ہانی بلوچ: روشنی کی طلب اور ستم گر!


موجودہ حکومت نے میڈیکل کالجز میں داخلوں کے عمل کو شفاف اور معیاری بنانے کے لئے پاکستان میڈیکل کونسل کو کالجز میں داخلے کے لئے خواہش مند طلباء کے ٹیسٹ لینے کا اختیار دیا قبل ازیں یہ فریضہ این ٹی ایس نامی کمپنی انجام دیتی تھی جو بذات خود تعلیمی نظام پر سرکاری خط تنسیخ کا عمل تھا۔ پی ایم سی نے داخلے کے خواہش مند طلباء سے پانچ ہزار روپے سے زائد امتحان میں شرکت کے لئے فیس کے طور پر وصول کیے، کرونا وبا نے تعلیمی سرگرمیوں میں تعطل پیدا کیا ہوا ہے پھر بھی ہزاروں طلباء و طالبات نے بلوچستان سے پی ایم سی کے ٹیسٹ میں حصہ لیا فی طالب علم جو مجموعی رقم پی ایم سی کو حاصل ہوئی وہ امتحان کے انعقاد کے لئے اٹھنے والے اخراجات سے بہت زیادہ ہے۔

پورے ملک میں ایک مقررہ وقت پر بذریعہ انٹرنیٹ ٹیسٹ منعقد کرانے کی بجائے اسے مختلف گروپوں (بلحاظ تعداد ) تقسیم کیا گیا جن کے ٹیسٹ مختلف اوقات میں ہوئے مذکورہ ٹیسٹ کے لئے طلباء کو ایک نصاب بھی مہیا کیا گیا تھا کہ وہ اس کے مطالعہ سے ٹیسٹ کے لیے تیاری کر لیں بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے سینکڑوں طلباء و طالبات کوئٹہ آ کر ٹیسٹ کی تیاری کے لئے مختلف اکیڈمیوں میں پڑھتے رہے لیکن جب ٹیسٹ شروع ہوا تو طلباء کے لئے حیران کن مرحلہ سامنے آیا کہ جواب طلب سوالات اس نصاب سے ماورا تھے جو انہیں تیاری کے لئے پی ایم سی نے مہیا کیا تھا۔ یعنی سوالات نصاب سے انتہائی مختلف تھے۔

صورتحال طلباء کے لئے انتہائی تشویشناک تھی۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ بلوچستان کے طلباء کی اکثریت میڈیکل کالجز میں داخلوں سے محروم رہ جائے گی۔ چنانچہ پہلے ٹیسٹ کے بعد جو نتائج سامنے آئے ان سے طلباء کے تحفظات کی تائید ہوئی۔ صرف پانچ فیصد طلباء ٹیسٹ میں کامیاب ہوئے ناکام رہ جانے والے طلباء کی اکثریت نصاب کے مطابق مکمل ذہنی تیاری رکھتی اور کامیابی کی بھرپور امید رکھتی تھی لیکن اس ٹیسٹ سسٹم نے عجب نتائج مرتب کیے، طلبہ کے بقول کامیاب ہونے والے طلباء میں زیادہ تر وہ شامل تھے جن کی تیاری اعلیٰ معیار سے عاری تھی۔ (شاید اگلے انتخابات کے لئے لائے جانے والے ای وی ایم میں بھی ایسی ہی صفات پوشیدہ ہوں؟ ) بہر حال پورے صوبے کے طلباء میں تشویش کی لہر دوڑ گئی گمان کیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد کے خوشگوار ماحول میں ٹھنڈے کمروں میں تشریف فرما اعلیٰ حکام بلوچستان کے بچوں اور بچیوں کو طب کے شعبے میں داخل ہونے اور صوبے میں صحت کے شعبہ میں خدمات انجام دینے سے محروم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کئی روز کا پرامن احتجاج بے نتیجہ رہا اور کسی جانب سے شنوائی کو خوش کن امید افزاء اور روشن ضمیر آواز سنائی نہ دی تو کئی طلباء اس گہرے سکوت بے پرواہی دیکھ کر شدید ذہنی کرب و مایوسی میں ڈوب گئے ان میں ایسے بھی تھے جو کئی ماہ سے والدین کی جمع پونجی خرچ کر کے کوئٹہ میں پرائیویٹ ہاسٹلز میں مقیم تھے۔ ایک سہانے مستقبل کا خواب لیے ایک باعزت پیشے سے وابستہ ہو کر اپنی اور اپنے خاندان کی ترقی و خوشحالی کے سپنے سجائے پوری تندہی و لگن سے تیاری میں مصروف رہے مگر جب امید افزاء نتائج سامنے نہ آئے اور اس بات کا یقین ہونے لگا کہ کوئی حکومت محکمہ ادارہ یا عدلیہ ان کے مستقبل کے ساتھ ہونے والی کھلواڑ روکنے کے لئے اقدام پر تیار نہیں تو بہت سے طلباء نے تعلیم حاصل کرنے سے توبہ کر لی وہ ڈاکٹر بننے کے بکھرے خوابوں کی کرچیاں دلوں میں چھپائے نا امیدی و مایوسی کے گہرے تاریک سایوں سے لپٹ کر اپنے اپنے دیہات کی طرف لوٹ گئے کہ وہ علم حاصل کرنے کی ناکارہ کوشش کرنے کی بجائے اگر اپنے والدین کے ساتھ کھیتی باڑی میں شامل ہوں جہاں سہانے اور خوشگوار مستقبل کی امید تو نہیں لیکن سفال ہند میں سہی آب و دانہ ملنے کا امکان تو موجود ہے۔

مایوس اور مستقبل سے نا امید یہ نوجوان اپنے ٹوٹے خوابوں کا کتھارسس کیسے کر پائیں گے؟ یہ تشویشناک پہلو ہے جس پر ہر پہلو سے غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مذکورہ طلبہ اگر کسی منفی رویے یا احساس کمتری کے شکار نہ بھی ہوئے تو کم از کم وہ ترقی و خوشحالی اور آسودہ زندگی سے مکمل طور پر محروم ضرور ہو جائیں گے۔ ان مایوس اور نا امید۔

” امیدواروں“ میں کچھ پالیسی کے بہیمانہ پن سے اظہار نفرت کے لئے منشیات میں پناہ لیں یا یہ بھی ممکن ہے کہ نا انصافی، علم سے جبراً بلکہ ارادی طور پر محروم رکھے جانے ادراک کی بنیاد پر غم و غصے میں نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے پر تشدد ردعمل ظاہر کرنے پر اتر جائیں! ۔

اس پہلو کی شدت کا تخمینہ اندرون بلوچستان بالخصوص بلوچ علاقوں۔ مکران خاران آواران جھالاوان میں موجود مسلح جدوجہد کے نیٹ ورک کی موجودگی کے تناظر میں اخذ کرنا چاہیے مذکورہ نیٹ ورک کے لیے برگشتہ و مایوس ان نوجوانوں کو ساتھ ملانا سب سے سہل ہو گا۔ وہ انہیں مالی مدد بھی دیں سکتے ہیں اور مہم جویانہ خوش کن نعروں کا گرویدہ کر کے قومی ہیرو بننے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ درپیش صورتحال میں ایسا ہونا بعد از قیاس نہیں اور شاید دستیاب حالات میں باجواز بھی سمجھا جائے! ۔

داخلوں کے لیے ناقص غیر معیاری اور اقرباءپروری پر مبنی طریقہ کار کے خلاف طلباء ایکشن کمیٹی کے پر امن احتجاجی دھرنے اور جلوس پر پولیس نے وحشیانہ طور پر میں اپنی بھیانک طاقت کا روایتی مظاہرہ کیا نہتے طلباء و طالبات پر لاٹھیاں برسائیں گئیں چیئرمین زبیر بلوچ اور ان کے دیگر متعدد ساتھی زخمی ہوئے پولیس نے۔

نوآبادیاتی عہد کی یاد تازہ کرتے ہوئے پٹائی کے بعد بڑی تعداد میں طلباء کو گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا ان طلباء کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں لایا گیا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان طلباء کے طعام کے لئے پولیس تھانے میں ”کسی نے بھی سجی اور مرغن کھانے“ نہیں بھجوائے تاکہ طلبہ اور ارکان پارلیمان کے امتیاز برقرار رہے۔

احتجاج میں مختلف طلباء تنظیموں کے فعال ارکان شریک تھے جن میں شہید ہانی یا خانی بلوچ کا نام تاریخ کے صفحات پر انمٹ ہو گیا ہے۔ گودی ہانی بلوچ اس احتجاجی تحریک میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئی ہیں۔ پولیس کے تشدد اور بے تحاشا آنسو گیس کے استعمال نے ان کی صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے وہ شاید زخمی بھی ہوئیں، پہلے سے بیماری میں مبتلا نحیف و نزار بیٹی آنسو گیس اور تشدد کے بدترین اثرات کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی تو ہسپتال میں داخل ہوئیں مگر دو روز موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اس استحصال زدہ جہاں فانی سے کوچ کر گئیں اس انتہائی افسوسناک سانحے پر ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ شہید ہانی پولیس تشدد کی بجائے پہلے لاحق بیماری کی وجہ سے جاں بحق ہوئی ہیں۔

اس موقف کو درست مان لیا جائے تو دو باتیں ایسی ہیں جنہیں جھٹلانا ممکن نہیں یہ کہ ہانی شہید طلباء احتجاج کے اگلے مورچے میں بڑی جوانمردی سے موجود تھیں دوم یہ کہ وہ بیماری میں بھی مبتلا تھیں اور پولیس نے جس اندوہناک طریقے سے طلباء پر آنسو گیس کی بارش کی ہے۔ ہانی کا ناتواں جسم اس بربریت سے بری طرح متاثر تو ہوا تھا اور اس کی ناگہانی موت اسی ریاستی تشدد اور ظلم و ستم کا شاخسانہ ہے۔

جام حکومت اس سانحے کو طبی موت قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ تاریخ کے حقائق اور سوالات کو بدل نہیں پائے گی گو کہ اس شہادت کے بعد تمام گرفتار طلباء کو رہا کیا جا چکا ہے لیکن پی ایم سی کے طریقہ امتحان میں تاحال تبدیلی سامنے نہیں آئی ہو سکتا ہے کہ جام حکومت کسی اور طالب علم کی ہانی بلوچ کے انداز میں شہادت کی متمنی ہو اگر ایسی نہیں تو پھر فوری طور پر بلوچستان ہائی کورٹ کے دو ججز اور تین سینئر و کلاء پر مشتمل انکوائری کمیشن قائم کیا جانا چاہیے جو ہانی بلوچ کی شہادت اور مستقبل میں ڈاکٹر بن کر باعزت پیشہ اختیار کرنے والے طلبا و طالبات کے ٹوٹتے خوابوں کی وجوہات سامنے لائے بلکہ ان کرچی کرچی خوابوں از سر نو جوڑ کر صوبے کے بچوں بچیوں کو نا امیدی مایوسی، بیگانگی، مخمصے نفرت اور منشیات و تشدد پسندی کا شکار ہونے سے بچائے۔ میڈیکل۔ شعبہ صحت اور تعلیم صوبائی امور ہیں۔ مرکزی حکومت کی ان میں مداخلت غیر آئینی ہے۔ داخلے کے معاملات کو مرکز میں مرتکز کرنا بذات خود تشویشناک عمل ہے۔

ہانی بلوچ آپ سدا زندہ رہو گی۔ بلوچستان کی امنگوں میں اور ہمارے دلوں میں! ،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments