مخلوق خدا کی! ملک بادشاہ کا! حکم کمپنی بہادر کا!


انسان کو بہت سی نعمتیں کائنات میں ودیعت کی گئی ہیں، جن کا اسے شاید احساس تک نہیں ہوتا، مگر جب ان میں سے کوئی ایک نعمت بھی چھن جائے تو وہ کف افسوس ملتا ہے، مگر پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ان میں سے ایک نعمت آزادی بھی ہے، جس کا بظاہر ہمیں کوئی احساس نہیں ہوتا، مگر یہ نعمت جہاں ایک طرف کئی وجوہات کے لحاظ سے بہت قیمتی ہے، وہیں اس کا حصول اور اس کی حفاظت بھی ویسی ہی دشوار۔

ایک انسان اپنے اندر کس قدر مسرت محسوس کرتا ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کی گردن آزاد ہے اور کسی بھی قسم کی غلامی کا پٹہ یا طوق اس کی گردن میں نہیں ہے، جو اس کو کسی کا تابع فرمان بنا کر اسے ہر آن غلامی کا احساس دلاتا رہے۔ تاہم محض جسم کی آزادی ہی کو کل کائنات سمجھ لینا بھی ہماری غلط فہمی ہے۔ بلکہ حقیقی اور کامل آزادی وہ ہے، جس میں انسان کا جسم، اس کا دماغ، اس کی فکر، اس کا قلم اور اس کی زبان بھی آزاد ہو اور وہ اپنے ضمیر کی آواز کا اظہار کرنے کی اجازت رکھتا ہو۔

تاہم اگر اس کے اوپر بولنے، سننے، سوچنے، فیصلہ کرنے اور اس کی مرضی پر کوئی دوسرا حدود و قیود مقرر کردے، جس کی رو سے وہ کسی دوسرے کے ابر و اشارہ کا پابند ہو، اور ان کے احکامات کا تابع فرمان ہو، تو وہ آزاد نہیں ہے، وہ غلامی کی ہی ایک قسم کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے، بھلے اس کو اس بات کا احساس ہو یا نہ ہو۔

اگر ہم ایک آزاد معاشرے کا تصور کریں جہاں حقیقی آزادی جیسی نعمت موجود ہو، تو وہاں کی سب سے بڑی خوبی وہاں کے افراد معاشرہ کو اپنی پسند کے نظریات کو چننے اور ان پر عمل کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ ان کو اپنے ہی معاشرے کی تاریخ کو پڑھنے، اپنی مقامی تہذیب کو اپنانے اور پھلنے پھولنے، اپنے مقامی رسم و رواج پہ عمل کرنے، اپنی مقامی زبان میں مافی الضمیر کا اظہار کرنے اور اپنی پسند کے مذہب پہ چلنے کی سہولت میسر ہوتی ہے۔ تاہم اگر کسی معاشرے میں ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں جہاں افراد معاشرہ کو اپنی تہذیب کو اپنانے میں احساس کمتری ہو، اپنی زبان کو مافی الضمیر کا آلہ بنانے پر سبکی محسوس ہو، اور اپنی تاریخ پہ فخر کرنے پر غداری جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑے، تو کیا وہ معاشرہ آزاد ہے؟

ایک ایسا ملک یا ایسا معاشرہ جہاں کسی اور کے من پسند نظریات کو ضمیر فروشوں اور دولت کے پجاریوں کے ذریعے سے زبردستی مسلط کر دیا جائے، اور وہاں کے باشندوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ انہی نظریات کو طوعاً و کرہاً ہی قبول کرنے میں زندگی کی ضمانت موجود ہے، تو کیا وہاں رہنے والوں کو واقعی آزادی میسر ہے؟ جہاں ان بیرونی آقاؤں کے من پسند نظریات و احکامات کے نفاذ کے لئے دلیل مانگنے کی آزادی حاصل نہ ہو، اور جہاں رعایا ان بیرونی درآمد شدہ نظریات اور تاریخ پہ سوال نہ اٹھا سکتی ہو، جہاں حکومت عوام کی بجائے کسی اور قوت کے سامنے اپنے آپ کو جواب دینے کا پابند سمجھتی ہو، جہاں بولنے والے کا گلہ کاٹ دیا جاتا ہو، جہاں اپنی مرضی سے قلم استعمال کرنے والے کے ہاتھ سے قلم چھین لیا جاتا ہو، جہاں کسی اور کا سیاسی نظام مسلط ہو، اس کو پھر بھی اگر کوئی آزادی کہے تو اس کی عقل پہ بس ماتم ہی کیا جاسکتا ہے اور کچھ نہیں۔

ایک آزاد معاشرے کا اپنا سیاسی اور معاشی نظام ہوتا ہے، جو رعایا اور حکومت کے درمیان ایک معاہدے کی صورت میں نافذ ہوتا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے عوام الناس کے لئے ہر قسم کے حقوق کی فراہمی اور ان کو ہر طرح کی معاشی، ذہنی، تعلیمی اور مذہبی آزادی دینے کی ریاست پابند ہوتی ہے۔ جہاں عوام کی سیاسی رائے کا احترام کیا جاتا ہے، اور ملکی و قومی مفاد کے خلاف کوئی بھی فیصلہ کرنے کو سب سے بڑی غداری جانا جاتا ہے۔ جہاں کیے گئے معاشی اور سیاسی فیصلے وہاں کی عوام کو سہولت دینے اور انہیں مزید آسودگی فراہم کرنے مین ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ وہاں حکومت وقت، ریاست اور عوام کی نمائندہ اور ان کی زندگی کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔

تاہم اس کے برعکس جہاں سیاسی اور معاشی نظام بشمول کل پرزے، کسی بیرونی قوت کے مسلط شدہ اور ان کے مفادات کی تکمیل میں سرگرم نظر آتے ہوں۔ جہاں ٹیکس سے لے کر ہر ظلم کا نشانہ عوام ہی بنتے ہوں، جہاں انسانوں پر عرصہ حیات اس قدر تنگ ہوں کہ وہ خود کشی کے علاوہ کوئی راہ نہ پاتے ہوں، جہاں جسم کی بھوک مٹانے کے لئے سر بازار عزت نیلام کرنی پڑ جائے، جہاں فاقہ کشی کے خوف سے والدین اپنی اولاد کو برائے فروخت کر دیں، جہاں روزگار کے مواقع چند محدود ہاتھوں میں دے کر اجارہ داری کا بازار گرم کر دیا جائے، جہاں کے باشندوں کو نان شبینہ کے لئے ہجرت پر مجبور کر دیا جائے، جہاں دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو جائے، اور اس پہ مستزاد حکمران وقت احساس ذمہ داری سے عاری اور عوام کی تکالیف سے یکسر بے نیاز ان قوتوں کے مفادات کی تکمیل میں سر دھڑ کی بازی لگانے میں ذرہ برابر بھی متامل نہ ہو، اس معاشرے کو اگر آزاد معاشرہ کوئی کہتا ہے تو نہ جانے اس کے نزدیک غلامی کیسی ہوگی؟

ایک اور المیہ کہ کچھ افراد معاشرہ محض اسی بات پہ اطمینان کا اظہار کرتے اور متشکر ہوتے نظر آتے ہیں، کہ انہیں اپنی مذہبی رسومات کی بجا آوری کی کلی آزادی میسر ہے، لہذا ان کی کل زندگی کی معراج بس اتنی ہی ہے کہ حکومت ان کو مذہب کے اوپر عمل کرنے سے نہیں ٹوکتی۔ مگر کیا دین چند عبادات اور رسومات کو ادا کرنے کا نام ہے؟

اگر اس کا نام مذہب ہوتا تو نبی اکرم ﷺ کو جو مکہ میں تکالیف برداشت کرنا پڑیں، حتیٰ کہ آپ کو اپنا شہر چھوڑنا پڑا تو کیا وہ محض چند عبادات اور رسومات کا معاملہ تھا؟

لہذا یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ مذہب کو اگر آج اس کی حقیقی روح کے ساتھ نافذ کرنے کی کوئی تحریک سامنے آ جائے، تو یکسر حالات کا رخ بدل جائے گا اور وہی قوتیں جو آج عبادات و رسومات کی تکمیل میں ممد و معاون ہیں، وہی سب سے بڑی مزاحم قوتیں بن کر سامنے آئیں گی

اگر ہم اپنی موجودہ مملکت خدا داد پاکستان کے حالات و واقعات کا اس نظر سے تجزیہ کریں، کہ آیا اس کے باسی حقیقتاً آزادی کی زندگی گزار رہے ہیں، یا وہ غلامی کی نظر نہ آنے والی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں، تو اس چیز کا جواب ملنا کوئی چنداں مشکل نہیں کہ ہم آج بھی غلامی کی مکروہ زندگی ہی گزار رہے ہیں، جہاں ہمیں ایک محدود حد تک مذہبی اور ذہنی آزادی تو حاصل ہے۔ مگر جیسے ہی کوئی انسان اس حد کو پھلانگ کر اپنے حقوق کا راگ الاپنے کی کوشش کرتا ہے، تو معاشرے میں موجود مذہبی، سیاسی، دفاعی اور سماجی قوتیں اس کی آواز دبانے اور اس کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کے لئے سرگرم عمل ہوجاتی ہیں۔

ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے، کہ اگر اس ملک میں حقیقی آزادی ہوتی، تو ہمارے سیاسی، مذہبی، سماجی، معاشی اور دفاعی فیصلے ہماری مرضی اور حالات کے مطابق ہوتے۔ جمہور کی رائے کا احترام ہوتا، یہاں بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب، قوم، زبان ہر کسی کو اپنی سوچ، اپنے خیالات اور اپنے قلم کے استعمال کی آزادی ہوتی۔ مگر اس سے بڑا اور ظلم کیا ہو گا کہ ہماری قسمت کے فیصلہ کرنے کا اختیار بھی ہمیں حاصل نہیں ہے اور ہماری قسمت کے فیصلے کسی اور مقام پر کوئی اور کر رہا ہوتا ہے۔

آج ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ جہاں ہمیں رنج و الم کی شدت کے باوجود چیخ مارنے اور اس کو بتلانے کی بھی اجازت میسر نہیں ہے۔ غرض جبر کا ایک ایسا طوق ہماری گردنوں میں ڈال دیا گیا ہے، جو بظاہر نظر نہیں آتا، مگر اس کا وجود ہے جس کا احساس صرف اسی کو ہو سکتا ہے جو احساس رکھتا ہو اور اس کے دل کی آنکھ کھلی ہو۔

ہمارے موجودہ حالات پھر اس نہج پر جا چکے ہیں، جہاں یہ اعلان دوبارہ سے ضمیر کے کانوں میں گونجنا شروع ہو چکا ہے کہ،

مخلوق خدا کی، ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments