کیا خواجہ سرا انسان نہیں؟


کیا کبھی آپ نے سوچا ہے اگر آپ کا شمار بھی ہمارے معاشرے کے اس طبقے سے ہوتا جنہیں آپ ہتک آمیز نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور خدا کی نامکمل تخلیق سمجھتے ہیں اور خواجہ سرا یا اور بہت سارے تضحیک آمیز ناموں سے پکارتے ہیں۔ جب بھی کسی خاندان میں خواجہ سراء کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کے ساتھ نہ صرف ماں باپ، بہن بھائی بلکہ ارد گرد کے لوگ بھی انہیں اپنانے سے انکار کر دیتے ہیں اور اس ظالم سماج کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔

جس کے بعد اسے خواجہ سراہی پناہ دیتے ہیں۔ ان خواجہ سرا کا ایک گرو ہوتا ہے جو ان بچوں کی اپنی اولاد کی طرح پرورش کرتا ہے اور روزی کمانے کا ڈھنگ سکھاتا ہے ان خواجہ سراؤں کو معاشرے میں جینے کے لئے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ کیونکہ انہیں ہر طرف سے ہی ہم دھتکار دیتے ہیں۔ میں ان لوگوں سے پوچھتی ہوں کہ کیا خواجہ سرا انسان نہیں ہے؟ سب سے پہلے تو ہمیں گھر والوں کی تربیت کرنی ہو گی اس کے بعد معاشرے کی۔ آپ نے کبھی ان کے کرب اور جس ذہنی اذیت کا وہ شکار ہوتے ہیں اس کا سوچا بھی ہے؟

جب خواجہ سرا کے بارے میں بات ہو تو صرف یہ چیز ذہن میں آتی ہے کہ یہ ناچتے گاتے ہیں یا بھیک مانگتے ہیں اس کے علاوہ ان کا اور کوئی تاثر نہیں۔ ان کو بھیک مانگنے اور ناچنے گانے کی طرف بھی دھکیلنے والے اور زندگی کے سبھی در ان پربند کرنے والے بھی ہم لوگ ہی ہیں۔ معاشرے کا ان سے یہ امتیازی سلوک انہیں آگے بڑھنے ہی نہیں دیتا اور یہ مجبوراً ناچنے گانے یا بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہماری اکثریت مرد اور عورت کے حقوق کے بلند و بالا دعوے کرتی تو دکھائی دیتی ہے لیکن کبھی معاشرے کے اس طبقے کی طرف کسی نے دھیان دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ بطور فرد وہ اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔

بوڑھوں سے لے کر نوجوانوں تک ہر شخص کے ہاتھوں مذاق اور جنسی درندگی کا نشانہ بنتی اس مخلوق کو انسانیت کے درجے پر فائز ہی نہیں سمجھتے۔ نیشنل ڈسکرمینشن سروے کے مطابق دنیا میں 41 % خواجہ سرا اپنی زندگی میں خودکشی کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ نفسیاتی امراض کے ماہرین کے مطابق انسانوں کے ذہنی امراض کی وجوہات میں اس معاشرے کی طرف سے ٹھکرایا جانا، آگے بڑھنے کے مواقع کا نہ ہونا، جنسی تشدد اور معاشرے کا امتیازی سلوک سرفہرست ہیں جو ایک خواجہ سرا اپنی آخری سانس تک جھیلتے ہیں۔

معاشرے کی یہ ٹھکرائی ہوئی مخلوق ہسپتالوں میں بھی قابل ذکر توجہ اور علاج کی سہولیات حاصل کرنے سے محروم رہتی ہے۔ 2016 میں پشاور میں علیشا نامی خواجہ سرا کو ہسپتال کس وارڈ میں رکھنا ہے یہ مسئلہ درپیش رہا اور وہاں کا عملہ علیشا کے ساتھ آنے والوں سے عجیب و غریب سوالات پوچھتے رہے۔ علیشا تو اب اس دنیا میں نہیں رہی مگر ہمارے اس بد نما معاشرے کے لیے جو کہ منافقت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے اس کے لیے ڈھیروں سوالات چھوڑ گئی۔

آپ اگر ان کی کوئی چارہ جوئی نہیں کر سکتے تو کوشش کیجئے ان کے لیے باعث اذیت بھی نا بنیں۔ انہیں پہلے ہی ان کے خاندان والے ٹھکرا چکے ہوتے ہیں اپنے خاندان سے کسی بھی قسم کی اخلاقی یا مالی طور پر حمایت حاصل ہونا تو دور کی بات انہیں ایک بدنما داغ تصور کیا جاتا ہے خاندان کی سپورٹ کے بغیر تعلیم حاصل کرنا یا کسی ہنر کا سیکھنا ناممکن سی بات ہے اس صورتحال میں بھیک مانگنا ان کے پاس واحد حل ہوتا ہے۔ لیکن نہایت افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ انہیں سکون سے بھیک بھی مانگنے نہیں دیتا انہیں جبری طور پر جنسی کاروبار کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے کی اخلاقیات کا تو ویسے ہی جنازہ نکل چکا ہے تعلیم و تربیت کا فقدان ہے۔ ہمارے ہاں کسی کی تذلیل کرنے کے لیے یا کسی کی مردانگی کو للکارنے کے لیے اسے خواجہ سرا کہہ دیا جاتا ہے۔ اس بات سے آپ اندازہ لگائیے کہ ہم انسانیت کے کس درجے پر فائز ہیں اور ہماری اخلاقی اقدار کا ویسے ہی جنازہ نکل چکا ہے۔ جب ہم صنفی آزادی اور برابری کے بلند و بالا دعوے کرتے ہیں تو کیوں کوئی خواجہ سرا کے حقوق کی اور ان کے حق میں بات نہیں کرتا؟

اور نا ہی انہیں اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑنے کا حق دیا جاتا ہے ۔ ہمارا یہ تہذیب یافتہ معاشرہ شاید ہی ان کے کرب کا اندازہ کر سکے جو خواجہ سرا محسوس کرتے ہیں اور میں یہ سمجھتی ہوں کہ کسی کا درد محسوس کرنے کے لیے بھی آپ کے اندر کوئی انسانی وصف ہونا ضروری ہے اپنا درد تو سبھی کو محسوس ہوتا ہے۔ ہم صرف پدرسری اور مادر سری معاشرے کی جنگ ہی لڑ سکتے ہیں اور عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا ٹھیک ہے اور جب بات اس تیسری صنف کے مظالم کی آئے تو ہم خاموش ہو جاتے ہیں۔

بہت سارے لوگ یہ کہتے ہیں کہ معاشرے میں بہت ساری مثبت تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ دوبارہ غور کر لیجیے کیا اس معاشرے میں سبھی اصناف کو یکساں آزادی اور حقوق حاصل ہیں؟ یا پھر ہم خواجہ سراؤں کو معاشرے کا حصہ ہی نہیں سمجھتے؟ حال ہی میں پاکستانی ماڈل و اداکارہ ایمان علی نے ایک انٹرویو میں کہاں کے انہیں اپنا چہرہ پسند نہیں ہے جبکہ لوگ انہیں خوبصورت کہتے ہیں اور انہیں اپنا آپ خواجہ سرا جیسا لگتا ہے۔ انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ شاید وہ خواجہ سرا برادری کے بارے میں براہ راست تنقید کر رہی ہیں۔

یہ ہمارے پورے معاشرے میں کیا جاتا ہے کسی کی تحقیر کے لیے خواجہ سرا سے تشبیہ دینا تو عام ہے۔ اگر ہم اتنا سمجھ لیں کہ وہ بھی اللہ کی تخلیق ہیں اس میں ان کا کوئی عیب نہیں ہے یہ ہم میں سے بھی کوئی ہو سکتا تھا تو شاید کچھ سدھار آ جائے ہم کیسے اللہ کی تخلیق کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ہمیں خواجہ سرا برادری کے بارے میں اپنے نظریات بدلنے ہوں گے۔ ہمارا معاشرہ رنگ، نسل، صنف کی جنگ تو بہت پہلے سے لڑ رہا ہے ان چیزوں کی بنیاد پر ہم نے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی زندگیوں کو غلامی کی بھینٹ بھی چڑھایا۔

جیسے جیسے انسان کے ذہن میں شعور کی سطح بلند ہوئی وہ بہت ساری ایسی غلامی کی زنجیریں توڑنے میں کامیاب تو بھلے رہا مگر انسانی شعور اتنا پختہ بھی نہ ہو سکا کہ ہر صنف کو مکمل شخصی آزادی مل سکے۔ بین الاقوامی طور پر بہت ساری تنظیمیں انسانی آزادی اور یکساں حقوق کی علم بردار بھی ہیں مگر کوئی خاطرخواہ فرق دیکھنے کو نظر تو نہیں آ رہا۔ جینڈر انٹر ایکٹو الائنس کی رکن رفیع کہتی ہیں کہ پاکستان میں روز بروز خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیازی سلوک بڑھتا جا رہا ہے ان میں بہت سے غریب ہیں یا بے گھر ہیں اور بہت سے غیر تعلیم یافتہ ہیں کیونکہ والدین نے انہیں بچپن سے اپنایا ہی نہیں ہے اس لیے خواجہ سرا کو اپنا پیٹ پالنے کے لیے بھیک مانگنی پڑتی ہے اور جسم فروشی کی طرف جانا پڑتا ہے۔

جو امتیازی سلوک خواجہ سرا کے ساتھ پاکستان میں ہو رہا ہے وہ حکومت، پولیس اور اس تہذیب یافتہ معاشرے سے ہر گز چھپا ہوا نہیں ہے۔ سنہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں خواجہ سرا برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد 10313 ہے۔ لیکن اس کمیونٹی کے بڑے ان اعداد و شمار کو نہیں مانتے۔ دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے تحت تشکیل دی گئی ایک رپورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی رٹ پٹیشن میں خواجہ سرا برادری کی تعداد 18 لاکھ بتائی گئی ہے۔

جب پاکستان میں پہلی خواجہ سرا اینکر پرسن کو نیوز چینل نے نوکری پہ رکھا تو جس چینل کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے تھے انہیں بھی اس کا علم ہو گیا اس سے معاشرے میں ان کا ایک سافٹ امیج قائم ہو گیا لیکن اس کے بعد کیا اس خواجہ سرا کو چھ ماہ بعد ہی نوکری سے فارغ کر دیا گیا تھا جبکہ اقوام متحدہ کے پراجیکٹ میں کام کرنے والی پہلی خواجہ سرا افسر کے کانٹریکٹ میں ایک سال بعد توسیع نہیں کی گئی تھی۔ ڈھیروں خواجہ سرا تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی نوکری حاصل نہیں کر پاتے۔

لوگ ان کے بارے میں جو ایک رائے قائم کر کے بیٹھے ہیں اس کی وجہ سے انہیں ان گنت مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ تو کیا یہ کہنا بجا ہو گا کہ کمپنیاں بین الاقوامی سطح پر تشہیر اور اپنا سافٹ امیج قائم کرنے کے لیے خواجہ سرا اکا استعمال کرتی ہیں؟ ملک میں خواجہ سرا کے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی بل پاس تو کر دیا ہے۔ دا ٹرانسجینڈر پرسن پروٹیکشن آف رائٹس بل 2018 جو اب ملکی قانون کا حصہ بن چکا ہے اس کی تیاری میں ملک کی پہلی خواجہ سرا لیکچرر عائشہ مغل نیشنل ٹاسک فورس کا حصہ تھیں۔

لیکن یہاں اداریوں کو بھی چاہیے کہ انہیں معاشی مواقع فراہم کریں تا کہ یہ طبقہ بھی آگے بڑھ سکے اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے ہمیں سکول لیول پر ہی بچوں کو جینڈر سٹڈیز پڑھانی چاہیے انہیں تیسری صنف کے بارے میں مثبت چیزیں بتانی چاہیے کیونکہ اگر بچپن سے ہی انہیں یہ چیزیں سمجھ آ جائیں گی تو وہ آنے والے کل میں بہتر طریقے سے چل سکیں گے لیکن اس میں ابھی بہت وقت لگے گا کیونکہ سوچ بدلنا آسان کام نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments