افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس کیسے شروع ہوا؟


اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ پاکستان آٹو پائلٹ پر ہے۔ مجھے بھی اونچے مقامات پر بہت چھوٹے لوگ دیکھ کر بعض اوقات ایسا ہی لگتا ہے۔ لیکن پھر پلٹ کر ماضی پر نظر ڈالتا ہوں تو یقین ہوجاتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ بقول شاعر ~ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔

یہ مشرف کا زمانہ تھا۔ وہ رات میری لاہور جیم خانہ میں تھی۔ صبح ایک دوست کے ساتھ لاہور ہائیکورٹ میں ان کے کسی قانونی مسئلے کے بارے میں وکیل سے ملنا تھا۔ ہائیکورٹ جانے کے لئے صبح کار کے پاس آیا تو اس کے ونڈ سکرین پر ایک دستی اشتہار وائپر کے نیچے دبا ہوا تھا۔ اشتہار میں نے لے لیا، دوست گاڑی چلا رہا تھا اور میں اس دوران اشتہار پڑھ رہا تھا۔ جو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان چوہدری افتخار اور اس کے بیٹے ارسلان کی مبینہ کرپشن کے بارے میں کوئی اٹھائیس تیس نکات پر مشتمل تھا۔

لاہور سے فارغ ہو کر واپس آیا تو اسی دوست نے فون کیا، جس کا لاہور ہائیکورٹ میں قانونی مسئلہ تھا، اس نے مجھ سے فون پر پوچھا، کہ جو دستی اشتہار لاہور میں ہمیں نامعلوم ذرائع سے ملا تھا وہ کہاں ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ وہ شاید گاڑی کی ڈگی میں بریف کیس کے ساتھ پڑا ہے۔ اس نے بتایا کہ گاڑی میں چیک کرو اگر ملا تو اسلام آباد جی ٹین ٹو والے دفتر آ جاؤ۔

مذکورہ دوست سٹیل ملز کے ساتھ سٹیل کے مصنوعات کا بزنس کرتا تھا، جس خاطر اس نے جی ٹین ٹو میں دفتر لیا تھا۔ میں نے کار کی ڈگی میں دستی اشتہار کی موجودگی یقینی بنائی اور پنڈی سے اسلام آباد چلا گیا۔ جی ٹین ٹو والے دفتر میں، ذاتی مخاصمت کی بخار میں مبتلا ایک مشہور ٹی وی پریزنٹر اور قہقہہ مار وکیل، دوسرا شمالی پنجاب کے انتہائی آخری شہر سے تعلق رکھنے والا جبری ریٹائرڈ کردہ سپریم کورٹ کا رجسٹرار اور تیسرا نامعلوم شخص بمع میرے دوست کے بیٹھے تھے، علیک سلیک کے بعد میں نے ان کو اشتہار نکال کر دیا۔

ان تینوں نوواردوں نے میرا دیا ہوا اشتہار سامنے رکھا۔ مشہور وکیل نے کچھ اپنے نکات کچھ رجسٹرار کے نکات اور بقایا وہ سب جو اس پمفلٹ میں موجود تھا، ایک ریفرنس کی شکل میں لکھ کر تیسرے نامعلوم شخص کے حوالے کیا۔ کاغذ حوالہ کرتے ہوئے رجسٹرار کے آسودگی بھرے الفاظ مجھے ابھی تک یاد ہیں، اس نے کہا، ’کانے (جیف جسٹس چوہدری افتخار) نے میری الوداعی پارٹی نہیں ہونے دی اب میں دیکھتا ہوں اسے کون الوداعی پارٹی دیتا ہے‘ ۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب مشرف وردی کو اپنی چمڑی کہتا تھا، حکومت کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا، جس کی خاطر وہ چوہدری برادران کی حمایت اور مولانا فضل الرحمان کی آشیر باد سے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی پوری منصوبہ بندی کر چکا تھا لیکن اس کی منصوبہ بندی میں سب سے بڑا مسئلہ چوہدری افتخار بنا ہوا تھا۔

شاید کسی نے مشرف کے کان میں بڑے خلوص سے کہا تھا کہ چوہدری افتخار آپ کو وردی میں دوبارہ منتخب نہیں ہونے دے گا، اس سے استعفیٰ لے لو۔ مشرف، جو پہلے سے اس خدشے کا شکار تھا، مشیروں سے اسی خدشے کی نشاندہی نے اسے بالکل فیصلہ کن موڑ پر پہنچایا۔ مشرف اس پر راضی ہوا کہ چوہدری افتخار کا سامنا عدالت میں جانے سے پہلے کیا جائے، کیونکہ وہ ایک جرنیل تھا اور جرنیل ہمیشہ ایگزٹ سٹریٹیجی کی بناء پر پلان بی رکھتا ہے، لیکن یہاں پلان اے سے پہلے یعنی انتخابات اور ممکنہ عدالتی فیصلے سے پہلے پلان بی کو بروئے کار لایا گیا۔

جن مخلص مشیروں نے مشرف کے کانوں میں چوہدری افتخار کو خدشہ بتا کر حفظ ماتقدم کے طور پر نیوٹرلائز کرنے کا مشورہ دیا تھا، شاید انہوں نے چوہدری افتخار کو بھی سمجھایا کہ آپ کو آرمی ہاؤس بلوایا جائے گا ہم سب بیٹھے ہوں گے ، آپ سے استعفیٰ مانگا جائے گا لیکن آپ نے ڈٹ جانا ہے ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ (مشرف نے کئی انٹرویوز میں اس معاملے کے بارے میں بعد میں کئی بار اشارے بھی کیے ) چوہدری افتخار شہ پاکر ڈٹ گیا۔

صبح عدالت کے لئے نکلا تو کیمرے بھی موجود تھے اور اس کے بال کھینچنے والے بھی، کیونکہ اس کے بال بڑے تھے۔ جہاں سے مشرف کے ڈھلوان کا سفر شروع ہوا۔ جس کو تیز تر کرنے کے لئے وکلاء نے بھی دھکا دیا۔ اعتزاز احسن کو بھی شاید کسی نے چوہدری افتخار کی کار کے فرنٹ سیٹ پر بٹھایا ہو گا۔ کیونکہ چند دنوں پہلے اس نے خود چیف جسٹس کو پیش گوئی کر کے کہا تھا کہ جب آپ اپنا حق لینے نکلیں گے تو آپ کی کار میں خود ڈرائیو کروں گا۔

اس صورت حال کی صورت گیری سے پہلے ملک بھر میں سٹیل ملز کے ساتھ روزگار کرنے والوں کے صدر کو کراچی میں کوئی اپنے دفتر لے جا چکا تھا اور سٹیل ملز بیچنے کے خلاف اس کی مخالفت کرنے پر اس سے بریفنگ لے چکا تھا۔ جس نے بریفنگ لینے والوں کو اچھی طرح سمجھا کر مطمئن کیا تھا کہ وہ قومی اثاثہ سمجھ کر سٹیل ملز کو بیچنے سے بچانے نکلے ہیں اور کوئی مقصد نہیں۔

چوہدری افتخار کی ڈرائیوری کا کردار چوہدری اعتزاز کو ملا تو سٹیل ملز کا کیس لڑنے والے وطن پارٹی کے چیئرمین ظفر اللہ خان ایڈووکیٹ کو میں کئی بار لاہور سے سپریم کورٹ اسلام آباد لے آیا۔ لیکن میرا کردار قدرت نے لکھا تھا کیونکہ ممریز خان، جو سٹیل ملز کے مصنوعات کا ملک بھر میں کاروبار کرنے والوں کا صدر تھا، میرے اسی دوست کے بھائی تھے، جن کے دفتر میں بیٹھ کر چوہدری افتخار کے خلاف کچھ لوگوں نے صدارتی ریفرنس ڈرافٹ کیا تھا، وہ سٹیل ملز کا کیس لڑنے کراچی سے پنڈی آ گئے تھے۔ اور وطن پارٹی کے صدر ظفر اللہ خان کو سٹیل ملز کا کیس لڑنے کے لئے وکیل مقرر کیا تھا۔

ظفر اللہ خان بھی کافی دلچسپ کردار ہیں، لاہور سے تعلق ہے جو وطن پارٹی کے چیئرمین اور شاید اس پارٹی کے واحد ممبر بھی ہیں لیکن ”قومی مفادات“ کے کیسز لڑنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ قانون کی ایک کتاب مانگنے کے لئے، جس کی ظفر اللہ خان کو کیس کے بارے میں ضرورت تھی، جب ہم دو بندے چوہدری اعتزاز احسن کے گھر گئے تو اعتزاز احسن نے کتاب نہیں دی، ساتھ ظفر اللہ خان کے بارے میں زیادہ پسندیدگی کا اظہار بھی نہیں کیا۔ کیونکہ بقول اعتزاز احسن ’ہم برسوں کوشش کر کے آئین ٹھیک کر دیتے ہیں تو بابا جی (ظفر اللہ خان) پیٹیشن ڈال کر اس کا حلیہ دوبارہ بگاڑ دیتے ہیں‘ ۔

اس دن کے بعد چوہدری افتخار کی بحالی کا کیس ہو یا سٹیل ملز کو بیچنے سے روکنے کا، مشرف سب کچھ کا مالک ہونے کے باوجود کیس پر کیس ہارنے لگا۔ اور پھر بے نظیر کی شہادت کے بعد وہی ڈکٹیٹر ایک دن اپنا کمانڈ اپنے جانشین کو سونپ کر چپکے سے بیرون ملک چلا گیا، جو ایک سانس میں چار دفعہ کہتا تھا کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ شاید اسے بھی یہی خبط عظمت کی بیماری تھی جس میں بندہ بشر سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ جب میں نے ابھی حال ہی میں نواز شریف کی ایک ویڈیو خطاب سنی، جس میں وہ حسب عادت اپنا ہاتھ ہلا ہلا کر کہہ رہا تھا کہ عمران خان تو کچھ بھی نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے جا رہا ہے، تو مجھے مشرف کی یاد آئی جسے آخر تک پکا یقین تھا کہ وہ وردی سمیت دوبارہ صدر منتخب ہو جائے گا اور اس کے مشیر بڑے مخلص ہیں۔

پاکستان آٹو پائلٹ پر نہیں چلتا، کوئی عہدہ ناقابل رسائی یا عہدیدار ناگزیر نہیں۔ حالات کا جائزہ بڑی باریک بینی سے لیا جاتا رہتا ہے۔ لاینحل مسائل اور گمبھیر صورتحال سے نکالنے کے لئے ایکسرسائز ہوتے رہتے ہیں۔ قلیل مدتی ٹارگٹ کچھ بھی ہو عمومی ترجیح قومی مفاد اور عوامی رجحانات کو دی جاتی ہے، اگرچہ بعض اوقات عوام کو اپنی بے بسی نا امید کر دیتا ہے لیکن وہ دور عموماً ٹرانزیشنل ہوتا ہے۔ اوپر بیٹھے ہوئے بڑے بظاہر ناقابل شکست اور مضبوط دکھائی دیتے ہیں، بہت طاقتور، اختیارات کے مالک اور منصوبہ ساز لگتے ہیں لیکن ایک دن اٹھتے ہیں تو طاقت کی چھڑی اور عوامی کرسی دونوں خواب میں ملے بچوں کے کھلونے محسوس ہوتے ہیں۔

جب پہلا منصوبہ فیل ہونے لگتا ہے تو پلان بی ضرور ہوتا ہے، جو کسی جج کی عدالت کسی جرنلسٹ کی خبر کسی حادثے کے آفٹر شاکس یا بین الاقوامی صورت حال کی وجہ سے مخصوص سگنل کے بعد خود بخود ایکٹیو ہوجاتا ہے۔ پھر کوئی کرسی کوئی عہدہ، لین دین کا کوئی منصوبہ اہم نہیں ہوتا، اہم اول اور سب سے پہلے پاکستان ہوتا ہے۔

یاد رکھیں تیراک ہمیشہ سکون سے تیرتا ہے اور ڈوبنے والا تیز تیز ہاتھ پیر مارتا ہے، شور کرتا ہے، افراتفری میں ہر آسرے کو پکڑنے کی کوشش میں اپنی توانائی ضائع کرتا ہے، جبکہ توانائی اور سکون ڈوبنے سے بچاتا ہے۔ اگر آپ کو سکون محسوس ہوتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اطمینان رکھیں پاکستان آٹو پائلٹ پر نہیں۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments