نوائے وقت کا ایک کالم: تاریخ یا افسانہ؟


روزنامہ نوائے وقت کی 26 ستمبر 2021 کی اشاعت میں مکرم محمد اکرم چوہدری صاحب کا کالم ”سائرن“ شائع ہوا اور اس روز کے کالم کا عنوان ہے ”کچھ باتیں تاریخ کی“ ۔ یہ کالم دراصل کسی صاحب کا خط ہے جو کہ مکرم چوہدری محمد اکرم صاحب کو لکھا گیا ہے۔ لیکن کسی وجہ سے خط لکھنے والے کا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ ان گمنام صاحب کو یہ خط لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس کی وضاحت انہوں نے خود ہی اس خط کے آخر میں فرما دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں

” اگر اب بھی ہم حقائق نہ لکھیں، نئی نسل کو حقائق نہ بتائیں تو یہ کون سی قومی خدمت ہے۔ میرا مقصد کسی کی تضحیک یا کسی کو غلط ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے۔ میرا مقصد نئی نسل کو حقائق سے آ گاہ کرنا ہے۔“

یہ تو ظاہر ہے کہ اس تحریر کا مقصد نئی نسل کو صحیح تاریخی حقائق سے آگاہ کرنا تھا۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ اس کالم میں کون سے قیمتی تاریخی حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ یہ گمنام صاحب تحریر فرماتے ہیں :

” کہیں پڑھا ہے کہ، لکھنے والے نے سر ظفر اللہ خان کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا پہلا اور واحد پاکستانی جج تو ثابت کر دیا لیکن اس بات پر کوئی تبصرہ نہ کر سکے کہ پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ ہوتے ہوئے بھی وہ انڈیا میں مسلمانوں کی نسل کشی پر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے کوئی احتجاج نہ کر سکے، مسلمانوں کے لئے آواز بلند نہ کر سکے، مظلوموں کو انصاف دلانے کے لئے کوئی قابل ذکر کام نہ کر سکے۔“

اس کے بعد وہ بڑی رازداری سے پڑھنے والوں کو اپنی اہمیت ان الفاظ میں جتلاتے ہیں کہ تاریخ کے طالب علموں سے اور جن کے سامنے سب کچھ ہوا ہو انہیں کون دھوکہ دے سکتا ہے۔

اب اس الزام کے بارے میں حقائق پیش کیے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ

1۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے پاکستان کا وزیر خارجہ بنتے ہی اقوام متحدہ کے فورم پر پہلا کام یہ کیا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف آواز بلند کی تھی۔

2۔ اس کا آغاز چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے 16 جنوری 1948 کو سلامتی کونسل میں اپنی ایک طویل تقریر سے کیا۔ اور اس موضوع پر یہ تقریر اگلے روز بھی جاری رہی۔ اس میں معین ثبوت پیش کیے گئے تھے کہ بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ آزادی سے پہلے ہی بنا لیا گیا تھا اور اس منصوبے میں مسلمانوں کی نسل کشی کے علاوہ انہیں اپنے علاقوں سے نکالنے کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ اور یہ منصوبہ بھی بنایا گیا تھا کہ بعض مسلم اکثریت علاقوں سے بھی مسلمانوں کو زبردستی نکال دیا جائے۔

کوئی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے اتفاق کرے یا اختلاف لیکن اقوام متحدہ میں بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف اس سے زیادہ مفصل اور مدلل تقریر آج تک کسی پاکستانی سربراہ، وزیر یا مندوب نے نہیں کی۔ میری چوہدری محمد اکرم صاحب اور ان کے گمنام لکھاری صاحب سے گزارش ہے کہ اس کی کوئی مثال پیش کر کے میرے علم میں اضافہ فرمائیں۔ جس تقریر کا خاکسار نے ذکر کیا ہے وہ سیکیورٹی کونسل کے اجلاس نمبر 228 اور 229 کے صفحہ 34 سے 120 پر موجود ہے اور اس کے بعد جواب اور جواب الجواب کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ تقریر انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ ہر کوئی پڑھ سکتا ہے۔

اس تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ آزادی سے پہلے ہی کئی علاقوں میں ہندو اور سکھ انتہا پسندوں نے یہ اعلانات شروع کر دیے تھے کہ ہم مسلمانوں کو دریائے سندھ سے پرے دھکیل دیں گے اور اس کے لئے خون کی ہولی کھیلی جائے گی۔ اور آزادی کے بعد مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کی نسل کشی کو انتہا تک پہنچا دیا گیا۔ اور بھارت کی حکومت کے ادارے اس نسل کشی میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسی ریاستیں جن کے حکمران ہندو یا سکھ ہیں ان میں ان حکمرانوں نے خود مسلمانوں کا قتل عام کرایا ہے۔

یہاں تک کہ کپورتھلہ ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، اب وہاں صرف تین مسلمان بچ گئے ہیں جو کسی جگہ پر چھپے ہوئے ہیں۔ اس طویل تقریر کی تفصیلات تو ایک کالم میں بیان نہیں کی جا سکتیں لیکن یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس تقریر کے بعد بھارتی مندوب مسٹر سیتلواڈ نے جو کہ بھارت کے پہلے اٹارنی جنرل تھے، اپنی جوابی تقریر میں کہا کہ مجھے تقریر کی طوالت پر اعتراض نہیں لیکن اس تقریر میں بھارت کے خلاف نپی تلی زہر فشانی کا ریکارڈ قائم کیا گیا ہے۔

بہر حال محمد اکرم چودھری صاحب کے کالم میں یہ گمنام صاحب انکشاف کرتے ہیں کہ اصل سازش یہ تھی کہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ کو برطانوی وزیر نے دھمکی دے کراس بات پر آمادہ کیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں یہ الزام نہ لگائیں کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو سکھوں کے منصوبے کا پہلے سے علم تھا۔ اور جب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے برطانیہ کی یہ خدمت کر دی تو اس خدمت کے عوض انہیں عالمی عدالت انصاف کا جج بنایا گیا۔

اس سلسلہ میں انہوں نے 25 فروری 1948 کے کسی خط کا ذکر کیا ہے جس کی نہ اصل عبارت لکھی گئی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی حوالہ دیا گیا ہے۔ اس لئے اس خط پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن صرف ایک ہی حقیقت سے اس الزام کا جھوٹ ثابت ہوجاتا ہے۔ 16 جنوری 1948 کو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے سیکیورٹی کونسل میں اپنی تقریر کے آغاز میں ہی یہ کہہ دیا تھا کہ تقسیم پنجاب کے وقت سکھوں نے جو منصوبہ بنایا تھا، وہ منصوبہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے علم میں تھا۔ انہوں نے تقریر میں کہا :

Hints were dropped during partition proceedings as to what Sikh Plan was, and apparently Viceroy himself, Lord Mountbatten, was aware of what it was. Subsequent Government reports of the Government of the Punjab to the central Government, which have been circulated, though they have not been published indicate that the Sikh plan as it subsequently unfolded itself in actual practice was already known to Lord Mountbatten.

[کارروائی سیکیورٹی کونسل سیشن 228 ص 41 ]

ترجمہ:تقسیم کی کارروائی کے دوران اشارے دے دیے گئے تھے کہ سکھ منصوبہ کیا تھا؟ اور یہ ظاہر ہے کہ وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو علم تھا کہ یہ منصوبہ کیا ہے۔ بعد میں حکومت پنجاب کی وہ رپورٹیں جن کو سرکلر کیا گیا اگرچہ انہیں شائع نہیں کیا گیا اس سکھ منصوبہ کو ظاہر کرتی ہیں اور یہ منصوبہ بعد میں خود ہی ظاہر ہو گیا، اس کا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو پہلے سے ہی علم تھا۔

یہی ایک حوالہ ظاہر کر تا ہے پاکستان کے وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے سیکیورٹی کونسل میں وائسرائے پر یہ الزام لگایا تھا کہ انہیں سکھوں کے منصوبے کا پہلے ہی سے علم تھا۔ اس حقیقت کی موجودگی میں یہ لایعنی الزام قبول نہیں کیا جا سکتا کہ 25 فروری تک برطانوی وزیر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو دھمکیاں دے کر اس بات پر آمادہ کر رہے تھے کہ وہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن پر یہ الزام نہ لگائیں۔ 25 فروری تک تو دونوں ممالک اپنا موقف پیش کر چکے تھے۔

چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے عقائد کی بنا پر پاکستان میں ایک طبقہ کو ان کی تعریف ہضم نہیں ہوتی۔ اور اس کے رد کے لئے وہ کوئی سا بھی سفید جھوٹ بول سکتے ہیں۔ یہ حقائق معزز کالم نگار اور روزنامہ نوائے وقت کو بھی بھجوائے جائیں گے۔ امید ہے کہ وہ صحافتی اقدار اور اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ہی ان بے سروپا الزامات کی تردید شائع کر کے اصل حقائق پاکستان کے عوام کے سامنے لائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments