوام کے ان بڑے بڑے مسائل کے لئے کوئی چھوٹا موٹا اعلان کریں کہ ہماری فیملیز کا یہاں ہمارے پاس ہونا کس قدر ضروری ہے۔ شرائط کم ہو سکیں، دورانیے کم ہو سکیں اور پراسس اور کاغذات اتنے آسان ہو سکیں کہ ہمیں ایجنٹ کو صرف کیس فائل کرنے کے ہزار ڈالر نہ دینے پڑیں جس پہ یہ بھی گارنٹی نہیں کہ ویزہ لگے گا یا نہیں لگے گا اور اگر لگے گا تو کب تک لگ سکے گا اور کتنے ٹائم کا لگ سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments