آج چاکلیٹ ہیرو کی سالگرہ ہے


وحید مراد کے سالگرہ کی تاریخ 2 اکتوبر ہے۔

اس شخصیت کی مقبولیت، پذیرائی، پسندیدگی، کی کیا وضاحت کی جائے جس کے حصے میں زندگی بھر میں صرف پینتالیس سالگرائیں ہی آئی ہوں، مگر اس کے لئے اس کی 82 ویں سالگرہ پر بھی لوگوں کے دل اسی طرح دھڑکتے ہوں اور ان کے لبوں پر محبت اور چاہت کے دعائیہ بول اسی طرح مچل رہے ہوں جیسے وہ ان کے درمیان آج بھی موجود ہو اور اس نے اپنے فن اور فن کی جھلکیوں سے ان کے دل و دماغ کو اسی طرح حصار میں لے رکھا ہو۔

دنیا بھر میں ( اور پڑوس ملک میں ) اس حوالے سے کیا روایت ہے، دعوی سے کچھ کہنا شاید مبالغہ ہو مگر پاکستان فلم انڈسٹری میں بلاشبہ یہ ان ہی کا اعزاز ہے کہ فلم بینوں سے بچھڑے سینتیس اڑتیس سال بعد بھی، روایتی اور سوشل میڈیا دیکھ کر یہ یکسر محسوس نہیں ہوتا کہ اب وہ ہمارے درمیان موجود نہیں۔

اور بہت سی مثالوں کے، اس بات کی گواہی کے لئے ویب سرچ انجن گوگل کا 2019 کا یہ سروے کافی ہے کہ اس سال کے دوران پاکستان سے جن دس شخصیات کو سب سے زیادہ سرچ کیا گیا، ان میں یہ نام بھی شامل ہے۔ شاید اس سے بھی زیادہ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس فہرست کے باقی تمام افراد بقید حیات ہیں جبکہ وہ اس فہرست کی واحد شخصیت ہیں جو اب ہمارے درمیان موجود نہیں (مگر ان کی موجودگی کے احساس کو زندہ رکھنے کے لئے) انھیں اس تواتر، (عقیدت اور چاہت سے) سے ڈھونڈا گیا۔

ان کی محبت کے چراغ سے چراغ جلانے کا سلسلہ مختلف صورتوں میں باقاعدگی سے جاری و ساری ہے اور اس سارے عمل میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اب، وہ نسل بھی ان کے لئے، اتنی ہی پرجوش اور سرگرم ہے جسے ان کی زندگی میں، اپنی کم عمری کے سبب، انھیں دیکھنے، (پرکھنے اور) سراہنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی کم و بیش تیس چالیس سال کے وقفے کے باوجود ان پر فلمائے گئے نغمے عوامی پسندیدگی کے چارٹ سے نیچے اترتے نظر نہیں آتے ( اور ان نغموں کی دھوم اب بھی اسی طرح قائم ہے)، بلکہ یہ کہنا اور زیادہ مناسب ہو گا کہ ان نغموں کے پھیلاؤ اور چناؤ میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس تعلق کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ ان کی بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے دلکش نغموں کو عصر حاضر کے رنگ میں رنگنے کا تجربہ نہایت زور و شور سے رواں ہے۔ یہ معلوم کرنا بہ ظاہر خاصہ مشکل ہو گا کہ عقیدت ( اور مہارت) کے ہاتھوں ان کے کتنے گیت، سیاہ اور سفید کے خانے سے نکل کر، محبت کے مختلف رنگوں میں ڈھالے جا چکے ہیں تاہم یہ بات با آسانی سمجھ میں آنے والی ہے کہ ان قابل دید گیتوں کو ترجیحی بنیادوں پر رنگین بنانے کا یہ عمل بلا سبب نہیں کہ ان نغموں کی پکچرائزیشن واقعی اس درجہ کمال کی ہے کہ آرٹسٹ کا جی، خود بہ خود انھیں، مزید سجانے اور سنوارنے کو چاہتا ہے۔

اس موقع پر ان کے ہم عصر اور پاکستان فلم انڈسٹری کے ایور گرین سپر اسٹار ندیم کی ان کی اس قابل رشک صلاحیت کے بارے میں دی گئی یہ رائے بجا طور سند کا درجہ رکھتی ہے :

”جس انداز سے وحید گانوں کو پکچرائز کراتے تھے، اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ میں جہاں تک اس کام کو سمجھتا ہوں اور میں نے کیا ہے تھوڑا، میں نے بہت کم لوگوں کو نہ صرف ادھر بلکہ سرحد کے ادھر بھی بہت کم لوگوں کو دیکھا ہے اس طرح گانا پکچرائز کراتے ہوئے“

نغموں کے حوالے سے ہی، یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نئے رجحانات کے تحت جن گیتوں پر فیوژن، ری مکس اور نئے عہد کے دوسرے تجربوں کے لئے کام کیا گیا ہے ( اور کیا جا رہا ہے ) ان میں نمایاں تعداد، ان پر پکچرائز کیے گئے سدا بہار گیتوں کی ہے۔ ان میں ارمان، دوراہا، لاڈلا، دل میرا دھڑکن تیری، دیور بھابھی، افسانہ، جہاں تم وہاں ہم، کے نغمے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ شاید اس انتخاب کی وجہ بھی، وہ ہی نظر آتی ہے کہ پس منظر میں دل موہ لینے والی مدھر موسیقی اور پیش منظر میں دل جیتنے والی پرفارمنس اور یوں اس اشتراک و امتزاج کے نتیجے میں ان گیتوں سے جنم لینے والا ان مٹ تاثر! موسیقی، شاعری اور بصری میڈیم سے تعلق رکھنے والا کون ایسا بے ذوق ہے، جو اس سونے پر سہاگہ جیسے دوآتشہ سے متاثر نہ ہو!

مشہور ٹیلی وژن آرٹسٹ اشرف خان نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں ان کے اس باکمال پہلو پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈالی :

” میری زندگی کا سب سے سے بڑا ایوارڈ یہ ہے کہ ففٹی ففٹی میں جو مجھ پر گانا پکچرائز ہوتا تھا، ایک استھائی ہوتی تھی، ڈھونڈھ کے لاتا تھا، مہدی صاحب ) (غزل ) ، رشدی صاحب کے (گانے ) ، تو میں ایورنیو سٹوڈیو گیا، ففٹی ففٹی کے دوران، وحید مراد صاحب کھڑے تھے فوارے کے پاس۔ میں نے کہا اسلام علیکم! گلے ولے لگایا مجھے، کہنے لگے میاں آپ گانا بہت اچھا پکچرائز کراتے ہو، میں نے کہا وحید صاحب آپ سے اچھا گانا بر صغیر میں کوئی نہیں پکچرائز کراتا۔ وحید صاحب سے زیادہ ردھم میں کوئی بندہ نہیں تھا“

82 ویں سالگرہ پر، مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ چاکلیٹ ہیرو کی شخصیت اور اس کے فن کی مٹھاس، فلم اور فنون لطیفہ کی دنیا میں، بجا طور پر ایسا خوش گوار احساس ہے جس نے 1964 سے تا حال پوری فضا کو مہکائے اور سجائے رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments