برادر کراموزوف: فرشتے یا کیڑے


دوستوئفسکی کے ناول برادر کراموزوف کا پڑھ لینا بہر حال ایسا ہے کہ بندہ سجدہ شکر ادا کر لائے۔ روسی ادب کے عاشق محترم اشفاق سلیم مرزا برادر کراموزوف کی بے حد تعریف کرتے تھے اور اسی بات سے مجھے اس کے مطالعے کی بے قراری تھی۔ شاید اسی لیے میں نے بزعم خود اس کا پڑھ لینا سال کی بڑی کامیابی سمجھا اور خود کو شاباش دی کیونکہ میں اسے اپنے مطالعاتی تجربات میں اہم اور منفرد سمجھتی ہوں۔

برادر کراموزوف خریدنے کے کتنے دن بعد تک میں نے اسے کمرے میں سجائے رکھا اور ٹک ٹک دیدم کی کیفیت میں رہی۔ اور پھر ایک روز جب ہمت کر کے اسے پڑھنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ یہ کام اتنا سادہ بھی نہیں۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ بڑی ضخامت کے ناول کے پہلے سو صفحوں کی قرات کو میں اپنے لیے اہم سمجھتی ہوں جس میں متن، ماحول اور کرداروں کے ساتھ ایک ہم آہنگی سی ہو جاتی ہے لیکن برادر کراموزوف میں یہ مقام اتنی جلدی نہیں آیا۔

برادر کراموزوف کی ابتدا دلچسپ ہے کہ یہ ایک قصے کی مانند ہی معلوم ہوئی لیکن جونہی سب کرداروں کا تعارف ہوا اور میں انہیں ذہن میں اپنی اپنی جگہ پر بٹھا کر کچھ ہونے کا انتظار کرنے لگی تو یہ ”ہونا“ دلی کی طرح انتہائی دور ہوتا چلا گیا۔ یعنی ناول جس وقوعے پر انحصار کرتا تھا وہ کم ازکم چھ سو صفحات یعنی آدھا ناول گزرنے کے بعد تشکیل پایا۔ اب ایسے میں ان طویل مکالموں اور گہری جزئیات سے گزرنا ایک تھکا دینے والا کام تھا۔ کبھی کبھی اس دوران یہ بھی محسوس ہوتا کہ میں کوئی سوپ سیریل دیکھ رہی ہوں۔

سو میں نے اسے صبح شام دوائی کی طرح لیا۔ صبح ناشتے میں بیس صفحے اور شام کی چائے کے ساتھ بیس صفحات۔ مجھے لگتا تھا یہ صفحات خود ہی آہستہ آہستہ دلچسپی بڑھنے پر بڑھتے جائیں گے اور ایسا ہی ہوا لیکن تقریباً چھ سو صفحات کے بعد ۔

ناول قریبا بارہ سو صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے بعد دو سو صفحات پر مترجم نے دوستوئفسکی کے کوائف اور ناول کے حواشی و ماخذات کا بیان ہے۔ اب یہ مکمل چودہ سو صفحات کی ضخیم کتاب کو پڑھنے کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا تھا کہ کرسی پر بیٹھ کر اگر گود میں رکھا جائے تو گردن درد کرنے لگتی تھی۔ لیٹ کر پڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر منہ کے بل لیٹ کر پڑھنے کی کوشش کریں تو نیند آنے لگتی۔ میں نے اس کا یہی حل نکالا کہ یہ سارے مطالعاتی آسن دس دس منٹ کے لیے اپناتی رہی۔

برادر کراموزوف پڑھنا اس لیے بھی مشکل تھا کہ یہ ایک قصے کی طرح براہ راست ہوتے ہوئے بھی اپنی تفصیل پسندی اور جزئیات میں بالواسطہ تھا۔ طویل مکالموں، خود کلامیوں، واقعات کی تکرار اور نفسیاتی الجھنوں کے بیج میرے جیسے قاری نے اپنا فہم خود ہی بنانا تھا۔ ویسے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ دوستوفسکی نے جس کردار کو اپنا ہیرو کہا ہے وہ نہایت راست گو اور پاک باز انسان ہے اپنے استاد کی تعلیمات کے مطابق دنیا میں امن اور محبت پھیلانا چاہتا ہے۔ میں سوچ رہی ہوں اب تو ایسے ہیرو فلموں میں بھی نہیں ہوتے۔

روسی ناول عالمی ادب میں کلاسیک کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ وہ ناول ہیں جو اپنے فن اور موضوع کے حوالے سے کبھی فرسودہ نہیں ہوسکتے۔ جو رعب، دبدبہ اور تاثر ان کا پیدا کردہ ہے وہ کہیں اور مل نہیں سکتا۔ برادر کراموزوف پڑھتے ہوئے میں اس تلاش میں رہی کہ آخر یہ ناول ایسا کیا کہہ گیا ہے کہ اس کی گونج ابھی تک معدوم نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے میں جو بھی سمجھ پائی وہ کچھ یوں ہے کہ ناول ایک عیاش باپ، تین جائز اور ایک ناجائز بیٹے کی کہانی پر مبنی ہے۔

اس ناول کو اگر میں چاہوں تو ایک اقتباس میں سمیٹ سکتی ہوں لیکن چونکہ دوستوفسکی نے یہ کہانی محض کہانی سنانے کے لیے نہیں لکھی۔ بلکہ ان پانچ کرداروں اور ان کے حالات و واقعات سے ذریعے سے سماج و کلچر، انسانی وجود، خیر و شر، فلسفہ اخلاق، ایمان و تشکیک اور خدا پر گہرے فکری سوالات اٹھاتے ہوئے ایک آرٹ کو تشکیل دیا ہے۔ دو ستوئفسکی کا یہ ورلڈ ویو ایک طرف البتہ اس کا تصور پلاٹ اور کردار ارسطو سے ہی متاثر نظر آتا ہے کہ اس نے بھی کامیابی سے ایک المیہ تشکیل دیا اور کردار اپنے افعال میں consistentرہے۔ اسی طرح اس میں ڈرامائیت، طویل مکالمے، سنسنی خیزی اور کسی حد تک تشدد کے عناصر بھی نظر آتے ہیں۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ فیودورچ کراموزوف کا بڑا بیٹا دمتری اپنے باپ کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ باپ جس نے کبھی اولاد کے حقوق ادا نہیں کیے بلکہ اپنے بیٹے کی محبوبہ کو ہتھیانے کے چکر میں رہا۔ دمتری خود بھی اپنے باپ کی طرح عیاش ہے۔ جوا کھیلنا، شراب کی محفلیں اور عورتیں اسے اپنے باپ کی طرح ہی مرغوب ہیں۔ لیکن وہ خدا پر یقین رکھتا ہے اور یہ مانتا ہے کہ خدا اسے ان گناہوں کی معافی دے گا۔ یہاں دمتری کی شخصیت میں ایک بڑا پیراڈوکس نظر آتا ہے جس سے وہ آخر تک نبرد آزما رہتا ہے۔

دوسرا بیٹا ایوان ناول کا ذہین ترین مفکر کردار ہے۔ الحاد پسند ایوان ناول میں خدا، اخلاقیات اور دنیا پر بحث کرتا نظر آتا ہے۔ ایک جگہ وہ کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ میں خدا کو نہیں مانتا بلکہ میں اس کی بنائی دنیا کو نہیں مانتا۔ ایوان کے کردار کو مکمل طور پر سمجھنا مشکل ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی بنائی گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف نظر آتا ہے۔ تیسرا بیٹا الیوشا مذہب پسند ہے اور پادری بننے کے لیے تعلیم حاصل کر رہا ہے۔

الیوشا پر اپنے استاد زوسیما کا گہرا اثر ہے جس کی تعلیمات کے مطابق وہ دنیاوی تکالیف اور پریشانیوں کو محبت سے دور کرنا چاہتا ہے۔ ناول میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں الیوشا غربت، بیماری، مظلوم و محکوم مرد و عورتوں کو انتہائی افسوس ناک صورتحال میں دیکھتا ہے لیکن خدا پر اس کا یقین مستحکم رہتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان مصیبتوں محبت اور ہمدردی سے دور کیا جاسکتا ہے۔ دوستوئفسکی کے کرداروں کا یہ تضاد ہی دراصل ناول بنانے اور اسے آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

سمردیا کوف جو فیودروچ کا ناجائز بیٹا اور اپنے باپ کا قاتل ہے۔ ساری عمر اس کا نوکر بن کر رہتا ہے۔ وہ آخر میں خودکشی کرنے سے پہلے ایوان کے سامنے یہ اقرار کرتا ہے کہ اس نے باپ کا قتل اس لیے کیا کہ ایک دفعہ اسی نے کہا تھا کہ خدا کا کوئی وجود نہیں، اچھائی برائی اضافی چیزیں ہیں۔ اس طرح وہ اپنے قتل کا بوجھ ایوان کے سر رکھ دیتا ہے۔

برادر کراموزوف ایک فلسفیانہ ناول بھی ہے اور نفسیاتی بھی۔ چاروں بیٹے اور باپ کسی نہ کسی نفسیاتی الجھن میں ہیں۔ وہ ایسے باپ کی اولاد ہیں جس نے کبھی ان کو پدرانہ محبت نہیں دی۔ تینوں بیٹے اپنی اپنی جگہ اس سے نفرت کرتے ہیں اور انہیں اس کے قتل ہونے پر کچھ زیادہ افسوس نہیں۔ یہاں تک کہ دوسرا بیٹا ایوان جو ذہین اور پڑھا لکھا ہے۔ ناول کے آخر میں نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ اس کی اپنی دانائی اسے بھوت کی طرح چمٹ جاتی ہے اور جیت آخر میں الیوشا کی ہوتی ہے جو مذہبی ہے، خیر اور سچائی پر اپنا عقیدہ رکھتا ہے اور یہی عقیدہ اسے ناول کا ہیرو بناتا ہے۔

فکری سطح پراس کا سب سے اہم سوال انسانی وجود سے متعلق ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ناول اس لیے بھی عظیم ہے کہ یہ اپنے قاری کو کچھ بڑے اور کائناتی سوالات دے جاتا ہے۔ ناول کا ہر کردار خود اپنے وجود کی زد میں ہے۔ انسان اچھا یا برا اور ہاں یا ناں میں سے کوئی بھی راستہ اختیار کرے اسے خود سے فرار ممکن نہیں ہے جیسے کہ ناول ہمیں بتاتا ہے کہ کیا کوئی راستہ اتنا کامل ہے کہ اسے صحیح کہا جا سکے؟ خدا اگر نہیں ہے تو اخلاقی ضابطے کون تیار کرے گا؟ ایوان جو خدا کو نہیں مانتا اور اس کی گفتگو سے متاثر ہو کر ایک شخص قتل کا مرتکب ہوتا ہے تو یہ فیصلہ کون کرے کہ قاتل کون ہے؟

مجھے یوں لگتا ہے کہ دوستوئفسکی کے بنیادی کرداروں میں ایک بنیادی وصف ہے۔ دمتری کے اندر اپنے باپ کی عیاشی، ایوان کی فکر اور الیوشا پر اس کے استاد کے روحانی اثرات۔ لیکن یہی کرداری خاصیتیں ان کے لیے چیلنج بن جاتی ہیں۔ شاید اسی لیے عدالتی کارروائی کے دوران دمتری اپنے خاندان کے بارے کہتا ہے کہ ہم کراموزوف فرشتے ہوتے ہیں یا کیڑے۔ حالانکہ ناول کے اندر الیوشا کے علاوہ تینوں کراموزوف گرے ایریا میں ہیں۔ کیونکہ انسان فرشتے اور کیڑے کا مرکب ہی تو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments