آخر امریکہ اور مغربی دنیا پاکستان سے کیا چاہتے ہیں؟


امریکہ بہادر کی افغانستان سے پسپائی، دنیا میں اس کی جگ ہنسائی، چین سے جاری رسہ کشی اور وہاں اندرون ملک سیاست میں بھونچال آنے کے بعد ، اب وہ ایسی راہیں تلاش کرنے کا متلاشی ہے جس سے عالمی سطح پر اس ساکھ دوبارہ بحال ہو سکے۔ اس کے اتحادیوں کے درمیان اعتماد بڑھے۔ تیسری دنیا کے ممالک کا چین کی جانب بڑھتا جھکاؤ کم ہو اور ان میں توازن ہو۔ امریکہ اور مغربی دنیا میں بگڑتی معاشی صورتحال کو سنبھالا دینے کے لیے نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کی جائے۔ مغربی جمہوری روایات اور کلچر کی بالا دستی کو یقینی بنایا جا سکے۔

اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے یا اپنی دھاک بٹھانے کے لیے، کیا امریکہ اور اس کے اتحادی کسی نئی جنگ کا خطرہ مول لے سکتے ہیں تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ افغانستان میں عالمی طاقتوں کو جتنی کٹ چڑھی ہے اس کے بعد کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ کسی ایسی لاحاصل جنگ میں الجھ کر اپنے وسائل جھونکے جائیں جہاں لینے کے دینے پڑ جائیں۔ دوسرا یہ کہ نئی جنگیں اس لیے چھیڑی جاتی ہیں کہ جس سے دور رس نتائج حاصل ہوں اور دشمن کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکے۔ موجودہ حالات میں کوئی ایسا خطہ باقی نہیں بچا جہاں پہلے طبع آزمائی نہ کی جا چکی ہو اور وہاں سے منہ کی نہ کھانی پڑی ہو۔ صرف ایک اور عالمی جنگ کا میدان سجانے کا آپشن باقی بچا ہے جس کا سوچ کر ہی سب کانپ جاتے ہیں۔

اس وقت عالمی طاقتوں کی دوڑ بس ایک ہی ہے کہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ منڈیوں تک موثر رسائی حاصل کی جائے باقی سب باتیں ضمنی ہیں۔ معاشی استحکام، راہداریوں پر کنٹرول حاصل کرنا اور اپنا مال بیچنا، یہی بڑی طاقتوں کا مطلوب و مقصود رہا ہے اور اب بھی یہی ان کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ جمہوری روایات اور کلچر کا فروغ، انسانی حقوق کا واویلا، یہ محض دوسروں پر دباؤ بڑھانے کا ذریعہ ہیں۔ ان میں اخلاص کم ہی نظر آتا ہے اور نہ ان پر کسی قسم کے عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے تاوقتیکہ بنیادی اہداف حاصل ہو رہے ہوں۔

پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد ، دنیا کی اکثریت مغربی بلاک سے نالاں ہیں۔ شاید اسی لیے جب بھی کسی نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو للکارا تو ہر طرف خوشی کے شادیانے بجنے لگتے ہیں۔ امید کا ایک چراغ روشن ہوجاتا ہے۔ چاہے وہ کمیونسٹ روس کی شکل میں امریکہ کا کوئی حریف ہو یا سوشلسٹ چائنہ کی شکل میں ابھرتی نئی طاقت۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بظاہر چین اور روس ایک نظر آتے ہیں، جس کا مطلب آدھی دنیا سے زیادہ لوگوں کے وسائل اور انسانی آبادیاں، مغربی بلاک کی دسترس سے پہلے ہی باہر ہیں۔ روس سے یہاں مراد، اس کے زیر اثر ممالک بھی شامل ہیں۔ باقی سوال رہ جاتا ہے، افریقہ، انڈیا، مسلم دنیا کے کچھ طاقتور ملک اور لاطینی امریکہ کے غریب ممالک۔

ایشیاء میں جو بڑی اور ابھرتی معاشی طاقتیں ہیں، وہ امریکہ اور یورپ کو اپنا مال بیچنے کے لیے ایک منڈی سمجھتے ہیں نہ کہ وہ ان کے سامان کے خریدار۔ جن میں سر فہرست جاپان اور شمالی کوریا ہیں۔ لے دے کے، مغربی ممالک کے پاس ایشیاء میں انڈیا ہی وہ واحد مارکیٹ بچ جاتی ہے جہاں وہ اپنا ساز و سامان بیچ سکتے ہیں، یہی بھارت کی واحد خوبی اور طاقت ہے جس کے ذریعے وہ مغربی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے دانہ ڈال رہا ہے۔ افریقی اور لا طینی اقوام اتنے غریب ہیں کہ بازار سے انہیں جہاں سے سستا سامان ملے گا وہ وہیں سے خریدیں گے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت سستا مال کہاں سے مل سکتا ہے بھلے وہ پائیدار نہ ہو۔

اب بچ بچا کر ، امریکہ اور اس کے مغربی بلاک کے پاس واحد بڑی منڈی رہ جاتی ہے جو ایشیاء اور افریقہ دونوں براعظموں تک ان کی رسائی ممکن بنا سکتی ہے اور جہاں اب بھی کچھ سونے کی کانیں عالمی استعمار کی لوٹ مار سے محفوظ رہ گئیں ہیں جو اب بھی ان کی آنکھیں خیرہ کر رہی ہیں، وہ ہیں پچاس سے زیادہ اسلامی ممالک کے وسائل اور ان کی لگ بھگ دو ارب کی آبادیاں جو اچھے خریدار بننے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی مغرب کو ایک مسئلہ درپیش ہے اور وہ ہے ان پر مسلم ممالک کی عوام کے اعتماد کا فقدان اور پچھلی دو صدیوں سے مغربی دنیا کا مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں کی سیاہ تاریخ۔ بالخصوص، امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ، جس نے مسلمانوں کی نئی نسل کے اندراس کے خلاف زہر بھر دی ہے۔

امریکہ اور اس کے حواری اب اپنی غلطیوں او ر مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے ابھی تک مسلمانوں سے باقاعدہ معافی نہیں مانگی لیکن انفرادی طور پر اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی دنیا مسلمانوں کے لیے اپنے دروازے کھول رہی ہے اور انہیں جیسے ہیں، جہاں ہیں کی بنیاد پر گلے لگانے کو تیار بیٹھی ہے۔ جس کی واضح مثال نیوزی لینڈ کی موجودہ وزیر اعظم کا اپنے سر پر دوپٹہ اوڑھ کر مظلوم مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار، کسی مسلمان کا لندن جیسے شہر کا مئیر بننا اور اس کے علاوہ امریکہ کے مختلف صدور کا ابراہیمی مذاہب کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو اپنائیت کا احساس دلانا۔

اسلامی دنیا اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات استوار کرنے کے درمیان کچھ بڑی رکاوٹیں حائل ہیں جن کے پائیدار حل کے بغیر شاید آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ ان میں سر فہرست فلسطین کا مسئلہ، جموں وکشمیر کا تنازعہ، مسلمانوں کے درمیان موجود انتہا پسند گروہوں کی موجودگی، جن کے پاس کوئی واضح نصب العین اور مستقل کا لائحہ عمل نہیں، مسلمان ممالک کے درمیان جاری اندورنی کشمکش اور مسلمان ممالک کی سرزمین پر موجود غیر ملکی فوجیں جس سے جہادی عناصر کو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے میں مدد مل رہی ہے۔ اگر عالمی منظر پر نظر دوڑائیں تو مغربی سورما، صلیبی خواب میں دفن کیے واپس اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔

امریکہ، عراق اور افغانستان سے اپنی فوجیں پہلے ہی نکال چکا ہے، اب خبر گرم ہے کہ جلد ہی شام سے بھی ان کی واپسی شروع ہو جائے گی۔ واشنگٹن کی غلام گردشوں میں کی جانے والی چہ مگوئیوں سے ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اپنی تمام تر توجہ چین پر مرکوز کرنا چاہتا ہے۔ وہ مسلم دنیا سے اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں۔ مغربی دنیا نے پچھلی ایک صدی سے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا شاید وہ اب پچھتا رہے ہیں۔ یہ خوش گمانی سہی لیکن ہم دیکھیں گے کہ جلد ہی مغربی دنیا بالخصوص امریکہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے کی جانے والی زیادتیوں پر معافی مانگے گا۔ انہیں راضی کرنے کے لیے طرح طرح کی پیش کش کی جائے گی۔

لیکن جب تک فلسطین کے مسئلے کا کوئی پائیدار حل تلاش نہیں کیا جاتا اس تک وقت مسلمان مغربی دنیا سے راضی نہیں ہوں گے۔ آج امت مسلمہ میں سلگتی ہر چنگاری کے پیچھے مغرب کے ناعاقبت اندیش پالیسی سازوں کا ہاتھ ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن، اقوام متحدہ میں اپنی حالیہ تقریر کے دوران اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ فلسطین کے مسئلے کا حل دو ریاستی منصوبہ ہے امریکی صدر کی عالمی فورم پر تقریر میں فلسطین کے مسئلے پر کھل کر بات کرنا، اس بات کا عندیہ ہے کہ امریکہ پہلے عراق پھر افغانستان اور شام سے نکلنے کے بعد اب فلسطین کے مسئلے کا کوئی منصوبہ پیش کرنے والا ہے۔

امریکہ کی موجودہ حکومت فلسطین کے مسئلے پر کون سا نیا حل پیش کرنے والی ہے، یہ تو خدا بہتر جانتا ہے لیکن اس کے کچھ واضح اشارے ہمیں سابقہ امریکی پالیسیوں سے مل سکتے ہیں۔ جن میں سب سے اوپر ابرام آکارڈز کا منصوبہ ہے جو صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں سامنے آیا۔ اس سے پہلے صدر اوباما نے بھی قاہرہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے، مسلمانوں کو ابراہیمی مذاہب کا اہم حصہ کہا۔ انہوں نے یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ابراہیمی مذاہب کا ایک تعلق جوڑنے کی کوشش کی۔ اسی طرح صدر ٹرمپ نے بھی اپنا پہلا بیرون ملک دورہ سعودی عرب میں رکھا جہاں ریاض میں مسلمان رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے ان کو اپنا بنانے اور رام کرنے کی کوشش کی گئی اور انہیں یاد دلایا کہ وہ سب ابراہیمی مذاہب کی چھتر چھاؤں تلے ایک ہیں۔

مسلم ممالک سے بات کرتے ہوئے، امریکہ کے سابقہ سیکرٹری سٹیٹ مائیک پومپیو کا تو یہ مستقل طور پر مانترہ رہا۔ وہ اکثر مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کو ابراہیمی مذاہب کے تعلق سے دیکھتے تھے اور اس کا بار ہا ذکر بھی کرچکے۔ معلوم نہیں کہ موجودہ امریکی انتظامیہ مذہب کو عالمی سیاست میں کیسے استعمال کرتی ہے اگرچہ مذہب کا نام استعمال کر کے امریکہ سابقہ سرد جنگ جیت چکا ہے۔ اب آگے کیا ہو گا، یہ دیکھنا ہو گا۔ بظاہر بھارت اور اسرائیل کی لابیز مسلمانوں اور مغربی ممالک کے درمیان بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ماضی میں امریکہ اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے کئی مسلم ممالک پر دباؤ ڈال چکا ہے اور اس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آئے اور وہ اب بھی ایسا ہی کرنے والا ہے۔ جس کی راہ میں اسے سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان نظر آ رہا ہے۔

بادی النظر میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کو مسلم دنیا میں کسی ایسے ملک کی تلاش ہے جو تمام مسلم ممالک کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہو، سب کے لیے قابل قبول ہو، عسکری لحاظ سے مضبوط ہو، آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، مسلمان ممالک کے درمیان کسی باہمی تنازعے کا فریق نہ ہو، وقت آنے پر ان سے بات چیت کر سکے، اس کی سماجی ساخت اور زاویے لبرل ہوں، اس کا جغرافیہ اہم ہو، وہاں جمہوری اقدار کی جان پہچان اور قدر کی جائے ہو۔ ان تمام پیرا میٹرز پر غور کریں تو دو ہمیں دو مسلم ممالک ایسے نظر آتے ہیں جن میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو امت مسلمہ کی (مغربی نقطہ نظر سے ) قیادت کر سکیں۔ وہ ہیں، پاکستان اور ترکی۔

سعودی عرب اور ایران بھی اہم اسلامی ممالک ہیں لیکن ان کے آپس کے تنازعات، انہیں دن بدن کمزور کر رہے ہیں۔ تاہم ان دونوں برادر اسلامی ممالک کی مذہبی حوالے سے اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ ترکی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا ماضی، حتی کہ حال میں بھی ایران اور سعودیہ دونوں سے مفادات کا ٹکراؤ جاری ہے۔ اسلامی دنیا میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو اس صورتحال میں تمام اسلامی ممالک کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر سکتا ہے اور انہیں کسی عالمی تنازعے کی صورت میں ایک جانب جھکاؤ سے بچا کر متوازن پالیسی پر گامزن رکھ سکتا ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا، پاکستان سے یہی توقع کر رہے ہیں کہ وہ اسلامی ممالک کو علامی سیاست میں توازن کے راستے پر چلنے میں ان کی مدد کرے۔ خاص طور پر انہیں ان کے مخالف کیمپ میں جانے سے روکے۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ مسلم ممالک کی منڈیوں تک کم از کم تمام عالمی ٹھیکیداروں کو رسائی حاصل ہو۔

پاکستان کے لیے جہاں یہ ایک اعزاز کی بات ہو گی کہ وہ چین، امریکہ، مغربی دنیا اور مسلم ممالک کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرے، دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان تعلقات کا توازن بر قرار رکھے وہیں یہ اس کے لیے پل صراط پر چلنے کے مترادف ایک امتحان بھی ہو گا۔ ہر طرف سے توقعات، ہر طرف سے مطالبات اور کھچ کھچائی جاری رہے گی۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں کو سوچنا ہو گا کہ کیا وہ امت کی قیادت کا سہرا اپنے سر سجانے کے لیے تیار ہیں یا پھر وہ بھی ماضی کی طرح کسی ایک بلاک کا حصہ بن کر ملک میں پہلے سے جاری اندرونی اور بیرونی خلفشار کو بڑھاوا دیں گے۔ اس سے پہلے کہ ہم کچھ سوچیں، آگے بڑھیں، اپنی پالیسی واضح کریں، ہمیں کچھ سوالوں پر غور کرنا ہو گا۔

وہ یہ کہ، کیا ہم کشمیر پر اپنے موقف سے پیچھے ہٹ پائیں گے، اگر ہاں تو کیسے اور کہاں تک۔ اگر ہمارے سامنے ابراہم آکارڈز جیسا کوئی منصوبہ پیش کیا جاتا ہے تو کیا ہم بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے، اگر ہاں تو کن شرائط پر اور نہیں ہمیں اس کی قیمت کیا چکانی پڑے گی۔ مغربی دنیا سے تعلقات میں تجدید نو کی صورت، چین اور روس سے ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا رہے گی۔ کیا امت کے اندر جاری مذہبی اور فرقہ وارانہ تنازعات کو کم یا ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے اندر بے لگام گھوڑوں اور بے قابو تشدد پسند گروہوں کو کیسے نکیل ڈالی جائے گی۔ جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام جیسے جمہوری اور مذہبی سیاسی طاقتوں اور دیگر پریشر گروپس کو کس حد تک شریک اقتدار کیا جائے گا۔

یہ سب وہ چبھتے سوالات ہیں جن کا جواب ہمیں ڈھونڈنا ہو گا۔ اپنے فیصلوں میں عوامی حلقوں کی رائے شامل کرنا ہو گی۔ پھر ہم امریکہ یا چین کسی کے ساتھ بھی بیٹھ کر ، اپنا سینہ چوڑا کر کے اور اطمینان کے ساتھ بات کر سکتے ہیں، انہیں اپنا موقف سمجھا سکتے ہیں اور ان سے اپنے مطالبات منوا سکتے ہیں۔ باقی رہا سوال، یہ سینٹ کے بلز، پاکستان کے کردار پر انگلیاں اٹھانا اور اس کے خلاف ہرزہ سرائی یہ سب ہوائی باتیں ہیں۔ پاکستان کو دباؤ میں لانے کے حربے ہیں اور کچھ بھی نہیں۔

پاکستان کے نیوکلیر پروگرام کو انشاءاللہ کوئی خطرہ نہیں، نہ ہی اس کی سرحدوں کی سالمیت کو کسی میں چھیڑنے کی ہمت ہے۔ بس ایک معاشی دباؤ ہے جو ہمیں اندر سے کمزور کر سکتا ہے جس کا ہمیں مقابلہ کرنا ہو گا۔ اس کا بھی بہترین حل یہ ہے ہم ملک میں اشرفیہ کی بڑھتی ہوس کی بھوک کو لگام دیں۔ عوام کا نظام سے رشتہ جوڑیں اور اعتماد بحال کریں۔ پھر وہ بھوک بھی سہ لیں گے، گھاس پر بھی گزرا کر لیں گے۔ مگر انہیں سچی امید دلائی جائے۔

جج سے جنرل تک، چیئرمین سے چپڑاسی تک، دکاندار سے ٹھیکیدار تک، سب کا احتساب ہو۔ یہاں ائرپورٹ سے باہر جانے کی اسی کو اجازت ہو جو احتساب کی بھٹی سے گزر کر نکلے اور اپنا حساب کتاب کلیئر کر کے جہاں مرضی جائے۔ شرط یہ ہے کہ یہاں سب کا احتساب ہوتا، سب کو نظر آنا چاہیے، اب کی بار صاف اور شفاف احتساب فقط پاکستان کے لیے ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments