ادبی تنقید اور فلسفیانہ اصطلاحات کی تاریخ (قسط نمبر 5)


اسم کی مماثلت کی پاداش میں اس تصنیف کا شاعر قرطاس تاریخ پر ابھر نہ سکا۔ پس یہ ساکنان شام کی ملکہ زینوبیا Zenobia کا وزیر ہو، یونانی ہو یا رومن، فرق نہیں پڑتا، لونجائنس اپنے کام سے امر ہو گیا نام سے دفن۔ تاریخی شواہد میں اس تصنیف کے چند مصرعے بطور حوالہ تیرھویں صدی عیسوی کی ایک کتاب میں ملتے ہیں، پھر سولھویں صدی میں 1554 میں Francis Robortello نے اور 1560 میں Niccolò da Falgano نے اس تصنیف کو شائع کیا تاکہ شمیم ادب میں ایک اور گل کا عرق شامل ہو جائے۔

اس تصنیف نے اصل شہرت ”مغربی بائبل“ کے خطاب پر مشہور فرنچ فلسفی بولو Boileau کے ترجمے کے بعد پائی جو 1674 میں ادبی محاکمے کے طور پر شائع کیا گیا۔ اس کے بعد تصنیف کے عنوان کا مسئلہ ماہرین زبان کے ہاں بڑا مسئلہ ہے ان کا کہنا ہے کہ لفظ Sublime شاید Hypsous (یونانی لفظ) کا مفہوم بھی ادا نہیں کرتا لیکن ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب ”ارسطو سے ایلیٹ تک“ سے پروفیسر سینٹس بری کا قول نقل کیا جا رہا ہے کہ ”سبلائم محدود معنی میں بھی Hypsous نہیں بلکہ اس کی مراد اس صفت یا ان جملہ صفات سے ہے جو پڑھنے والے میں ادب کا گہرا شغف پیدا کرتی ہیں“ (صفحہ نمبر 154) ڈاکٹر جمیل جالبی Sublime کا ترجمہ ”علویت“ کرتے ہیں۔ لونجائنس کو ”پہلا رومانوی نقاد“ سب سے پہلے Scott James نے کہا کیونکہ لونجائنس کے ہاں فارم سے زیادہ قوی حوالہ تخلیق میں موجود جذبات کو ابھارنے، عالم بے خودی میں مبتلا کرنے، اور بڑے خیالات کی ترسیل کرنے والا خوبصورت اسلوب ہونا ضروری ہے۔ ایسی تحریر جو قارئین اور سامعین کو react کرنے پہ مجبور کردے۔

•اس تصنیف کا آغاز نظم کی صورت میں ایک تفصیلی خط ہے جس میں Terentian کو مخاطب کر کے Caecilius کی اغلاط کی نہ صرف نشاندہی کر کے لاشعوری غلطی کو نظرانداز کرنے کی تلقین کی تاکہ ادبی ماحول غارت نہ ہو، بلکہ ان مسائل پہ انبساط قلبی سے تبصرہ بھی کیا جو کہ تخلیق میں علویت حاصل کرنے کی کنجی ہے۔ یہ متن چوالیس ابواب پر مشتمل ہے اس لئے ایک تحریر میں ان ابواب کا جتنا عرق نچوڑا جا سکا نچوڑوں گا۔ لونجائنس لکھتا ہے کہ نیرنگئی علویت ہی وہ صفت ہے جس نے مورخین و شعرا کو سرمدی حیثیت بخشی کیونکہ ان کی تصانیف نے قاری کو تسکین و تربیت کا سامان مہیا کیا اور اس کے ساتھ ساتھ اچھے برے ادب کی تمیز سکھائی جو لونجائنس کے نزدیک ادب کے بنیادی کام ہیں۔

•ادب میں علویت یا عظمت بھی ایک فطرتی صلاحیت ہے جو ہوتی ہے یا نہیں ہوتی، لونجائنس فطرت کے اس عطیہ پہ غور و فکر کے علاوہ لکھتا ہے کہ ان خوش بختوں کو مشورہ بھی کرنا چاہیے کیونکہ اچھے مشورے کا فقدان اچھی قسمت کو غارت کر دیتا ہے۔

”That the greatest of all
Blessing is to be fortunate , but next to that and
Equal in importance is to be well advised,
For good fortunate is utterly ruined or winer by the absence of good council. ”

•متن میں ابہام ہمیشہ غیر مستعمل یا متروک الفاظ سے جنم لیتا ہے، (ہمارے ہاں موجودہ عہد میں بھی بڑے اسما ایسے گنوائے جا سکتے ہیں جنھیں متروک الفاظ لکھ کر اپنے قاری کا امتحان تو لینا ہی ہوتا لیکن درحقیقت وہ ان کے استعمال اور تراکیب میں بڑی غلطیاں بھی کرتے ہیں۔ ) مثال کے لئے Aeschylus کے ڈرامے سے اقتباس لیا گیا ہے جس میں اس نے ”flame۔ wreaths“ یا ”belching to the sky“ جیسی تراکیب استعمال کیں، جن سے نہ صرف امیجری سمجھنے میں دقت محسوس ہوئی بلکہ ٹریجک اثر بھی زائل ہو گیا۔ لونجائنس کے نزدیک ”bombast is the fault“ مگر اس سے بڑا مسئلہ ابتذال میں ہے جو اچھوتے مضمون کا اثر قائم کرنے اور حلقۂ ادب کو متوجہ کرنے کے لئے صاحب قلم رقم کرتے ہیں۔ بہترین تحریر کی یہی صفت کم نہیں کہ وہ غیر شخصی ہے اور شاعر کے ذاتی تعصب سے مبرا۔

•لونجائنس اس تصنیف میں متعدد قدیم شعرا و ناقدین کو نشانۂ تنقید بناتا ہے اور ان کے اقتباسات میں اغلاط کی نشاندہی کر کے اپنے قاری کو اصول علویت سے متعارف کراتا ہے۔ اس باب میں Timaeus ٹائی مائیس کی تصنع پسندی fake fabrication کو سخت الفاظ میں نا پسند کیا ہے۔

•نقص اور خوبی کا مقام ظہور ایک ہی جگہ یا شے ہوتی ہے یہی اصول لونجائنس ادب کے ساتھ منتطبق کرتا ہے۔

”Human blessing and human ills commonly flow from the same source: and to apply this principles to literature, those ornaments of style those sublime

And delight images, which contribute to success,
Are the foundation and the origin, not for exell-
Ence but also for failure. ”

وہ کہتا ہے اچھوتے یا نئے موضوع/خیالات پر مصنفین ہر دور میں سوچتے ہیں کہ خامہ فرسائی ہو مگر شہرت کے عارضے میں یہ نیا موضوع ہی ان کی درگت بنوانے کے لئے بعض اوقات کافی ثابت ہوتا ہے۔ اچھوتا اسلوب، عمدہ تصور و تخیل، اور بہترین فقروں کا برمحل استعمال ہی کامیابی اور متضاد صورت میں ناکامی کی ضمانت ہوتے ہیں۔

•علویت پر رائے قائم کرنا آسان کام نہیں۔

•اس باب میں بنیادی اصول وضع کیے گئے ہیں جن کی مدد سے بڑا ادب پرکھا جا سکتا ہے مثلاً علویت کا تاثر قائم کرنے کے لئے محض لفاظی تو نہیں کی گئی اگر ایسا ہو تو جملوں سے آرائش متن کو نکال کر دیکھا جائے اگر خیال کی عظمت پھر بھی باقی رہے تو بڑا ادب ہے۔ حقیقی علویت اس مقام پر لے آتی ہے جہاں انسان حالت مسرت سے عالم وجد میں اس طرح داخل ہو جائے جیسے وہ ادب اس کے خود تخلیق کیا۔ اس کیفیت کو شعرا زیادہ بہتر محسوس کر سکیں گے۔

دوسری نشانی لونجائنس نے یہ بتائی کہ کوئی ذہین اور پڑھا لکھا شخص اگر کسی متن سے غور و فکر اور روح متاثر کرنے والا مواد نہ نکال پائے تو ایسا متن بھی علویت سے خالی ہو گا۔ متن کا کوئی بھی حصہ اسی وقت عظمت sublimity حاصل کر سکتا ہے جب وہ قاری کے بارہا مطالعہ کرنے پہ بھی وہی اثر رکھے جو پہلی مرتبہ اس پر ہوا ہو۔ علویت سے مزین کی گئی تخلیق ہر دور میں ادب دوست افراد کو مختلف عمروں، رویوں، پیشوں، مقامات، نفسیات اور طرز زندگی کے باوجود پسندیدہ ہوتا ہے۔

•عظمت کے حصول کے لئے بنیادی مخرج:
بڑے خیالات کو باعروض مرتب کرنے کی صلاحیت۔
خود ساختہ بہاؤ اور غیر معمولی جذبۂ سخن
صنائع معنوی اور صنائع لفظی کی خوبصورت ترتیب (ڈاکٹر جمیل جالبی) Figure of Speech
تاثر۔ جو عظمت اور علویت کا مظہر بنے۔
لونجائنس موزوں مقام پہ اعلیٰ جذبے کے اظہار کو بڑی فوقیت دیتا ہے۔ ایسے جذبات ہی درحقیقت آسمانی الہام
”I would
Confidently pronounce that nothing is so conducive
To sublimity as an appropriate display of genuine
Passion. ”

•عظیم خیالات کے لئے موزوں روح فطرت کا عطیہ ہے اگر یہ صفت کسی شاعر یا مصنف میں نہ ہو تو عظیم خیالات پہ مشتمل تصانیف کا دیوانہ وار مطالعہ کیا جائے۔ لونجائنس نے قطعی طور پر قدیم یونانیوں کو ترجیح اس لئے بھی دی کہ اس کے نزدیک عظیم تخیلات غلامی میں پرورش نہیں پا سکتے اس لیے قدیم یونانی ادب میں لکھنے والے سب شعرا اشرفیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ پست دماغ غیر معمولی خیالات کو جنم نہیں دے سکتے۔

•مختلف عناصر، صنائع اور تراکیب کی ترتیب ہی وہ شے ہے جو تخلیق کو زندہ وجود بنا دیتی ہے۔ بہت سارے جذبات، واقعات، اور کردار کی درست اور برمحل منظرکشی ہی متن کو لافانی بناتی ہے اگر یہ سعی

طوالت، بے حد سنجیدگی، اور بے تکی باتوں سے مبرا ہو۔

• (ڈاکٹر جمیل جالبی نے amplification کو ”توسیع“ کہا ہے کہ کسی معمولی تحریر کو امر کرنے کے لئے توسیع کے ذریعے کام لیا جا سکتا ہے۔ ) توسیع مبالغے اور صنائع کے استعمال سے ممکن ہے اور اس طرح یہ علویت کے مقام سے گرتی بھی نہیں۔

•زبان و بیاں میں توسیع عنصر موضوع کو وسعت اور عظمت عطا کرتا ہے۔ افلاطون کے موضوعات طوالت کا شکار ہو جاتے تھے لیکن ان کی شان و شوکت بھی ہو بہو قائم رہتی ہے۔

•علویت تک سفر کرنے کے لئے ایک رستہ آبا (روایت) کی پیروی اس طرح ہے کہ مکھی پر مکھی نہ ماری جائے۔ لونجائنس افلاطون کا اسلوب دیکھنے پر بطور خاص توجہ دلاتا ہے۔ اسے سرقہ بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ بڑے خیالات کے بیجوں کو اپنے اذہان کی زمین میں بونے سے بہت فائدے حاصل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ادب ایک ایسا میدان ہے بقول ہیسیڈ جہاں اپنے بزرگوں سے ہارنا بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔

”in which even to be worsted by one ’s predecessors brings no discredit.“

•لونجائنس نے علویت کے نظریہ کو ایک سوال ”کسی تحریر کے بعد مصنف / شاعر مستقبل میں اپنا کیا مقام دیکھتا ہے“ کے ذریعے تبسط بخشتا ہے، جس سے شاعر میں نقاد کا سافٹ وئیر بھی ایکٹو ہو جاتا ہے۔

(عصر حاضر کا مکمل ادراک رکھے بغیر کوئی مستقبل کا فہم شناس ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو یقیناً اس کی ذہنی بالیدگی نہیں ہوئی۔ لونجائنس نے قدیم شاعر کی حیثیت کو مزید مضبوط حوالہ اس طرح بھی بنا دیا کہ اس کے دور میں بھی شعرا اپنے گرد و نواح سے باخبر ہوتے تھے وہ صرف وجد اور بے خودی میں نہیں پڑے رہتے تھے۔ )

دوسرا سوال اور بھی بہت اہم اس طرح ہے کہ یوں اپنے کلام میں ابتذال، تصنع اور حشو کو درست کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ اگر کوئی اپنا کلام ماضی کے بہترین شعرا کے سامنے رکھتا تو وہ شعرا اس کلام سے کیا تاثر لیں گے؟

یہ وہ عناصر ہیں جن سے شعرا کو تخلیق کے وقت اور بعد میں معیار سخن کا اندازہ رہتا ہے۔

•حروف قسم بھی متوجہ کرنے کا بہترین طریقہ ہے اور اس طرح سامعین لاشعوری طور پر جانتے ہیں کہ قسم کے بعد جو بھی جملہ کہا جائے گا وہ کہانی کا رخ بدلنے والا ہو گا۔

•اگر سماعت کے لئے آواز اور آواز کے لئے سماعت ضروری ہے تو علویت کے لئے figures of speech اور figures of speech کے لئے علویت ضروری ہے۔ اس توازن کو قائم رکھنا اصل چاہیے کیونکہ ایک سماعت کے لئے بہت اونچی آواز ناگوار ثابت ہوتی اور ایک ندا کو سماعت کے لئے کمزور کان مناسب نہیں لگے گا۔ اسی طرح صنائع کا غیر ضروری استعمال اور ضروری استعمال کا تعلق ہے۔ اس لئے شاعر کو موقع محل کے مطابق انھیں برتنا چاہیے۔ پونجائنس کہتا ہے کہ کسی مطلق العنان یا آمر کے سامنے تقریر کرنا مقصود ہو تو ان کی غلطیاں صنائع میں بیان کریں ورنہ حالات کی ذمہ دار بھی خود ہی ہوں گے ۔

•لونجائنس سوال و جواب اور ڈرامائی طرز کلام، یا خود کلامی کو ڈرامے کے لئے موزوں سمجھتا ہے البتہ گریز پائی کا سبب تجسس سے دوری اور جذبات کا سپاٹ اظہار ہوتا ہے۔

•کلام میں conjunction یا figure Asyndeton (یعنی لاعطف تحریر) نہ ہونا کلام کو حیات سرمدی عطا کرتے ہیں۔ لاعطفی شاعر سے غیر معمولی صلاحیتوں کی ضمانت لیتی ہے کیونکہ موجودہ عہد میں اس موضوع کو متروک قرار دے دیا گیا ہے۔

•اسی figures of speech کے اتحاد و تنظیم سے تخلیق میں حسن و دلکشی پیدا ہوتی ہے۔ پھر اگلے باب میں حروف عطف کے نقصانات کے ضمن میں لکھا ہے کہ :

”If you were to bind two runner together,
They will forthwith be deprived of
All liberty of movement. ”

نتیجتاً دونوں کھلاڑی گر جائیں گے، اسی طرح جذبات کے درمیان حروف عطف کا استعمال فقروں کو چاہ بے معنویت تک لے جائے گا۔

•ہر انسان شدید جذبات کے اثر میں اکثر اوقات گفتگو کرتے ہوئے بے ربط ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے خیالات اور الفاظ تیزی سے بدل رہے ہوتے ہیں، (مثلاً جب آپ کسی اپنے سے لڑ رہے ہوتے ہیں تو اس کی زیادتیاں گنوانے کے لئے اپنے دماغ کا پرانا نیا سارا ریکارڈ چھان مارتے ہیں ) یہ فطری عمل ہے لہٰذا لونجائنس کہتا ہے کہ شدید جذبے کے اظہار کے وقت Hyperbation کو اس طرح برتا جائے کہ بے ترتیب ہو کر بھی معنوی اعتبار سے اسے نقصان نہ پہنچے۔

•اگر موضوع کو توسیع کی ضرورت درکار ہو تو واحد صیغے کو جمع میں تبدیل کر دینا چاہیے اس طرح صوتی آہنگ بھی بہتر ہوتا ہے اور مجمع کو زیادہ متاثر کرتا ہے مثال کے طور پر لونجائنس نے Sophocles کے چند مصرعے پیش کیے :

”Oh Fatal, Fatal ties
Ye gave us birth ”

اس صنعت کو polyton ٹرانسلیٹ کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس جمع صیغے کو واحد میں تبدیل کرنا بھی گہرا اثر رکھتا ہے۔ واحد کا صیغہ کئی دفعہ علویت میں اضافہ کرتا ہے۔ (عربی اور اردو زبان میں اس امر سے متفق ہوں، مضمون کی طوالت کی وجہ سے اس کی تفصیل الگ تحریر پہ چھوڑتا ہوں۔ )

اب آئیے tenses کی تبدیلی پر لونجائنس کہتا ہے کہ ماضی کے واقعات حال میں تبدیل کرنے سے افسانہ حقیقت کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔

•پیچیدہ گوئی علویت میں برق رفتاری سے اضافہ صرف اس وقت کرتی ہے جب استعمال کیے گئے الفاظ برمحل اور سلیقے سے برتے گئے ہوں۔ ورنہ صورت دیگر یہ ہے کہ تحریر و کلام سے بیزاری یقینی ہے اور اسی وجہ افلاطون بھی کئی مقامات پر صنائع کے استعمال پر پوری طرح قائم نہیں رہ سکا۔ پیچیدہ گوئی میں خطرہ اور فائدہ دونوں کے درمیان بڑی دقیق سطر ہے لکھاری کو پتا بھی نہیں چلتا کہ ادھر گرا یا ادھر۔

•الفاظ خیالات کی روشنی ہوتے ہیں اس لئے زبان و بیان خیالات کی ترسیل کا اہم حوالہ ہے۔ زبان کو موضوع کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔ لونجائنس منفرد اور پیچیدہ اسلوب پسند تو کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ وہ ان نقائص کی طرف اشارہ کرتا گزر جاتا ہے جو اکثر شعرا کے ہاں لاشعوری طور پر سرزد ہو جاتے ہیں۔ دوسری صورت وہ مقامی یا مانوس زبان کو دیتا ہے جسے ہر فرد سمجھ سکتا ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ بڑے خیالات محض پیچیدہ گوئی سے پہنچائے جا سکتے ہیں گھریلو اور colloquial زبان میں معنی خیز گفتگو ہو سکتی ہے، روز مرہ کے استعمال کے الفاظ بعض اوقات پڑھنے سننے والوں زیادہ لطف دیتے ہیں۔

”We see from this that the most homely language is sometimes far more vivid than the most ornamental“

اس عام فہم زبان کے استعمال میں بھی ایک بڑا خطرہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور وہ ابتذال (بازاری پن، عامیانہ پن) کا ہے۔ ایسی زبان میں کلام کرتے یا لکھتے وقت متکلم ابتذال کے کنارے کھڑا ہوتا ہے۔

•استعارہ استعمال کرنے کا بہترین وقت جذبات کے انتہائی بہاؤ ہوتا ہے جب شاعر اپنی ذات پر بے اختیار ہونے لگے۔ اس وقت استعارے کی صورت میں تلخ بات بھی شگفتہ طرز اسلوب میں کہی جا سکتی ہے۔ ارسطو اور Theophrastus کا قول نقل کیا گیا ہے کہ:

”Aristotle and Theophrastus re-

Commend the softening of harsh metaphors by the use of some phrases as ’so to say, as it were, if I may permitted ”

دنیائے ادب میں استعارہ، تشبیہ، اور کنایہ وغیرہ مقدس آیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔

• تینتیسواں باب انتہائی اہم ہے اسے رگ جاں کہیں تو حق بجانب ہو گا۔ لونجائنس کہتا ہے کہ نقائص سے مبرا معمولی یا عامیانہ تخلیق سے نقائص والی علوی تخلیق بہتر ہے۔ بہترین اذہان بھی نقص سے پاک نہیں ہوتے اس لئے لاشعوری اغلاط نظر انداز کر دینی چاہیے۔

”I know, then, that the largest intellects are far
from being the most exact. A mind always intent
on correctness is apt to be dissipated in trifles ; but
in great affluence of thought, as in vast material
wealth, there must needs be an occasional neglect of
detail. And is it not inevitably so ? Is it not by
risking nothing, by never aiming high, that a writer
of low or middling powers keeps generally clear of
faults and secure of blame ? whereas the loftier
walks of literature are by their very loftiness
perilous ? I am well aware, again, that there is a
law by which in all human productions the weak
points catch the eye first, by which their faults ”

•یونانی مفکرین کے موازنے اور علویت کے حوالے سے شہرت کے باوجود نقص سے پاک ہونا تصور نہیں کر لینا چاہیے البتہ کلام نقص سے پاک ہو تو وہ شعرا انسانی سطح سے بہتر سطح پر متمکن ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد مماثلت اور تشبیہ والا مخطوطہ دریافت کے دوران ضائع ہو گیا اس لئے اس کا بیان بھی تشنگی کا احساس ابھارتا ہے۔ لانجائنس نے مبالغے کے حوالے سے بڑی دلچسپ نقطہ نظر پیش کیا ہے :

”Hyperbole is them most effect when it appears in disguise“

ڈاکٹر جمیل جالبی نے اسے یوں ترجمہ کیا ہے کہ: ”بہترین مبالغہ وہ ہے جو اس حقیقت کو چھپا جائے کہ وہ مبالغہ ہے۔“

•تخلیق میں ایک حد سے زیادہ اختصار علویت کو کم کر دیتا ہے کیونکہ معنی کی ترسیل نہیں ہو پاتی اور ضرورت سے زیادہ بھی معنی ہڑپ کر جاتا ہے۔ اسی طرح تلازمہ کاری بھی شاعری کی شان و شوکت میں اہم شے ہے کیونکہ اس میں اگر اسم کے ساتھ فعل کا تعلق یا محاورہ یا دوسرے صنائع گرائمر کے اعتبار سے درست نہیں برتے گئے تو بڑا نقص سمجھا جائے گا اس لئے لونجائنس متعدد بار مطالعہ کی دعوت دیتا ہے۔

•ہر صاحب فہم اپنے دور کے ادب کو حقیر جانتا آیا ہے البتہ میں اس موقف کے سخت خلاف ہوں، یہ بھی ایک نفسیاتی مرض ہے جو لونجائنس میں بھی موجود تھی۔

”The growth of highly exalted and wide-reaching genius has with a few rare exceptions almost entirely cease ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments