میں ہوں مغرب کا المیہ!


انسانی معاشرے میں آئے روز کئی المیے جنم لیتے ہیں۔ کبھی ان کی نوعیت انفرادی ہوتی ہے تو کبھی گروہی۔ غاروں کے زمانے سے لے کر جدید ٹیکنالوجی کے دور تک، چشم فلک نے کئی انسانی المیے دیکھے۔ غلامی، قتل و غارت گری، جبر و استبداد، لوٹ ماری، عزتوں کی پامالی، یہ سب انسانی المیوں کی بھیانک شکلیں ہیں۔ سادہ معاشرے کے مسائل بھی سادہ تھے۔ جب سے معاشرتی ترقی کو صنعتی پہیے لگے ہیں تو زندگی میں عجب سی تیزی آ گئی ہے۔ انسانوں کے مسائل کی نوعیت بھی بدلنے لگی ہے۔ انفرادیت کا آسیب سر اٹھا رہا ہے۔ ایک افراتفری کا سماں ہے۔ فاصلے سمٹ کر ہتھیلی پہ آ گئے ہیں مگر دل کا سکون غارت ہو چکا ہے۔

قبائلی نظام دم توڑ چکا ہے۔ اب فقط چند قبائل رہ گئے ہیں، کچھ افریقہ اور ایمزون کے جنگلوں میں یا پھر ایشیاء کے پہاڑوں پر ۔ خاندانی نظام بھی اپنی آخری سانسیں لے رہا، عورت اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ بچوں کی تربیت اب والدین نہیں ریاست کے ذمہ ہے۔ ماں باپ تو بس روزی روٹی کمانے کا ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں۔ بچوں کی ذہن سازی، ریاستیں، اپنے ایجنڈے کے تحت کرتی ہیں۔ مسجد، چرچ اور مندر وغیرہ کا کردار سمٹ کر چند رسومات تک باقی رہ گیا ہے۔ سر سبز جنگلوں کی بجائے اینٹوں کے شہر آباد ہونے لگے ہیں۔ گھر، گھر نہیں رہے، مکان بن چکے ہیں جہاں صرف رات بسر کرنے کے لیے آیا جایا جاتا ہے۔

گھر تو اس چار دیواری کا نام ہے، جہاں چار ذی روح بیٹھ کر باتیں کر سکیں، ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹ سکیں، سکون سے رہ سکیں۔ اب تو چند گز کے فاصلوں پر بیٹھے لوگ، جیسے کہ اجنبی ہوں۔ ہتھیلیوں پر رکھی اپنی دنیا میں گم سم اور کسی سے محو گفتگو۔ وہ بھی اس سے جو ہزاروں میل دور بیٹھا ہوا کوئی انجان شخص جسے وہ جانتے تک نہیں۔ پہلے تو چار دیواری میں تحفظ کا احساس ہوتا تھا، پرائیویسی اور پردہ داری میسر تھی۔ اب تو یہ بھی معلوم نہیں کون کس کو دیکھ رہا ہے۔ کون کس کی سن رہا ہے۔ انسانوں کا باہمی عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔ دوسروں کی شر سے محفوظ رہنے کا حق محدود ہو تا جا رہا ہے۔ پہلے لوگ بد نظری سے ڈرتے تھے، اب ہر وقت کسی کی نظروں میں رہنے سے خوف کھاتے ہیں۔

وہ ڈرائینگ روم میں کشن پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی، اپنے دوستوں کو یہ بھاشن دے رہی تھی۔ کچھ دوست اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ آج کی ان پیاری دوست کو کیا ہو گیا ہے۔ وہ ہر چیز میں کیڑے نکال رہی تھی۔ اس کی ہر بات سے کوئی ناں کوئی منفی تاثر ابھر کر سامنے آ رہا تھا۔ مگر سب بونگے بن کر اپنی میزبان کی باتیں غور سے سن رہے تھے کیونکہ اس کی باتوں میں کچھ نہ کچھ، صداقت تو تھی۔

ویسے بھی انہیں لگ رہا تھا، ان کے دوست کی باتیں، ان کے دل کی آواز ہیں۔ وہ سب بھی تنہائی، یکسانیت اور مغربی معاشرے میں سر اٹھاتے اجتماعی اور انفرادی المیے کا شکار بن چکے تھے۔ ان کی دوست، عجیب طبعیت کی مالکہ تھی۔ کبھی ہنس ہنس کر بات کرتی تو کبھی اداس نظر آنے لگتی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا، اس کے دل کا کوئی پھپھولا پھوٹ چکا ہے۔ وہ ان کی میزبان تھی۔ اور مہمان تو و ایسے بھی بے زبان ہوتے ہیں۔ ان کی دوست نے اپنی پسندیدہ سگریٹ، امریکن سپرٹ سلگایا، اس کا ایک لمبا کش لگایا اور بولی:

میں ہوں مغرب کا المیہ۔ کاش میں انڈیا جیسے دیس میں پیدا ہوئی ہوتی جہاں لوگ میری پوجا کرتے، مجھے دیوی مانتے۔ معلوم نہیں اسے انڈیا میں پیدا ہونے کا شوق کہاں سے چرایا لیکن وہ سمجھتی تھی کہ بھارت ایک مدر سری معاشرہ ہے جہاں عورت کو دیوی کا درجہ حاصل ہے۔ اسے مغرب کی تہذیب سے گلہ تھا جس نے عورت کے کندھوں پر گھر اور باہر کا بوجھ لاد دیا تھا اور آزادی کے نام پر اس کا استحصال ہونے لگا۔ اس نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا، میں نے جہاں جنم لیا وہاں عورت کی حیثیت، گلی کے نکڑ میں لگے ایک بل بورڈ سے زیادہ نہیں۔ جو جب چاہے، جیسا چاہے، اپنی من پسند کا پیغام اس پر چپکا دیتا ہے۔

وہ اپنے عورت ہونے پر نالاں نظر آتی تھی۔ وہ آدم کی اولاد پالنے کی ذمہ داری نہیں اٹھانا چاہتی تھی۔ اس کی سگریٹ بجھ چکی تھی لیکن پھر بھی اس نے اسے زور سے ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے کہا، میں اپنی نسل آگے نہیں بڑھنے دوں گی۔ میں نے پکی نس بندی کروا دی ہے۔ جس حال میں میری زندگی گزری، ایسا جینا کسی کو نصیب نہ ہو۔ نہ میرے ماں باپ، نہ کوئی بہن بھائی، نہ کوئی رشتے دار، نہ کوئی جیون ساتھی، نہ کوئی غم خوار، نہ مدد گار۔ بس یہ میرا چھوٹا بچہ میری تنہائیوں کا ساتھی ہے۔ میں بس اس کے لیے جی رہی ہوں۔ پھر اس نے چوآوا نسل کے کتے کو اٹھایا۔ اسے چوما اور گود اپنی میں بیٹھا لیا۔

اس کا ایک مہمان مرد ساتھی بولا، ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ کاش اس دن میری ماں مجھے اپنے باپ سے ملنے سے منع نہ کرتی۔ میں بھی آج شہر کے امیر خاندان کا حصہ ہوتا۔ میری ماں نے مجھے اپنی جھوٹی انا کی بلی چڑھایا۔ کیا ہوا جو میرے باپ نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ وہ مجھے تو اپنے امیر باپ کے پاس رہنے دیتی۔ آج میں بھی اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح بڑی جائیداد کا مالک ہوتا۔ وہ پانچ سال کا تھا تو اس کے والدین میں طلاق ہو گئی۔ وہ اپنی ماں کے پاس رہنے لگا۔ ایک دن اس کا باپ ملنے آیا تو اس کی ماں نے اسے اپنے باپ سے ملنے سے روک دیا۔ جس کے بعد اس کے باپ نے کبھی اسے اپنی شکل نہیں دکھائی اور نہ ہی اسے اپنا بیٹا مانا۔ اس نے بیئر کی ایک لمبی ڈیک لگائی، آہ بھری اور خاموش ہو گیا۔

ڈرائینگ میں بیٹھی ایک اور خاتون ساتھی نے بھی اپنا رونا رویا۔ وہ فرنٹ ڈیسک افسر تھی۔ ایک دن اسے خبر ملی کہ اس کا باپ آخری سانسیں لے رہا ہے مگر وہ اسے دیکھنے کے لیے نہیں جا سکی کیونکہ اسے ڈر تھا کہ اگر وہ اپنے باپ سے آخری ملاقات کرنے گئی تو اس کے ورکنگ آورز کم ہو جائیں گے۔ باپ تو بوڑھا تھا۔ اس نے مرنا ہی تھا۔ اگر اس کے تنخواہ کٹ جاتی تو اس کے یوٹیلٹی بلز اور بچوں کی فیس کون ادا کرتا۔ اسے بھی اپنے باپ سے آخری ملاقات نہ کرنے کا دکھ تھا۔ اس نے بھی دوستوں کی محفل میں چار آنسو بہائے، اپنی بلی کو اٹھا کر گلے لگایا اور اسے زور سے بھینچا۔

تم اپنے آپ کو مغرب کا المیہ کیوں کہتی ہو، محفل میں بیٹھے ایک اور دوست نے اپنی میزبان ساتھی سے پوچھا۔ وہ بولی، میں ایک لو چائلڈ ہوں۔ میری ماں نے مجھے پیدا کر کے دنیا کی بے رحم تھپیڑوں کے حوالے کر دیا اور خود اپنے نئے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنے لگی۔ میرا باپ کون ہے، میں آج تک نہیں جانتی۔ میں اپنی خالہ کے گھر ایک یتیم کی طرح پلی بڑھی، جسے مجھ سے زیادہ میرے حصے کے ملنے والے سرکاری وظیفے میں دلچسپی تھی۔ میں ہائی سکول میں تھی تو میرا ریپ ہوا۔ میری خالہ نے آؤٹ آف کورٹ میرے مجرموں سے صلح کر لی، ان سے مالی فائدہ اٹھایا اور مجھے انصاف کے حصول کے لیے پولیس یا عدالت تک نہیں جانے دیا گیا۔

میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو بے گھر ہو گئی۔ میرے پہلے بوائے فرینڈ نے مجھ سے بے وفائی کی۔ میں سترہ سال کی تھی تو نہ چاہتے ہوئے بھی حاملہ ہو گئی۔ مجھے اپنے پہلے بچے کا حمل گرانا پڑا۔ میں آج بھی اپنے آپ کو اس بچے کی قاتلہ سمجھتی ہوں۔ میں بھلا ایسے بچے کو کیوں جنم دیتی، جسے کل مجھے چھوڑ کر جانا پڑتا جیسے میری ماں نے میرے ساتھ کیا۔ میں غریب تھی۔ مجھے نوکری کی ضرورت تھی۔ میں نے ہر جگہ نوکری تلاش کی مگر میرا بیک گراؤنڈ چیک کرنے کے بعد مجھے کہیں سے بھی اچھی نوکری کی آفر نہیں ملی۔ میں کوئی پیشہ ور مجرم نہ تھی۔ میرا قصور بس یہ تھا میرا کریڈٹ سکور خراب ہو گیا۔ میں کالج کا قرض نہیں چکا پائی اور ایک مرتبہ نشے کی حالت میں ہماری دوستوں کی کسی نائٹ کلب میں لڑائی ہو گئی اور مجھے کچھ دن جیل کی ہوا کھانا پڑی۔

وہ سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگاتی اور ماضی کی پرتیں کھولتی جا رہی تھی۔ وہ اپنی پہلی باقاعدہ شادی اور شوہر کا تذکرہ کر کے اور اداس نظر آنے لگی۔ اس نے بتایا کہ اس کا فوجی شوہر بہت اچھا لائف پارٹنر تھا۔ وہ میری پوجا کرتا تھا۔ اس نے مجھے خوش رکھا۔ زندگی کی ہر سہولت فراہم کی۔ لیکن میں اسے وہ نہ دے سکی جو وہ مانگتا تھا۔ میں بچے پیدا کرنے کے حق میں نہیں تھی اور اس کا تقاضا تھا کہ میں اسے دو بچے پیدا کر کے دوں۔ مجھے ماں بننے سے نفرت ہے۔ ایسی ماں بننے کا کیا فائدہ جو اپنے بچوں کو پال پوس نہ سکے جیسے میری ماں نے میرے ساتھ کیا۔ بالآخر ہم دونوں میں طلاق ہو گئی۔ وہ اب بھی مجھے ماہانہ خرچہ بھیجتا ہے لیکن میں اس کی زندگی سے بہت دور آ گئی ہوں۔

پھر وہ اپنی ریاست پر غصہ نکالنے لگی۔ اس نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ 2008 ء کے فنانشل کرائسس کے بعد وہ اپنے شوہر کے دیے ہوئے گھر اور گاڑیوں سے محروم ہو گئی۔ جن حکمرانوں کے دور میں غریبوں کی کمائی لٹ جائے اور ان کان پر جوں تک نہ رینگے تو انہیں ہم پر حکمرانی کا کوئی حق حاصل نہیں۔ وہ بڑے فخریہ انداز بولی، میں نے 2008 ء کے بعد ریاست کو ٹیکس دینا بند کر دیا ہے۔ جب تک یہ ریاست حقیقی معنوں میں ریپبلکن نہیں بنتی، میں ٹیکس نہیں دوں گی۔

جب تک یہاں آئین اپنے اصلی روح کے ساتھ نافذ کیا جاتا، میں ٹیکس نہیں دوں گی۔ وہ ہم سے اسلحہ واپس لینا چاہتے ہیں جو کہ ہمارا آئینی حق ہے۔ وہ ہمارے پرائیویسی کا احترام نہیں کرتے۔ ہماری ریاست فلاحی نہیں ایک سیکورٹی سٹیٹ بن چکی ہے۔ میں انہیں ٹیکس نہیں دوں۔ وہ میرے ٹیکس کے پیسوں سے اسلحہ بنا رہے ہیں، جنگیں لڑتے ہیں۔ میں ٹیکس نہیں دوں گی۔

اس کے ٹیکس نہ دینے کی گردان جاری تھی کہ اتنے میں اس کا کتا، سامنے بیٹھی مہمان کی بلی پر غرایا تو ڈرائینگ روم میں بیٹھے سب دوستوں کا دھیان، اس کی باتوں سے ہٹ کر جانوروں پر لگ گیا۔ وہ بلی اور کتے کی لڑائی سے محظوظ ہونے لگے۔ اپنے مالکوں کی تاڑتی نظروں کو دیکھ کر کتا اور بلی بھی جیسے شرما گئے ہوں۔ وہ اٹھ کر انگیٹھی کے سامنے جا بیٹھے۔ اتنے میں ایک دوست نے کہا، ہم پارٹی کب شروع کرنے والے ہیں۔ دراصل وہ دن ان کی خاص پارٹی کا دن تھا۔ سب دوست کافی عرصہ بعد مل رہے تھے۔ بلی والی مہمان بولی، چلو آؤ پارٹی شروع کرتے ہیں تا کہ ”ہم سب“ اپنا اپنا غم بھول جائیں۔ بھلا ہم سب اتنی طاقت ور ریاست کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ ماضی کے قصے دہرانے کا کیا فائدہ۔ چلو حال میں جینا سیکھیں۔ چلو وہ جادو کا گھوٹا نکالو۔ اب تو بہت ٹھنڈا ہو چکا ہو گا۔

میزبان دوست جو اپنے آپ کو مغرب کا المیہ کہتی تھی، وہ اٹھی، اس نے فریج سے ایک بڑا جگ اور کچھ کٹورا نما گلاس سب کے سامنے رکھے۔ اس نے پارٹی کے لیے، گھر میں اگائی ہوئی بھنگ سے خاص قسم کا گھوٹا تیار کیا تھا۔ جسے وہ اپنی زبان اور کوڈ ورڑز میں سمودی کہہ رہے تھے۔ سب نے اپنا اپنا پیالہ بھرا، سبز مشروب کی خوشبو نے گویا ان کو گویا پہلے ہی ٹن کر دیا ہو، ان میں سے ہر ایک اپنے پیالے کو پیار دیکھتا، پھر سرکیاں لگا لگا کر اسے حلق سے نیچے اتارتا جا رہا تھا۔ باہر سردیوں کا موسم تھا مگر ڈرائنگ کی آب و ہوا معتدل تھی۔ سبز بوٹی کے گھوٹے کا گھونٹ اندر جاتے ہی، کمرے کے باہر اور اندر کا موسم ایک ہو گیا۔

ان کے جسموں کا تاپمان گرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں ان سب کی آنکھوں میں لالی اور مستی اترنے لگی۔ جس چھت کے نیچے، کچھ دیر پہلے آہوں اور سسکیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، زندگی کے گلے شکوے ہو رہے تھے، اب وہاں قہقہے گونجنے لگے۔ سب کو ، سب اچھا دکھائی دینے لگا۔ جلد ہی انہیں ہنسی کے دورے پڑنے شروع ہو گئے۔ وہ ایک دوسرے کی پھیکی جگت سن کر بھی ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ ان کی قہقہوں کے گھن گرج سے انگیٹھی کے پاس بیٹھے، آگ تاپتے، کتا اور بلی سہم گئے اور سمٹ کر ایک دوسرے کے قریب ہو گئے۔

ہاں تو تم کیا کہہ رہی تھی، میں ہوں مغرب کا المیہ۔ ہاہاہا، ذرا پھر سے کہنا۔ ڈرائنگ روم میں موجود، خواتین میں گھرے ہوئے مہمان مرد نے اپنی میزبان ساتھی پر طنز کرتے ہوئے کہا۔ وہ بھولی سی صورت بنا کر بولی۔ میں نے یہ کب کہا تھا۔ مجھے تو کچھ یاد نہیں۔ بلی کی مالکن نے بھی مرد کی تائید کی اور کہا، ہاں ہاں، تم نے تھوڑی دیر پہلے اپنے آپ کو مغرب کا المیہ کہا تھا۔ اب زیادہ سیانی مت بنو۔ چلو، یاد کرو، تم نے ایسا کیوں کہا تھا۔ ہوں، میں نے ایسا کہا تھا۔ ارے مجھے سچ میں کچھ یاد نہیں آ رہا، پتا نہیں میں ہوش میں کیا اول فول بکتی رہتی ہوں۔ بھلا، میں اپنے آپ کو مغرب کا المیہ کیوں کہوں گی۔

وہ مدہوشی کے عالم اور رس بھرے لہجے میں بولی، میں تو خوش نصیب ہوں جو مغربی معاشرے میں پیدا ہوئی۔ دیکھو ناں آج ہم کتنے خوش ہیں۔ ہمیں کوئی روکنے والا نہیں۔ ہم آزاد ہیں۔ شکر ہے میں کسی قدامت پسند معاشرے میں پیدا نہیں ہوئی، ورنہ اب وہاں کسی کے حرم کا حصہ ہوتی، وہاں میرے پانچ چھ بچے ہوتے۔ روز مجھے اپنے شوہر کو راضی کرنا پڑتا۔ مجھے باہر نکلنے کے کسی کی اجازت مانگنا درکار ہوتی اور وہ بھی ہالووین کی طرح کسی کاسٹیوم میں لپٹ کر باہر نکلنا پڑتا۔

ہاہاہا، اس نے چڑیل جیسا قہقہہ لگا یا جسے سن کر بلی اور کتا ڈر کر ایک دوسرے کے اور قریب آ گئے۔ پھر وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے لگی، یہ کیا بات ہوئی، میرا جسم میری مرضی۔ میں چاہوں تو نقاب اوڑھوں گی، چاہوں گی تو نہیں۔ چاہوں تو بچے پیدا کروں گی، چاہوں تو نہیں۔ شکر ہے ہم امریکہ میں پیدا ہوئے۔ ہر چیز پیسہ ہی تو نہیں ہوتی۔ آزاد رہ اپنے فیصلے کرنا اور انسانوں کی آزادی سب سے مقدم چیز ہے۔

ڈرائینگ میں موجود کسی دوست نے اس کی پانچ چھ بچوں والی بات کو دہرایا، جس پر سب نے مل کر ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ مرد دوست نے پھر طنز کے تیر چلانے شروع کر دیے، مغرب میں انسانی المیوں کا رونا رونے والی اپنی دوست کو نشانہ بناتے ہوئے کہا، دیکھو، اب اگر تمہارے بچے ہوتے تو تمہیں اپنا کتا گود لینے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اپنے کتے کا ذکر سن کر وہ چونک گئی جیسے کسی نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ اس نے اپنے کتے کا نام لے کر اسے اپنے پاس بلایا اور گود میں بیٹھا کر بولی، سنو! یہ انسانوں سے زیادہ وفادار ہے۔ یہ بھوکا ہو، پیاسا ہو، اس نے کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا۔ وہ مجھے چھوڑ کر نہیں جاتا۔ جیسے میری ماں مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ وہ ہر وقت میرے پاس رہتا ہے۔ آئی لو مائی ڈگ مور دین ہیومنز۔ (میں انسانوں سے زیادہ اپنے کتے سے پیار کرتی ہوں )

اپنی میزبان کی انسانوں کے بارے میں رائے سن کر ، مہمانوں پر ذہنوں پر حاوی سبز بوٹی کے نشے کا بھوت گویا کہ رفو چکر ہو گیا۔ ڈرائینگ روم میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔ پھر مرد غصیلے لہجے میں بولا، پارٹی از اوور۔ میں جا رہا ہوں۔ جس گھر میں انسانوں سے زیادہ ایک جانور کو اہمیت دی جائے، میں وہاں نہیں رک سکتا۔ دوسرے دوستوں نے اس کی حمایت کی۔ وہ سب بھی اپنے میزبان کے انسانوں کے لیے رائے پر اس سے ناراض ہو گئے۔ بلی کی مالکن نے اپنی بلی کو گود میں اٹھاتے ہوئے کہا، جانوروں کے ساتھ ہمارا ٹائم اچھا پاس ہو جاتا ہے۔ وہ تو دل بہلانے کے کھلونے ہیں۔ ایک کتے کو انسانوں پر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔

یہ سن کر میزبان خاتون تو گویا آگ بگولا ہو گئی۔ اس پر بھی سمودی کا اثر زائل ہونے لگا۔ وہ پھر سے اپنی نارمل حالت میں واپس آنے لگی۔ اس نے اپنے دوستوں سے کہا، خبردار اگر کسی نے اس کے کتے کے بارے میں ایک لفظ بھی بولا۔ ٹائم پاس وہ نہیں، تم جیسے دوست ہوتے ہیں، میرے باپ جیسے مرد ہوتے ہیں جو کسی کے ساتھ وقت گزار کر پھر نظر نہیں آتے۔ پارٹی از اوور۔ اب آپ اپنے اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں۔ اس کے دوست لڑکھڑاتے ہوئے اپنی اپنی کاروں میں جا بیٹھے۔ وہ اپنے مہمانوں کو رخصت کرنے باہر بھی نہیں گئی، بس دروازے پر کھڑے، بڑبڑاتے ہوئے، ان کو اپنی دائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی دکھا رہی تھی۔ دوستوں نے بھی کار سے الوداعی ہاتھ ہلانے کی بجائے، اسے بڑی انگلی دکھائی اور کار کو تیزی سے ریورس کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

اگلے دن، میزبان خاتون نے اپنے مہمان دوستوں کو معذرت کو میسج بھیجا۔ وہ اپنے نشے میں ہونے اور سبز بوٹی کے زیر اثر ہائی ہونے کا بہانہ تراش رہی تھی۔ وہ سب کو آئی لو یو بول رہی تھی۔ لیکن شاید اس کے دوست واقعی دل سے اس سے ناراض ہو چکے تھے۔ کسی نے اس کے میسج کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ایک دوست نے اس کا نمبر ہی بلاک کر دیا اور اسے اپنے آخری پیغام میں لکھا کہ وہ کبھی بھی اس سے رابطہ رکھنے کی کوشش نہ کرے۔ شہر میں اس کے بس وہی چند دوست تھے جو اس سے ناراض ہو گئے۔ ان کی پارٹی، پارٹیشن میں بدل گئی۔

وہ پہلے ہی تنہا تھی۔ دوستوں کی سرد مہری، بے رخا رویہ اور دوری، اس کے لیے اور پریشانی کا سبب بنی۔ اس نے کچھ دن کسی سے کوئی بات نہیں کی، نہ ہی کسی سے رابطہ رکھا۔ اس کے رشتے دار پہلے ہی نہیں تھے، اب دوست بھی اس کی زندگی سے چلے گئے۔ بس وہ تھی اور اس کی تنہائی، ساتھ میں اس کا چھوٹا کتا جو اس کا دل بہلا نہ سکا۔ وہ اپنے کتے سے باتیں کرتی رہتی۔ اس کے سامنے انسانوں کی بے وفائی کا رونا روتی رہتی۔ مگر اس کے ڈوگی نے کبھی پلٹ کر اسے کوئی تسلی نہ دی۔ وہ بس اپنی مالکن کے ہاتھ اور پاؤں چاٹتا رہتا۔

پھر ایک دن سوشل میڈیا کے ذریعے اس کے دوستوں کو خبر ملی کہ ان کی دوست اب دنیا میں نہیں رہی۔ اس نے اپنے جسم پر اپنی مرضی کا حق استعمال کرتے ہوئے، اپنی جان لے لی۔ وہ سب سے خفا تھی، اس کا انسانیت سے بھروسا اٹھ چکا تھا، اس نے اپنے آپ کو بدلنے کی بجائے، اس دنیا کو چھوڑنا بہتر سمجھا۔ اسے زندگی بھر، اپنی غیر ذمہ دار ماں، اپنے بے وفا باپ، بے پرواہ ریاست، بہن بھائیوں جیسے دوستوں سے شکوہ رہا۔ وہ سب انسانوں کو بے وفا سمجھتی تھی۔ وہ انہیں اپنے درد سے آگاہ رکھنا چاہتی تھی، وہ انہیں کسی طوفان کی خبر دینا چاہتی تھی جو اس کے اندر لاوا بن کر باہر نکلنا چاہتا تھا۔ مگر کوئی اس کی بات سننے والا نہیں تھا۔ وہ زندگی بھر تنہا رہی شاید اسی لیے اس نے اپنے دوستوں کو کہا تھا، میں ہوں مغرب کا المیہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments