ماں بولی سے کھلواڑ


والدہ نے ہمیں اردو سکھانے کی بہت کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہو سکیں۔ میرے بعد امی نے چھوٹے بھائی پہ اپنی بھرپور توانائی خرچ کی، جو بعد ازاں کارگر ثابت ہوئی۔ اس کا یہ فائدہ ہوا، تحصیل شکر گڑھ میں چند بچے اردو بولتے تھے۔ اس میں ہمارے خاندان کا نام بھی آ گیا۔ ہماری خالائیں فادی کو خصوصی طور پہ لے کے جاتی تھیں۔ بعض اوقات تو فادی کی بکنگ ڈیٹس اوور لیپ ہوجاتی تھیں۔ کبھی کبھار شوخی کے چکر میں، میں فادی کو ذاتی درخواست پہ اپنے دوستوں کے پاس اردو سنانے کے لیے لے کے جاتا تھا۔

حتی کہ ماسٹر جی بھی مرعوب ہو جاتے تھے۔ اپنی تو حالت مکمل دیسی تھا۔ شادی بیاہ دیگر تقریبات کے لیے امی نے میرا داخلہ ایسے ممنوع کیا تھا جیسے ہم کلاشنکوف ہوں۔ حتی کہ مجھے کئی دفعہ سکول کے اساتذہ سٹیج پہ اس لیے بلاتے تھے کہ میرا اردو گلابی تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گلابی رنگ پوری زندگی فیورٹ رہا ہے۔ خواہ وہ گلابی گال ہوں یا روح افزاء اور دودھ کا ملاپ۔ خیر شدید ڈھیٹ ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر کا شرارتی زندہ رہا۔ ورنہ میں نے بیشمار پنجابی بچوں کا اندر اردو کی بندوقوں سے مرتا دیکھا ہے۔ ایسے گھٹن زدہ ماحول پہ ندیم قادری صاحب نے کہا

اٹھ شاہ حسینا ویخ لا اسیں بدلی بیٹھے بھیس
ساڈی جند نمانی کوک دی اسیں رل گے وچ پردیس
اساں شو غماں وچ ڈبدے ساڈی رڑ گئی ناؤ پتوار
ساڈے بولن تے پابندیاں ساڈے سر لٹکے تلوار

یہ گھٹن زدہ ماحول تقسیم کے بعد بنایا گیا۔ جب پنجابی اپنے پنجاب میں پردیسی ہو گئے۔ جیسے بہن شادی کے بعد میکے آئے تو اپنا گھر پردیس بن جاتا ہے۔ وہ تولیا اپنا نکالتی ہے۔ وہ غسل خانے میں جاتی جھجکتی ہے۔ اپنے بچوں، شوہر کو کچن میں سالن ڈالتے ہوئے جھجکتی ہے۔ ماں کے پاس زیادہ دیر بیٹھنے سے جھجکتی ہے۔ اسی طرح پنجابی اپنے گھر میں وحشت کا شکار ہو گئے۔ نہ ان کے بھائی سگے رہے، حتی کہ ماں مار دی پنجابیوں کی۔ پنجابیوں کو بتایا گیا۔

یوپی سے بڑے پڑھے لکھے لوگ آرہے ہیں۔ بہت میٹھی زبان بولتے ہیں۔ پنجابی ابھی تقسیم کے دکھ سے نہیں نکلے تو سرکاری زبان اردو رکھ دی گئی۔ سکولوں، کالجوں، دفتروں کو مکمل اردو زبان کے حوالے کر دیا گیا۔ معاشرے کی اہم متاثر کن مقام منبر، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں اردو کے حوالے کردی گئی۔ اہم سرکاری پوزیشنوں پہ اردو بٹھا دیا گیا۔ تقسیم کے بعد سب سے زیادہ لوگوں کو پنجاب میں جگہ دی گئی۔ جو ہجرت کے دکھ کے ساتھ کلچر بھی لے کے آئے۔

ویسے بھی پنجاب میں زیادہ چوہدری، جٹ ہندو سکھ تھے۔ جو تقسیم کے بعد انڈیا چلے گے یا مار دیے گے۔ پیچھے قبضہ کرنے والے مزارع تھے۔ جنہوں نے سکھوں ہندوؤں کی نہ صرف زمینوں پہ بلکہ قوم و ذاتوں پہ قبضہ کر کے جعلی جٹ اور چوہدری بن گے۔ یہ جعلی لوگ اردو ملازمین کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے۔ اس لیے اردو نظام کو قبضہ کرنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ رہی سہی کسر انڈیا سے ہجرت کرنے والے نوابوں نے پوری کردی۔

وہ سیاسی تناظر اور عہدوں کے لیے قربانی پہ پاکستان آئے تھے۔ حکومت پاکستان نے متبادل جاگیریں تو دے دیں مگر عوامی ووٹ بنک کا مسئلہ درپیش تھا۔ جس کے لیے اسے مقامی امیدوار سے جیتنا تھا۔ اس کے حصول کے لیے پنجابی زبان کی سرعام تذلیل کی گئی۔ جاہلوں کی زبان پیش کیا گیا۔ جس وجہ سے تاریخ کی پہلی منظم دھاندلی کی داغ بیل ڈالی گئی۔

ہمارے بھنگڑے، تہوار، عرس، میلے ٹھیلے، بیساکھی سب ختم ہو گے۔ ہمارے تہواروں کو مذہب کا رنگ دے کے کافر مشرک بنا دیا گیا۔ ظلم انتہا کے ہمارے صوفی شاعروں تک کو نہ بخشا گیا۔

ساڈا ہردم جی کر لاؤندا ساڈی نیر وغاوے اکھ
آساں جیوندی جانے مرگے ساڈا مادھوہویا وکھ

جس قوم سے آپ ان کی ثقافت چھین لیں تو پیچھے ان کے پاس بچتا ہی کیا ہے؟ محض جعلی ہائبرڈ رویہ۔ بغیر مذہبی تفریق کے عرب علماء اپنا تلوار والا ڈانس کرتے ہیں۔ پٹھان اتن کرتے ہیں وہ اپنے کلچر کا بھرپور اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر قوم اپنی خوشی اپنی ثقافت کے مطابق مناتی ہے۔ ہم نے آج تک حریت پسند دلا بھٹی، بھگت سنگھ کو نہیں پڑھایا۔ چلیں بھگت سنگھ کافر ہی سہی مگر دلا بھٹی تو مسلمان ہے۔ آپ اس کا نام تاریخ میں کیوں نہیں شامل کرتے۔

بھگت سنگھ جیسے حریت پسند جس نے حسینیت کے نظریے پہ چلتے ہوئے جابر حکمران کو للکارا۔ حالانکہ سندھ کے حریت پسند ہیرو میں ہندو ہیرو بھی ہیں۔ سندھ نے وہ حریت پسند کو کبھی کافر کہہ کے اپنے نصاب اور ثقافتی کہانیوں سے ختم نہیں کیا۔ چین میں اساتذہ یہی کہتے تھے۔ چینی زبان سیکھنے کے لیے چینی معاشرے میں جاؤ۔ ان کے ساتھ دوستی کرو۔ زبان ایک ثقافت کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے جو لوگ وہاں مقامی لوگوں سے دوستی بناتے تھے۔ ان کی چینی زبان سب سے اچھی ہوتی ہے۔ وہ الگ بات ہے پھر ان کی زبان سے شادیاں بھی ہو گئیں اور ڈگریاں رہ گئیں۔

ہم مانتے ہیں کہ ملک بناتے وقت ایک یونیورسل نعرہ لگانے کی ضرورت تھی۔ مگر میری مودبانہ درخواست ہے، کہ صورتحال بدل چکی ہے۔ لوگ قوم پرست ہوچکے ہیں۔ آپ کسی بھی ملک میں جائیں اس قوم کے مخصوص روئیے ہوتے ہیں۔ ہمارے مطالعہ پاکستان کی طرح کنفیوز نہیں ہوتے۔ آپ بموں کے نام افغانی رکھ دیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر ہماری ثقافت ہمیں لوٹا دیں۔ ہمارے میلے عرس تہوار زبان لوٹا دیں۔ ہم پنجابی بھی اپنی قومیت پہ خود اعتماد اور فخر کرسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments