ہیلو۔ کامریڈ زندگی ( 1)۔


کتابوں سے نکل کر جیتا جاگتا ماسکو میرے سامنے تھا جہاں کریملن پر لہلہاتے احمری جھنڈے بکھرتے سویت یونین کی خنک فضاؤں کو الوداعی سلام پیش کر رہے تھے۔

امیگریشن افسر نے میرا پاسپورٹ دیکھا اور مسکرا روسی زبان میں کچھ بولی۔ میں ہونقوں کی طرح اس کی شکل دیکھنے لگا۔

محلہ کے لڑکیوں کے سکول میں چھٹی ہو چکی تھی۔ میرا گھر سکول کی مرکزی گزرگاہ کے پاس ہی تھا۔ بیٹھک میں لگی بڑی بڑی کھڑکیوں سے سکول کا بڑا سا زنگ آلودہ آہنی دروازہ باہر مکھیوں سے لبریز کھانے پینے کی ریڑھیاں، طالبات کو لانے لے جانے والے رکشے اور ویگنیں اور ان میں اونگھتے ڈرائیور، موٹر سائیکلوں پر اپنی بیٹیوں یا بہنوں کا انتظار کرتے باپ یا بھائی، وہاں آتے جاتے دوسرے لوگ یہ سب آپ دیکھ سکتے تھے۔ روز کی طرح آج بھی کھنہ عین سکول میں چھٹی کے وقت بیٹھک میں موجود تھا۔ ہم دونوں تازہ تازہ میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوئے تھے۔ سکول سے نکلتی لڑکیوں کو دیکھ کر کھنے کی باچھیں اور آنکھیں دونوں ہی کھل جاتی تھیں۔ ونود کھنہ کے دوسرے دور کی فلموں اور ہسی تے پھسی کے نعرہ کا شیدائی زاہد عرف کھنہ ایک سال سے کوشش کر رہا تھا کہ کوئی اسے آنکھ بھر کے دیکھ لے اور مسکرا دے۔

جب نوجوان روسی امیگریشن افسر مجھے دیکھ کر مسکرائی تو ایک بجلی سی کوندی اور کھنے کا نعرہ میرے رگ و پے میں سرایت کر گیا۔ مجھے اس خمار کا احساس ہوا جس کی تلاش میں میرا دوست کڑکتی دوپہروں میں گھنٹوں اس سکول کے باہر بیٹھا رہتا تھا۔ کراچی سے ایرو فلوٹ کا جہاز ماسکو اتر چکا تھا اور میرے لئے دنیا کی سب سے بڑی اشتراکی ریاست کا ملبہ سمیٹنا ابھی باقی تھا۔

ماسکو میں مجھے سحر رات کو ملی۔ اپنے منگیتر کے ساتھ۔ یونیورسٹی کا ہوسٹل خستہ تھا۔ گندا سا ٹوٹا پھوٹا۔ میرا دل خراب ہونے لگا۔ اس دور میں ابھی وہاں پاکستان سے کم طالب علم ہی آتے تھے۔ میں پہلی بار ایک پاکستانی لڑکی کو پاکستان سے باہر دیکھ رہا تھا۔ جمال نے بتایا کہ ہم ماسکو دو دن رکیں گے۔ ہمارا ٹھکانہ کیف، یوکرین تھا۔ سحر خوبصورت تھی اور عجیب بھی۔ کبھی لگتا وہ اپنے منگیتر سے بیزار ہے اور کبھی واری بلہاری جاتی رہتی۔ وہ پاکستان کے کسی آخری کامریڈ گھرانے کی لڑکی تھی۔ ماسکو نے ایسے کئی گھرانوں کے نوجوانوں کو مفت تعلیم رہائش سکالرشپ پر بلایا ہوا تھا۔ جیب خرچ بھی ملتا تھا۔ رات کو محفل ہوئی جہاں ایک پاکستانی لڑکی واڈکا اور سگریٹ پی رہی تھی۔

”کیوں گھور رہے ہو مجھے۔ وہی پاکستانی سوچ۔ باہر نکل آؤ۔ اب۔“ وہ بلا شبہ زچ ہو چکی تھی۔
”جی۔“ میں کھسیانا سا ہو گیا۔ اصل میں میں اسے اور اس کے انداز کو دیکھ رہا تھا۔

خود اعتمادی کے ساتھ اتنے لڑکوں میں بیٹھنا، میز سے واڈکا کا گلاس اٹھانا، ایک ادا سے اسے پینا، سگریٹ سلگانا اور پھر کش لینا، سب کے ساتھ ایک خوشگوار خمار میں گفتگو کرنا اور کسی بھی موضوع پر بغیر کسی جھجک کے حصہ لینا یہ سب کمال تھا۔ خاص طور سے میرے جیسے عام سے خاندان کے لڑکے کے لئے جہاں عورتیں اور مرد اکٹھے بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ دو دن میں ہم ذرا کھل گئے۔

”کامل عورت، ترقی پسند عورت، مطلب ہتھ چھٹ عورت۔“ وہ ہنسنے لگی۔ میں بھی ساتھ میں بلاوجہ ہنسنے لگا۔
” تو تمھارے لئے جو عورت شراب پئے، سگریٹ پئے، مردوں میں ساتھ بیٹھے وہ کامل ہے، ترقی پسند، سرخی۔“
” جی ایسی کوئی بات نہیں۔“
”تو پھر کیا بات ہے۔“
”کوئی بات نہیں۔ “
”ابھی نئے آئے ہو نا اسی لئے منہ کھلا ہے زبان باہر لٹک رہی ہے۔“

”جی ایسا ہی ہے۔ آپ اپنی زندگی میں اتنی خود اعتماد ہیں تو یہ قابل ستائش ہے۔ پاکستان میں کہاں لڑکیوں کو اتنی خوداعتمادی سکھائی بتلائی جاتی ہے۔ خود سے سیکھ لیں تو سیکھ لیں نہیں تو ہر جگہ ملک کے ہونہار معمار ان کی ذات کو مسمار کرنے میں جٹے ہیں۔ “

ماسکو کی ہوا مزید خنک ہو رہی تھی۔

میٹرو میں ہر کسی کے ہاتھ میں کتاب تھی۔ سوائے میرے اور احمد کے۔ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے بانیوں میں سے ایک کا لڑکا احمد جو اپنی پہچان بنانے ماسکو آیا تھا۔ انقلاب چوک کے سٹیشن سے باہر نکلے تو ہجوم ملا۔ شاید کوئی احتجاج تھا جلوس تھا۔ سویت یونین ٹوٹ رہا تھا اور لوگوں کا حوصلہ بھی۔ کریملن کے سائے تلے کچھ آپس میں لڑ پڑے۔ گھونسے، دھکے، مکے، منہ سے خون یہ سب دیکھنا اچھا تجربہ نہیں تھا۔ جمال نے حوصلہ دیا کہ کیف ایسا نہیں ہے۔ ڈرتے قدموں کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے جمال کی بات مان لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

کارل مارکس، فریڈرک اینگلز جیسے بزرگوں کی رہنمائی اور ایک عملی اشتراکی ریاست دیکھنے کا جنون مجھے سویت روس لا چکا تھا جہاں ایک ڈوبتے نظام کے سائے میں سامراج اور استحصال کے جشن کا آغاز ہونے کو تھا۔ دنیا ویرانی کے سازندوں کی سجائی ہوئی جبر، جنونیت، اور جنس کی دہکتی دھنوں پر تھرکنے کے لئے تیار تھی۔ اور میں قہر کے اس ٹانڈو کا شو بننے والا تھا۔

شام ہو چکی تھی۔ روم کا سرمئی آسمان بادلوں کی گہما گہمی سے آراستہ ہو رہا تھا۔ میں شہر کے مرکزی ریلوے سٹیشن ترمینی کے عقبی دروازے سے باہر نکلا اور روم کے مشہور کو لو سی ایم کی طرف پیدل ہی چل پڑا۔ ابھی ایمانوایلا کی گاڑی سٹیشن سے باہر نہیں نکلی تھی۔ وہ میلان جا رہی تھی۔ ہمیشہ کے لئے۔ اس نے کہا میں بھی ساتھ چلوں۔ روزگار ہو گا گھر بھی، واسطے دیے کبھی پیار کے کبھی روٹھ کے۔ میں نے بے رخی سے انکار کر دیا۔ ایما کی آنکھیں نم ہوئیں۔

روتی ہوئی عورت دیکھ کر میرا کلیجہ ایک روایتی مرد کی فتح کے احساس سے نہال ہو گیا۔ کولوسی ایم سے کچھ پہلے کی پرانی گلیاں یک دم اندھیری اور سونی ہو جاتی ہیں۔ قدیم رومن محلہ کے آنے تک ندامت کا ناتواں بت انا کے خدا کی بیعت کرچکا تھا۔ میں جیسے ہی پرانے کھنڈرات کی طرف مڑا تو بوندا باندی شروع ہو گئی۔ سامنے سے بروٹس میری طرف آ رہا تھا۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتا میں ہی بول پڑا۔

” ہاں میں بھی بروٹس۔ میں بھی۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments