کیا آپ مسلمانوں کے عظیم سائنسدان الحازن کی تحقیقات سے واقف ہیں؟


میں نے جب اپنی سائنسی تحقیق کے لیے ایمیزون پر ساری دنیا کے سائنسدانوں کی سوانح عمریاں تلاش کرنی شروع کیں تو مجھے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ مجھے گیلیلیو ’نیوٹن‘ آئن سٹائن اور ہاکنگ کی سوانح عمریاں تو آسانی سے مل گئیں لیکن مسلم سائنسدان الحازن کی کوئی سوانح عمری نہ ملی۔ چنانچہ میں نے اپنے عزیز دوست زکریا ورک سے رجوع کیا۔ زکریا ورک پروفیسر عبدالسلام کی سائنسی خدمات پر تحقیق کر چکے ہیں۔ انہوں نے میری حد سے زیادہ مدد کی۔ اس تحقیق کے دوران مجھے یہ جان کر بھی حیرانی ہوئی کہ الحازن کا اصلی عربی نام الحسن (ابو علی الحسن بن الحسن الہیثم) تھا جو انگریزی میں بگڑ کر الحازن ہو گیا جس طرح رابندر ناتھ کا نام ٹھاکر سے بگڑ گر ٹیگور ہو گیا تھا۔

الحازن 965 عیسوی میں بصرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق مسلمانوں کے اس سنہری دور سے تھا جس دور میں الکندی ’الرازی ”الفارابی اور ابن رشد جیسے فلسفیوں نے مسلمانوں میں سائنسی اور تنقیدی شعور کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی تھی۔ اسی لیے الحازن فرماتے ہیں کہ اگر کسی انسان کو سائنسدان بننا ہے اور سچ کو جاننا ہے تو اسے ہر تحریر کو شک کی نگاہ سے دیکھنا اور پڑھنا چاہیے۔

الحازن نے اپنی ابتدائی تعلیم بصرہ کی مسجدوں اور مدرسوں میں حاصل کی لیکن جلد ہی انہوں نے اپنی خفتہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے روایت سے بغاوت اور بغاوت سے دانائی کا سفر شروع کر دیا۔

الحازن نے اپنی غیر روایتی تعلیم کا آغاز ارسطو کی کتابوں سے کیا۔ وہ جو کتاب بھی پڑھتے وہ اس کا خلاصہ لکھتے تا کہ ان کے دوستوں اور شاگردوں کو پوری کتاب نہ پڑھنی پڑے۔

فلسفے کے بعد ان کی دلچسپی ریاضی میں پیدا ہوئی اور انہوں نے اقلیدس کی کتابوں سے جیومیٹری کے راز سیکھے۔

ریاضی میں جب انہیں دسترس حاصل ہونے لگی تو انہوں نے ارشمیدس اور پٹولومی کی کتابوں کا مطالعہ کیا تا کہ وہ فلسفے ریاضی اور افلاکیات کے علوم پر عبور حاصل کر سکیں۔

الحازن کو جب مختلف علوم پر عبور حاصل ہو گیا تو نوجوانی میں وہ قدرے مغرور ہو گئے اور بلند بانگ دعوے کرنے لگے۔ ان دعووں میں سے ایک دعویٰ یہ تھا کہ اگر خلیفہ وقت الحاکم انہیں اپنے دربار میں بلائے تو وہ اسے دریائے نیل پر بند باندھنے کی ترکیب بتائیں تا کہ عوام دریا کے طوفانوں اور سیلابوں سے بچ سکیں۔

الحازن کے دعوے کی خبر اڑتے اڑتے خلیفہ تک پہنچ گئی اور خلیفہ نے الحازن کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ الحازن وہاں پہنچے تو خلیفہ نے انہیں اپنے دعوے پر عمل کرنے کو کہا۔

الحازن دریائے نیل پر پہنچے تو انہیں اندازہ ہوا کہ ان کا دعویٰ حقائق پر مبنی نہ تھا۔ وہ ایک دیوانے کی بڑ سے زیادہ کچھ نہ تھا۔

جب الحازن نے دربار میں آ کر خلیفہ سے اعتراف کیا کہ وہ اپنا وعدہ وفا نہیں کر سکتے تو خلیفہ کو طیش آ گیا اور انہیں دس سال کے لیے گھر میں قید کر دیا گیا۔ خلیفہ الحاکم نے اپنے دور خلافت میں نہ صرف الحازن پر جبر کیا بلکہ بہت سے اور لوگوں پر بھی ظلم کیا۔ اس نے کئی بے گناہوں کے سر قلم کروا دیے اور کئی معصوموں کو شہر بدر کر دیا۔ وہ اتنا دیوانہ تھا کہ اس نے THE MAD CALIPHکا خطاب پایا۔

الحازن 1011 سے 1021 عیسوی تک اپنے گھر میں قید رہے۔ انہیں کسی دوست اور دانشور سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔ الحازن نہایت ذہین اور دانا انسان تھے۔ انہوں نے وہ دس سال اپنے تجربات اور مشاہدات رقم کرنے میں لگائے اور ایک کتاب تخلیق کی جو بعد عربی میں کتاب المناظر اور دو صدیوں بعد مغربی دنیا میں BOOK OF OPTICS کے نام سے چھپی اور انہوں نے FATHER OF OPTICS کا خطاب پایا۔

کتاب المناظر میں الحازن نے بصارت ’روشنی اور عدسوں کے بارے میں اپنے انقلابی نظریات پیش کیے۔

اکیسویں صدی کے بین الاقوامی شہرت کے مالک پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر سہیل زبیری اپنے مقالے A VERY BRIEF HISTORY OF LIGHT

میں پہلے تاریخی حوالوں کا ذکر کرتے ہیں اور پھر الحازن کی تحقیقات اور خدمات کو سراہتے ہوئے لکھتے ہیں

’ایک وہ دور تھا جب مصری قوم کے عوام و خواص یہ سمجھتے تھے کہ روشنی کا تعلق سورج دیوتا سے ہے جب وہ آنکھ کھولتا ہے تو ساری دنیا میں روشنی ہو جاتی ہے اور دن نکل آتا ہے اور جب وہ آنکھ موند لیتا ہے تو رات ہو جاتی ہے اور چاروں طرف تاریکی پھیل جاتی ہے۔

یونانی فلاسفروں نے نہ صرف روشنی بلکہ روشنی اور بصارت کے تعلق کے بارے میں بھی مختلف خیالات اور نظریات پیش کیے۔

ایک نظریہ افلاطون ( 428 BC۔ 328 BC) کا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ روشنی انسانی آنکھ سے نکل کر چاروں طرف پھیل جاتی ہے اور جب وہ کسی چیز کو چھوتی ہے تو انسانی آنکھ پر اس چیز کی ساخت رنگ اور ماہیت واضح ہو جاتے ہیں۔ یہ نظریہ ایک ہزار سال تک مقبول عام رہا۔

دوسرا نظریہ ایپی کیورس ( 341 BC۔ 270 BC) کا تھا ان کا کہنا تھا کہ ہر چیز ایٹم خارج کرتی ہے اور جب وہ ایٹم انسانی آنکھ تک پہنچتے ہیں تو انسانی آنکھ پر وہ چیز منکشف ہو جاتی ہے

تیسرا نظریہ ڈیموکریٹس ( 460 BC۔ 370 BC) کا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر چیز کا نقش ہوا پر ثبت ہو جاتا ہے اور انسانی آنکھ اس نقش کو پڑھ لیتی ہے اور اس چیز کو جان جاتی ہے۔

الکندی نے نہ صرف روشنی کی خصوصیات کا مطالعہ کیا بلکہ روشنی ’آئینے اور سائے کے تعلق کو بھی سمجھنے کی کوشش کی۔ الکندی نے افلاطون کے روشنی کے نظریے میں گرانقدر اضافے کیے۔ الکندی کے نظریات کو بو علی سینا کے خیالات نے اور بڑھاوا دیا

دسویں صدی کے الحازن نے کتاب المناظر رقم کی جو سات جلدوں پر مشتمل تھی۔ یہ پہلی کتاب ہے جس میں انسانی آنکھ ’روشنی‘ آئینوں ’سایوں اور عدسوں کی خصوصیات کا تفصیلی ذکر کیا گیا۔ الحازن کے شہ پارے کا لاطینی میں ترجمہ بارہویں صدی میں کیا گیا۔ وہ کتاب اگلے پانچ سو برس تک اس موضوع پر سب سے اہم کتاب سمجھی جاتی ہے جس کے بعد نیوٹن کی 1704 AD کی کتاب OPTICKS اولیت اختیار کر لیتی ہے۔

الحازن نے یونانی فلسفیوں کے نظریے کہ روشنی انسانی آنکھ سے نکلتی ہے کو ایک ہزار سال کے بعد غلط ثابت کیا اور یہ ثابت کیا کہ روشنی کا ماخذ لیمپ جیسے مختلف آلے ہیں۔ انہوں نے دیواروں میں چھوٹے چھوٹے سوراخ کر کے اور دیوار کی دوسری طرف لیمپ رکھ کر یہ بھی ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں سیدھی لکیر میں سفر کرتی ہیں۔ اس تجربے سے انہوں نے کیمرہ بنانے کے امکان کو بھی درخشاں کیا۔ الحازن نے دوربین تو ایجاد نہ کی لیکن دوربین کا امکان پیش کیا کہ کس طرح روشنی مختلف عدسوں سے گزرتے ہوئے اپنی خصوصیات بدلتی ہے۔ الغرض الحازن کے روشنی کے نظریات نے کیمرے اور دوربین کی ایجادات کے لیے بنیادیں فراہم کیں۔ ’

الحازن کی زندگی کے بارے میں بہت سی کہاوتیں مشہور ہیں۔ ایک کہاوت کے مطابق الحازن ایک تاریک کمرے میں بیٹھے تھے کہ انہیں دیوار پر روشنی دکھائی دی جب وہ قریب گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ روشنی کے ساتھ ان اشیا کا الٹا عکس بھی تھا جو کمرے کے باہر تھیں۔ الحازن نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ دوسری دیوار میں ایک سوراخ تھا جس سے روشنی کی کرنیں آ رہی تھیں۔ الحازن نے سوراخ پر اپنا ہاتھ رکھا تو عکس غائب ہو گیا۔ ہاتھ اٹھایا تو عکس دوبارہ دکھائی دینے لگا۔

الحازن نے اس مشاہدے کو ایک اور تجربے سے دہرایا۔ انہوں نے ایک دیوار کے سامنے تین شمعیں جلائیں اور دیوار اور شمعوں کے درمیان ایک پردہ رکھا اور پردے میں سوراخ کیا۔ ایسا کرنے سے انہیں دیوار پر شمعوں کا الٹا عکس دکھائی دینے لگا۔

اس تجربے سے الحازن نے نتیجہ نکالا کہ انسانی آنکھ بھی اسی بند کمرے کی طرح ہے جس میں باہر کی چیزوں کا عکس آنکھ کے پردے پر الٹا پڑتا ہے اور پھر دماغ میں جا کر سیدھا ہوجاتا ہے۔

الحازن نے انسانی آنکھوں عدسوں اور کیمروں کے راز جانے۔

الحازن کی زندگی کے بارے میں تحقیق کرتے ہوئے مجھے نیشنل جیوگرافک کی بچوں کی چھوٹی سی کتاب مل گئی جس کا نام

IBN AL HAYTHAM…THE MAN WHO DISCOVERED HOW WE SEE
ہے۔ اس کتاب میں الحازن کے بارے میں مندرجہ ذیل معلومات فراہم کی گئی ہیں
1۔ الحازن نے ایک ایسی گھڑی بنائی جو پانی سے چلتی تھی اور گھنٹوں اور منٹوں میں صحیح وقت بتاتی تھی۔
2۔ الحازن کی علم ریاضی سے ثابت کیا کہ چاند کی روشنی دراصل سورج کی منعکس کردہ روشنی ہے۔
3۔ الحازن نے وہ راز بتائے جن کی بنیاد پر کیمرے ’مووی پروجیکٹر‘ دوربینیں اور خوردبینیں بنائی گئیں۔

4۔ الحازن نے ہمیں بتایا کہ ہم دن کے وقت ستارے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ سورج کی تیز روشنی میں ماند پڑ جاتے ہیں لیکن رات کی تاریکی میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔

الحازن کی روشنی ’بصارت اور اجرام فلکی کی تحقیقات سے مسلم فلاسفر ابن رشد نے ہی نہیں گیلیلیو اور نیوٹن جیسے مغربی دانشوروں اور سائنسدانوں نے بھی استفادہ کیا۔

الحازن مسلمانوں کے سنہری دور کا ایک روشن ستارہ ہیں جنہوں نے انسانی بصارت کے بارے میں بصیرت افروز مقالے لکھے اور سائنس کی دنیا میں گرانقدر اضافے کیے۔ وہ 1040 عیسوی میں پچھتر برس کی عمر میں فوت ہوئے۔

۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments