ایک جیسی دیواریں


دیواریں نہ بولتی ہیں نہ سنتی ہیں، دیواریں بس دیواریں ہوتی ہیں، ایک جیسی دیواریں اور ایک جیسی بہت سی دیواریں۔ ان دیواروں کے درمیان سے ایک آواز سنائی دیتی ہے کہ وہ ماضی اور حال میں اجنبیت کی تمثیل کے ساتھ موجود ہے۔ اس کو حصار میں آزادی محسوس کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ یہ آزادی اور منصب مگر آزادی نہیں ایک قید کی مانند تھی۔ اس کے اطراف میں عمارتیں ہی عمارتیں ہیں اور ان میں موجود دیواریں ہی دیواریں۔ عمارتوں میں موجود بہت سی منزلیں تھیں۔

ہر منزل میں چار دیواریاں بالوقوع تھیں۔ منازل کو طے کرنے کے سفر میں کئی دروازے موجود تھے۔ دروازوں سے داخل ہوتے ہی دیواریں اپنا گھیرا تنگ کر لیتیں۔ اس کا پورا ماضی دیواروں سے لڑنے میں صرف ہو چکا تھا۔ آخر یہ دیواریں کب تک اس کو آذار میں رکھ پائیں گی۔ اس اجنبی کا نام معلوم ہو بھی جائے تو اس کی حیثیت خاطر خواہ نہ ہوگی۔

وہ دیواروں میں رہتے ہوئے صدا لگا رہا ہے کہ وہ بے نامی کے سفر کو بلاوجہ طے کیے جا رہا ہے۔ بلا وجہ تو نہیں اس مسافت کی وجوہات جبری تھیں۔ یہ جبر اس کی ذات میں اصل اور حقیقی نہیں بلکہ اس کی پابندی خود اختیاری تھی۔ اس کے نزدیک یہ مسافت کرب کی غیر معمولی تمثیل ہے۔ اس مثال میں وہ ان گنت دیواروں کا حصہ بن کر گنتی کے قدم اٹھا پاتا۔ یہ سفر اقدام کے بجائے وقت کے دھارے پر طے کیا جا رہا تھا۔ مختلف دیواریں مختلف عمارتوں میں اس کا خیر مقدم کرتیں۔ اس خیر سگالی کے بعد زیاں کا اندازہ ہوتا اور وہ عمارتوں اور دیواروں کا غلام بن کر رہ جاتا۔ گھنٹوں، منٹوں سیکنڈوں کو مخصوص کر کے اس کو دن بھر کے لیے خریدا جاتا تھا۔ وہ اپنے بکنے پر ملول نہ تھا بس اس نے اپنے بیچے جانے کو اس طرح نہ سوچا تھا۔

اس کے اندازے سے اقرب میں موجود حد سے زیادہ لوگ ان عمارتوں اور دیواروں میں قبولیت پانے کے لئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ نصاب میں استغراق کے بعد ان کے یقین کو سند کا نام دیا جاتا۔ اسناد یافتہ لوگ ماضی کے قصوں کو حرف آخر سمجھ کر جدت سے دوری اپناتے۔ جیسے تیسے مالی حیثیت کے واسطے پوری پوری زندگیاں دیواروں اور عمارتوں کو معاشرتی سطح پر ودیعت کردی جاتی تھیں۔ اس کو ایسا محسوس ہوا لوگ کاغذی ٹکڑوں کے حصول کی وجہ ان عمارتوں اور دیواروں میں مقام پانا بتاتے۔ کچھ کو اسناد اور طے شدہ علوم پر ایمان لانے کا جنون تھا۔ اس ضمن میں دیواریں ایسے لوگوں کو تو خوب آسودگی فراہم کرتیں تھیں۔

وہ ایک جیسی دیواروں میں سے بلند آواز ہے کہ یہ دیواریں لوگوں کی وارث بن چکی ہیں اور دیواروں کی وارث بہت سی عمارات۔ ان عمارتوں کا بھی یقیناً کوئی وارث ہو گا۔ وہ خود ایسی وراثت سے عاق ہوجانا چاہتا تھا۔ وہ دیواریں بھی چنے گا، عمارات کا حصہ بھی بنے گا مگر جن دیواروں اور عمارات کی تلاش اس کو ہے وہ اس کے فہم اور سفر کی تقویت کا باعث ہوں گی۔ باوجود وہ عمارات اس کی وارث نہیں بن سکتیں بلکہ اس کا استقرا ان دیواروں اور عمارات کے ورثے مقرر کر سکتا ہے۔

وہ مادے کو ذیلی قرار دے کر ریشگی کو طوالت بخشنا چاہ رہا ہے۔ وہ اس کی ذات میں موجود تحریک کو مخطوطے کی صورت پیش کرنا چاہتا ہے۔ جہاں بھی یہ موقع ہو ان دیواروں میں اپنی زندگی کو تحلیل کرنا اس کی تسکین کا مرکز ہو گا۔ وہ بھی ایک جیسی دیواروں میں غلامی کو قبول کر لے گا، مگر ان دیواروں میں جو اس کے وجود کو مفتوح بنا دیں۔

جہاں وہ مسؤل ہے وہاں اس کے باطن میں موجود تخیلات ہی اس کو وقت نہیں دیتے تھے۔ وہ خیالات، تخلیقات کی آزادی چاہتا تاکہ وہ اپنے لئے اثبات پیدا کر سکے۔ اس کے اصل کو فروغ دینے سے وہ خوش اسلوبی کے ساتھ خدمات سر انجام دے سکتا ہے۔ جگہ جگہ اس کے آجروں سے مکالمے ہوتے اور جگہ جگہ وہ مخصوص دیواروں میں اپنا کردار ادا کرتا۔ یہ اداکاری کے اتار چڑھاؤ اس کے انتخاب کے وقت ہی بتا دیے جاتے تھے۔ وہ کردار کے خصائص سے نا آشنا ہوتا اور اپنی زندگی، اپنی تخلیقات، اپنے افکار کو ایک جیسی دیواروں میں جاکر قربان کر دیتا۔

ہر طرح کی غلامی مختلف مناصب کے باوجود اس کو ایک جیسی دیواروں کا احساس دلاتی۔ وہ ہر جگہ، ہر نئے مکتب میں غلامی کے بعد دیواروں کو پچھلے مکتب کی دیواروں کی مثل بتاتا۔ الحاصل امسال یا کئی سال اس کو ایک جیسی دیواروں کا سامنا ہے جو بس اس کی مرات اور معاشی آسودگی میں اضافت کا سبب ہوتیں یا ہوتی رہیں گی۔ اس اضافت کے خاطر وقتی طور پر قید ہوجانا شاید غیر فطری ہے۔ راتب کا بڑھ جانا یا اس کے روز مرہ کے معاملات کا رواں رہنا ان دیواروں سے وابستہ غلامی پر منحصر ہے۔

وہ آجروں سے وابستہ رہتے ہوئے اعلان کر رہا ہے کہ اس غلامی کے حصول کی قیمت ہے۔ وہ قیمت شعور اور تخلیقات کی قربانی ہے۔ اس قربانی کا کوئی نعم البدل نہیں اور نہ اس کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ دیواریں اپنے رنگ مختلف عمارتوں میں ہونے کے باعث تبدیل کرتیں مگر ان کا مقصد وجود ایک ہی ہے۔ وہ ژرف نگاہ اور اپنی صلاحیتوں کو ایک کاوش کی صورت پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے شعور اور تخلیقی سفر کی غلامی تو کر سکتا ہے، مگر خارجی دنیا کے احکام کو باطن میں مرتبہ نہیں دے سکتا۔

افسوس یہ نہیں کہ اس کو ایک جیسی دیواروں کا سامنا تھا، افسوس یہ کہ عالمی و معاشرتی امتزاج اس سے زندگی بھر یہی مشقت کروانے والے ہیں۔ وہ مشقت کو قبول کر سکتا ہے مگر اپنے فہم کی قربانی کیسے دے گا۔ وہ دیواروں پر نہ چاہتے ہوئے بھی ایمان لے آیا ہے اور یہ قربانی وہ دن بدن دیتا چلا جا رہا ہے۔ بتدریج قربانی سے اس کو تکلیف برداشت کرنے کی عادت ہوتی جا رہی تھی اور وہ احساس زیاں کو آسانی سے قبول کر رہا تھا۔ وہ بچشم سر اپنے افکار کو معاشرتی امتزاج سے محروم بتا رہا ہے۔

اسکے مطابق وہ اپنا دفاع دیواروں سے سمجھوتے کے تحت کر رہا ہے۔ ایک جیسی دیواریں اس کو کسی نئی جہت کا حصہ نہیں بننے دیں گی۔ ان دیواروں کا مقصد معاوضے کے عوض ثقالت ہے۔ وہ ثقالت جس کے ذریعے سوچ اور جہات کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ وہ ژرف نگاہ کے اشتمال سے ان دیواروں کا منشور سمجھنا چاہتا ہے۔ کیا اسناد کی افتاد پر غیر معمولی راتب حاصل کر لینے کو زندگی کا محرک مان لیا جائے گا۔ وہ جان چکا ہے ان ایک جیسی دیواروں کا مقصد واحد پابندی شعار ہے۔

جب سے اس نے غلامی کا استقبال کیا، وہ اپنی صلاحیتوں کی بیع میں مصروف ہے۔ بہترین ملبوسات میں سے جھانکتی غلامی نے اس کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا۔ مختلف اداروں سے منسلک ہونے نے اس کو معاشرے میں مکرم کیا۔ ایک جیسی دیواروں نے اس کی زندگی کو مالی زندگی سے دور کیا۔ ان دیواروں میں بسنے والے کچھ بہت زیادہ آسودہ حال تھے۔ کچھ کی مرات معمولی ہونے کے باعث فقط ان کی زندگی رواں رہتی ہے۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ عنوان شباب میں اپنے فہم اور علم کی عمارت تعمیر کرے گا۔

اس کی عمارت کی بنیاد ابھی ڈل ہی رہی تھی کہ بہت سی عمارتوں نے اس کا استقبال کیا۔ وہ استعجاب اور حظ کے اس انداز کو نقد کے ساتھ ساتھ قبول بھی کر لیتا ہے۔ ایسا ہی ہے وہ مضطرب الحال اپنی شکست کے منظرنامے کا تماش بین ہے۔ فرداً فرداً سب اس شکست کو فتح یابی سمجھنے لگیں ہیں۔ اس کی قوت بینائی ان کی اور اپنی حالت پر زار زار تھی۔ الحاصل وہ ایک جیسی عمارتوں میں گم ہو گیا۔ اس گمشدگی سے اس کی اپنی عمارت مستحکم ہونے سے قبل ہی منہدم ہو گئی۔

اسکی بصارت کے مطابق سرمایہ دارنہ نظام اب سرمائے سے ماورا ہو گیا ہے۔ اب کاغذ پر مبنی مال کے ساتھ اذہان اور فہم کو پابند کیا جاتا ہے۔ معاشرتی سطح پر اس عمل سے فہم کو ایک جیسی دیواروں میں مقید کیا جاتا ہے۔ ملازمت کرتے لوگ لباس کے بھرپور انداز سے اپنے آپ کو معاشرتی سطح پر ثابت کرتے ہیں۔ ان کو اپنے ضائع ہونے کا احساس بھی نہیں ہوتا اور کئی افہام ایک جیسی دیواروں میں ساری زندگی گزارنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ کوئی بطور مجبوری اور کوئی شوق سے ان دیواروں کو اپنا صنم بنا لیتے ہیں۔ اصنام پرستی کے اس عمل کے پیچھے مکمل یا پروان چڑھتا نظام تھا جو ان دیواروں کی عبادت کو مستقلاً فروغ دیتا ہے۔

یہ دیواریں اس کے نزدیک ان بتوں کی شکل اختیار کر چکی تھیں جو لوگوں کے لاشعور میں رہتے ہوئے ان کو شعوری طور پر قابو رکھتیں۔ ان دیواروں میں اکثریت اپنے ہونے اور نہ ہونے سے ماورا بے جان مادے کی حیثیت قبول کر چکی تھی۔ وہ اپنی زندگی کی بقاء کے خاطر ان دیواروں کو مسخ کر دینا چاہتا ہے۔ دیواروں سے ایسی دشمنی اقرب کے نزدیک گناہ ہے جس سے ان کو متنوع کیا گیا تھا۔ یہ دیواریں اس کو مسکرا کر احساس دلاتیں کہ اس کا وجود ناکام ہے۔

اس کے اقرار اور انکار کے باوجود دیواریں ہی بت ہیں، دیواریں ہی صنم ہیں، دیواریں ہی خدا ہیں جس کے بندے بندگی میں خشوع و خضوع محسوس کرتے ہیں۔ وہ سرمایہ کاری کے دور میں دیواروں کے درمیان ان لوگوں کو بھی پاتا جن کو اپنے فروخت ہو جانے کا علم بھی نہ تھا۔ الحاصل وہ بھی آجروں کو اپنے وجود پر مختار پاتا۔ کس بے دلی سے اور اقرار صالح کے بغیر اس نے ان اصنام کی بندگی شروع کی تھی۔

وہ بس دیکھ رہا ہے کہ پورا شہر، پورا ملک، پوری دنیا عمارتوں میں موجود دیواروں میں چن دی گئی ہے۔ ان ایک جیسی دیواروں نے جستہ جستہ انسانوں میں عجلت کا بیج بو دیا تھا۔ تعجیلی وجود اس معاشی و غیر فطری نظام کو زندگی کا حقیقی مقصد مان چکے ہیں۔ وہ اس افسانے کو حواس کے محدود ذرائع کے ساتھ حقیقی انداز میں طول دیتا۔ اس نے ایک جیسی دیواروں کو اقتدار مان کر خود کو ان میں پیش کیا۔

فقط اس کا مستقبل ایک جیسی بہت سی دیواروں سے خوفزدہ ہے اور وہ محض ان دیواروں میں موجود ایک منافق۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments