حکومتی بھنگ پراجیکٹ: خارجہ پالیسی اور معیشت کا معجزہ
کرپٹ حکومتوں کے حامی اعتراض کرتے ہیں کہ موجودہ صاف شفاف حکومت ملکی معیشت کو نہیں سمجھتی۔ حالانکہ اس حکومت سے بہتر معیشت کی سمجھ میری ناقص رائے میں تو کسی کو نہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ کیسے اس نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔ امریکی سینیٹ میں افغانستان کا نام لے کر بل آیا مگر ساتھ پاکستان کا نام بھی نتھی کر دیا کہ اس کی وجہ سے امریکہ کو شکست ہوئی ہے اس لیے پابندی لگائی جائے۔ مشتعل امریکی شکست کے صدمے سے چور ہیں اور ذمہ داری ڈالنے کے لیے قربانی کا بکرا ڈھونڈ رہے ہیں۔
ایسے میں اگر نواز شریف کی حکومت ہوتی تو وہ بن بلائے ہی دوڑے دوڑے واشنگٹن پہنچ جاتے۔ آصف زرداری برسر اقتدار ہوتے تو حسین حقانی اور دیگر دوستوں کے ذریعے لابنگ میں لگ جاتے۔ مگر ان کی سوچ جہاں ختم ہوتی ہے، کپتان کی وہاں سے شروع ہوتی ہے۔ کپتان کے سامنے دو مسئلے تھے۔ پہلا تو یہ کہ امریکی غصے میں پاگل ہو رہے تھے اور دوسرا یہ کہ پاکستان کے پاس امریکی ڈالر کم ہیں۔ تو کپتان نے دماغ لڑایا اور وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی شبلی فراز کو کہا کہ ایسے منصوبے شروع کیے جائیں جن سے ملکی معیشت آگے جائے اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوں۔ شبلی فراز کے مطابق ”بھنگ کی کاشت اسی بڑے ویژن کا نتیجہ ہے“ ۔
اب اس کے فائدے دیکھیں۔ سب سے پہلے تو یہ امریکہ کو برآمد کی جائے گی۔ حکما کہتے ہیں کہ بھنگ مشتعل جذبات کو ٹھنڈا کرتی ہے۔ غصے سے دیوانہ ہوا شخص ایک پیالہ باداموں والی سبز سردائی چڑھائے تو شدید گرمی میں بھی اسے مارچ کی سی خوشگوار خنکی محسوس ہونے لگتی ہے۔ وہ لڑنا بھڑنا بھول کر صلح آشتی کی طرف مائل ہوتا ہے اور اپنی فالتو انرجی وہ دھمال ڈال کر نکال دیتا ہے۔ اب ہم یہ بھنگ امریکہ کو سپلائی کر کے نہ صرف خارجہ محاذ پر ایک بڑی مشکل سے نکل جائیں گے، بلکہ ایسا کریں گے بھی امریکی خرچ پر اور ان سے بھنگ کے بدلے ڈالر لے کر۔ سنا ہے کہ بھنگ کے تیل کی اب اربوں کھربوں ڈالر کی مارکیٹ ہے۔
اور ایسا نہیں ہو گا کہ بس بھنگ کے بدلے ڈالر ملیں گے۔ جہاں بھنگ ہو وہاں ملنگ بھی ہوتے ہیں، اور جہاں ملنگ ہوں وہاں آستانے اور درگاہیں بھی بن جاتے ہیں۔ یعنی اب جلد ہی امریکہ میں بھی گلی گلی آستانے، درگاہیں اور مزار ہوں گے جن کی آمدنی امریکی قانون کے مطابق ٹیکس فری ہو گی اور انسانی فطرت کے مطابق بے حساب۔ جلد ہی وہاں پاکستانی پیر پہنچ کر امریکیوں کے روحانی درجات بلند کریں گے اور خود اللہ کے فضل سے ارب پتی ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ اربوں ڈالر وہ پاکستان ہی بھیجیں گے۔ اور ان درگاہوں میں خدمت کے لیے ظاہر ہے کہ پاکستانی ہی جائیں گے کہ اس روحانیت کو ان سے بہتر کون سمجھتا ہے۔ یوں ملازمتوں کے بے شمار نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
ایسا نہیں کہ بس کپتان کے دماغ میں ایک سوچ آئی اور اس نے عمل شروع کر دیا۔ آپ نوٹ کریں کہ اس بھنگی روحانی انفراسٹرکچر کی تیاری حکومت پہلے دن سے کر رہی ہے۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ دو برس پہلے کپتان نے القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کہا تھا کہ وہ روحانیت کو سپر سائنس بنائیں گے۔ شیخ ابو الحسن شاذلی صوفی ازم اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سینٹر کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ یوں ایک منظم انداز میں پہلے تو اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنل ملنگوں کی کھیپ کا انتظام کیا گیا اور اب دوسرے مرحلے میں بھنگ کی منظم پیداوار شروع کر دی گئی ہے۔
بھنگ پراجیکٹ کے نتیجے میں صرف امریکی ڈالر نہیں ملیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ بھنگ اتنی وافر مقدار میں پیدا کی جائے گی کہ ہر پاکستانی کو بھی ارزاں نرخوں پر، بلکہ بالکل مفت دستیاب ہو گی۔ یوں جو افراد اس وقت بجلی، گیس، پٹرول، آٹے، چینی وغیرہ کی شکایت کر رہے ہیں اور پریشانی میں مبتلا ہیں، وہ بھی اسی طرح اپنا غصہ بھول کر پرسکون ہو جائیں گے جیسے امریکی سینیٹر۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).