عکس خیال: کنفیوژن کی کنفیوژن


جب ذہن کی زمین پہ خیال کی زرخیزی کسی پل چین نہ لینے دیتی تھی تو وقت کا پرندہ ہاتھ نہ آتا تھا، جب وقت کی دولت میسر آئی تو خیال طویل بنجر پن کی اذیت سہنے لگا اور میں سراسیمگی میں پوچھ بیٹھی کہ میں یہ کیا ہے؟ وہ کیا تھا؟

لاشعوری طور پہ وجود میں آنے والی تخلیقات پسندیدگی کی مسند پہ براجمان ہو کر الہام قرار پاتی ہیں اور شعوری طور پہ وجود میں لائی گئی تخلیقات جب بے وقعت ٹھہرتی ہیں تو میں سوچتی ہوں یہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے؟ میں کہاں کھڑی ہوں؟ کیا میرا لاشعور شعور پہ حاوی ہے۔ میں شعور ہوں کہ لاشعور؟ یا پھر میرا لاشعور مجھے ہانک رہا ہے۔

جب انھوں نے مجھے دانشور، فلاسفر اور جانے کن کن خوشنما الفاظ سے پکارا تو میں سوچتی رہ گئی کہ میں یہ ہوں تو آخر وہ کون ہے جو کسی کے سامنے بات کرتے اکثر مسلسل سنے نام بھول جایا کرتی ہے۔ جس کے دماغ سے واقعات یوں اڑ جاتے ہیں جیسے کوئی نوے سالہ شخص سنتا بھی ہے دیکھتا بھی ہے اور سمجھتا بھی لیکن کچھ ہے جس پہ اس کی دسترس نہیں۔ پھر اپنی غائب دماغی پہ خجل سی سامنے والے کی پر افسوس نگاہوں کا سامنا کرتی ہے۔ وہ کون ہے جو کسی موضوع پہ کئی گھنٹے لکھ سکتا ہے، کہہ سکتا ہے اور وہ کون ہے جو کبھی اسی ہی موضوع پہ گونگے خالی دماغ سے یہ سوچنے لگے مجھے تو اس موضوع کا ابجد بھی معلوم نہیں۔ وہ کون ہے جو ذہین قرار پاتے ہوئے اپنی کند ذہنی کا رونا روئے۔

جب لوگ کسی شے کو مکمل اچھا کہتے ہیں تو جانے کیوں میرے سامنے اس کی چند برائیاں ظاہر ہو جاتی ہیں اور جب وہ کسی کو مکمل برا کہتے ہیں تو مجھے کیسے اس کی اچھائیاں بھی دکھائی دینے لگتی ہیں۔ نظر کا یہ زاویہ کیوں لوگوں کی طرح کسی شے کو اچھا یا برا نہیں گردانتا۔ یہ درمیانی خصلت کیوں ہر شے سے ٹپکنے لگتی ہے۔

لوگ کہتے ہیں زندگی ہے بہتر جیو۔ میں سراب سمجھ کر بھاگنے لگتی ہو وہ کہتے ہیں موت حقیقت ہے میں خوفزدہ ہو کر زندگی میں پناہ ڈھونڈ لیتی ہوں۔

جب انسان اندر سے مکمل کھوکھلا ہو جائے تو وہ بولتا نہیں محض شور مچاتا ہے جیسے خالی برتن شور مچاتے ہیں۔ میں بھی بولتی نہیں بس وجود کو قائم رکھنے کے لیے شور مچاتی ہوں جیسے خزاں کے پتے گرنے پہ اپنی زندگی کو ظاہر کرنے کے لیے خوا مخوا شور کرتے ہیں۔ لیکن لوگ یہ شور کیوں سنتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے یہ مہمل باتیں ہیں۔ کھوکھلا شور ہے محض اپنے مردہ پن کو چھپانے کے لیے۔

لیکن انسانوں کی تو کیا کہیے۔ یہ تو بے ہنگم شور کو زندگی کا نام دیتے ہیں۔ یہ تو شور مچاتے مرتبانوں کے بڑے قدر دان ہیں۔ خاموش گہرے مرتبانوں میں کیا ہے یہ جانے بغیر پلٹ جاتے ہیں۔ یہ سطح پہ تیرتے ہیں گہرائی میں نہیں جاتے۔ چونکہ میں بھی ایک انسان ہوں سو کبھی کبھی اندر کے شور کو بہت غور سے سنتی ہوں کہ شاید اس بے ہنگم مہمل شور میں کوئی بامعنی آواز بھی موجود ہو۔

میرے اس سے چند لمحے کی ملاقات تھی۔ اس نے پر سوچ انداز میں مجھے کہا یو آر آ کنفیوزڈ پرسن۔ آہ! بڑی ہی مدت بعد کوئی مجھے صحیح جان پایا تھا۔ بجائے کوئی ردعمل ظاہر کرنے کے میں نے عقیدت بھری مسکراہٹ سے اسے دیکھا۔ ایسے لوگ تو ولی ہوتے ہیں۔ چمکتے دمکتے انسانوں کے اندر کے انسان کو جاننے والے۔ خود کو خوش کن القابات سے پکارنے والوں پہ محض ہنس دیتی ہوں بھلا کنفیوز شخص بھی کسی قابل ہو سکتا ہے۔ میں واقعی ایک paradox [مجموعہ اضداد] ہوں۔

یہی وجہ ہے کیا ہے اور کیا نہیں کی جنگ میں اکثر کنفیوژن کا شکار رہتی ہو۔ کنفیوز شخص دھرتی پہ ایک بوجھ ہوتا ہے۔ یہ خود اپنی کنفیوژن کی رسیوں میں اس قدر جکڑا ہوتا ہے کہ واقعی ایک نوے سالہ بوڑھے کی طرح دیکھتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، سمجھتا بھی ہے لیکن کچھ ہے جس پہ اس کی دسترس نہیں رہی۔ کچھ لے کر کچھ دے دیا گیا ہے۔ لیکن جو لیا وہ بھی اسے نہیں معلوم جو دیا گیا ہے وہ بھی اسے نہیں معلوم۔ اسے نہیں معلوم کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا۔ کیا اچھا ہے کیا برا وہ لاشعور کے ساتھ بہتا چلا جائے یا کم فہم شعور کی حقیقت قبول کر لے۔

وہ زندگی کے پیچیدہ گرداب میں قید ہو کر اکثر چلا اٹھتا ہے یہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments