حکمران اور خوشبو دار دیو داسیاں


کہتے ہیں کہ خدا جب حسن دیتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے بالکل اسی طرح جب انسان کو طاقت اور اختیار ملتے ہیں تو اس میں بھی نزاکتیں آ ہی جاتی ہیں۔ اور اگر تخت نشین صاحب اختیار و اقتدار کو حسن کی رفاقت میسر آ جائے تو پھر داستانیں رقم ہوتی ہیں۔ محلات کی نیم تاریک خوابگاہوں میں طاقت اور اختیار کے مابین ہونے والی سرگوشیاں محلات سے باہر بھی سنائی دینے لگتی ہیں۔ حسن شریک اقتدار ہو تو کہانیاں بھی بنتی ہیں اور قصے بھی سنائے جاتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ بادشاہوں کے تاج اپنی خدمت پر مامور داسیوں کے قدموں میں دھرے رہے ہیں۔ نگاہ یار کی خفگی ذرا کم ہوئی تو محلوں میں دیپ جل اٹھے اور اگر مزاج یار برہم ہے تو گویا محل پر بھی ویرانے کا گماں ہوتا تھا۔ گویا ان محلات کی رونقیں اور تخت شاہی کا جاہ و جلال ان من پسند داسیوں کے موڈ مزاج کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔

وقت بدلا، حالات بدلے، طرز حکومت اور انداز شاہی بدلے مگر حسن اور طاقت کا رشتہ نہیں بدلا۔ یہ تعلق روز ازل کی طرح آج بھی سب سے مضبوط اور پائیدار ہے۔ اس تعلق کو پائیدار ہونا بھی چاہیے کہ امور مملکت کے بوجھ، مشکلات، درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی تو خوبصورت کندھا دستیاب ہو جہاں پر ہر شام سر رکھ کر انسان ان الجھنوں سے فرار حاصل کرسکے۔ کوئی تو ایسا ہو کہ جس کے دیکھنے سے چہرے پر رونق آ جائے۔ کسی کی زلف مشکبار میں انسان کچھ دیر کو چہرہ چھپا کر سکون کے کچھ لمحے گزار سکے۔

اور ان خوبصورت چہروں کو جنرل نیازی خوشبودار دیو داسیوں کے نام سے پکارتے تھے۔ ایوان اقتدار میں اگر یہ خوشبو دار دیو داسیاں موجود نا ہوں تو حکمرانی کس قدر مشکل اور کٹھن ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جو تخت نشین ہوتے ہیں جبکہ عام آدمی کو ان مسائل کا کیا علم وہ تو فکر معاش کے ساتھ ساتھ گناہ و ثواب کے چکروں میں الجھے ہوئے ہوتے ہیں۔

ہماری سیاسی تاریخ بھی ایسی ہی بے شمار خوشبو دار داسیوں کے قصے کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ فالج زدہ گورنر جنرل ملک غلام محمد کی غوں غاں کو احکامات میں بدلنے والی مس بورل کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ مس بورل مسکراتیں تو گورنر جنرل کھل اٹھتے اور اس طرح امور مملکت خوش دلی کے ساتھ انجام دیے جانے لگتے۔ یہ حسن ہی تھا جس کی بدولت ایک معذور مگر طاقتور گورنر جنرل ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے اور کسی نے برا نہیں منایا۔

یہی نہیں بلکہ اقلیم اختر المعروف جنرل رانی سے کون واقف نہیں ہے۔ ایک وقت تھا کہ جنرل رانی کی نگاہ ناز سے دلوں کے قافلے لٹتے تھے۔ ایک ایسی باصلاحیت خاتون کہ صبح و شام اعلیٰ شخصیات ان کے در پر حاضری دیتی تھیں۔ جنرل یحییٰ کی منظور نظر جنرل رانی نے طاقت کے مرکز کو خوشبو دار دیو داسیوں کی فراہمی جاری رکھی۔

کہتے ہیں کہ اداکارہ ترانہ ایک بار صدر ہاؤس پہنچیں تو گارڈ نے اندر جانے سے روک دیا۔ انہوں نے خیر پیغام بھجوایا تو ترانہ کو فی الفور اندر بلوا لیا گیا جب کافی دیر بعد وہ واپسی کے لیے روانہ ہوئیں تو گیٹ پر کھڑے گارڈ نے ان کو سلیوٹ کیا تو انہوں نے کہا کہ سلیوٹ کیوں کر رہے ہوتو گارڈ نے کہا کہ پہلے آپ صرف ترانہ تھیں اب واپسی پر آپ قومی ترانہ ہیں اس لیے آپ کا احترام واجب ہے۔ ان کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے ان خوبرو چہروں کی جنہوں نے جانفشانی سے تخت نشینوں کے دل بہلائے ان کی وقتی پریشانیوں کو اپنی بے لوث موجودگی سے ختم کیا۔ صد افسوس کہ جب طاقت اور اختیار ختم ہوا تو یہ حسن بھی گہنا گئے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ہماری سیاسی تاریخ میں بہت سے نام ایسے ہیں جن کی عیاشیوں کی داستانیں زبان زد عام ہیں مگر ان کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ پارلیمنٹ سے بازار حسن تک، سیاست دانوں کے معاشقے، میڈا سائیں، ریحام خان جیسی کتابیں ان داستانوں سے بھری پڑی ہیں مگر اس سے سیاسی شخصیات کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ بلکہ وہ پہلے سے زیادہ مقبول ہوئے۔ شاید حکمران طبقے کا باکردار ہونا ہماری سیاسی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ 1991 میں میڈم طاہرہ کے اعترافی بیان کی آڈیو کے لیک ہونے سے لے کر عائشہ گلالئی کے ویڈیو بیان تک ککھ وی نہیں ہلیا۔

چیئرمین نیب کی مبینہ ویڈیو ہو یا پھر حریم شاہ کی طرف سے جاری ہونے والی ویڈیوز ہوں یا پھر مدارس میں ہونے والی جنسی زیادتی کی ویڈیوز ہوں یا پھر موجودہ زبیر عمر سے منسوب کردہ ویڈیو ہو لگتا یہ ہے کہ اب یہ ہماری روزمرہ کی سیاسی زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ ہر شخص جس کی ویڈیو ہوتی ہے یہ بیان دے کر کہ ویڈیو جعلی ہے بری الذمہ ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد خاموشی ہوجاتی ہے اور کچھ مدت بعد ایک اور نئی ویڈیو منظر عام پر آجاتی ہے۔ خدا جانے یہ سلسلہ کب تک چلے مگر جتنا چل چکا ہے اس کے بعد بہتری کی امید کرنا فضول ہی ہے۔

بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہے۔ ایک کے بعد ایک نئی ویڈیو سامنے آئے گی اور پاکی داماں کی داستانیں ماضی کا قصہ بنتی جائیں گی۔ یوں لگتا ہے کہ یہ جمہوری نظام کے اندر کی کشمکش نہیں بلکہ مافیاز کے مابین جنگ چھڑ گئی ہے۔ ایک ایسی ہولناک اور خون ریز جنگ جس میں فریقین نے طے کر لیا ہے کہ کچھ باقی نہیں چھوڑنا۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے جس حد تک جا سکتے ہیں جائیں گے اور اس سے انجام گلستاں کا اندازہ ہو سکتا ہے۔

مگر میرے عزیز ہم وطنو ان حالات سے گھبرانا نہیں ہے کیونکہ یہ سب چلتا رہے گا کیونکہ سیاسی اشرافیہ کی اپنی مجبوریاں ہیں یہ ان کے لیے عام سی بات ہے جس پر عوام فساد برپا کرنا چاہتی ہے۔ اب عوام کو کیا خبر کہ سیاسی اشرافیہ کے کیا مسائل ہیں اور کن مجبوریوں کے تحت وہ وقت گزار رہے ہیں۔ اگر یہ خوشبو دار دیو داسیاں نا ہوں تو خدا جانے کیا ہو۔ امور مملکت کیسے سرانجام پائیں گے، ذہنی یکسوئی کیسے حاصل ہوگی۔ لہذا سابقہ ویڈیوز کو بھلاتے ہوئے مزید نئی ویڈیوز کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں کیونکہ اب یہ معمول کی بات بنتی جا رہی ہے لہذا گھبرانا نہیں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments