گوادر کی ترقی؟


ایک شخص ایوان میں کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ گوادر ترقی کر رہا ہے، گوادر کے ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل کر بتاتے ہیں کہ ترقی دور کی بات ہماری روزانہ کی بنیاد پر ذلیل کی جاتی ہے۔

گوادر سے متعلق جو لوگ ترقی کی بات کرتے ہیں دراصل ان کی اپنی ترقی ہوئی ہے، ان کے دن پھر گئے ہیں، وہ بونے تھے گوادر کے نام پر قد اور ہو گئے ہیں، جو کونسلر نہ بن سکتے تھے وہ اپنی ”مخصوص صلاحیتوں“ کے بل بوتے پر ایوانوں کی زینت بن گئے ہیں۔ جو ٹیلے تھے پہاڑ بن گئے، جو سڑک چھاپ تھے معزز بن گئے۔

گوادر کا مچھیرا پہلے صبح سمندر جاکر شام کو اپنے بچوں کی رزق تلاش کر لیتا تھا، یہ رزق اب ٹرالرز کے وزن میں دب گیا ہے، گوادر کی زمینیں مقامی لوگوں سے ہتھیا لی گئی ہیں، گوادر میں پینے کے پانی کے لیے اب بھی نماز استسقاء ( بارش کی دعا) پر انحصار ہے۔ گوادر کے مضافات میں رہنے والے روزانہ شہر آتے جاتے چیک پوسٹوں پر کھڑی فورسز کو اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، بعض جگہ ان چیک پوسٹوں کا فاصلہ اتنا ہے جتنا دائیں اور بائیں آنکھ کا ہے۔ ان چیک پوسٹوں پر گوادر سمیت پورے مکران کے لوگ تذلیل بھرے جملوں سے نوازے جاتے ہیں۔

”سیدھا کھڑے رہیں، لائن میں لگیں، گاڑی آگے کیوں لائے، نیچے اتر جائیں، ڈگی چیک کرا دیں“ کیا کام کرتے ہو، انٹری کرا دیں، کہاں سے آرہے کہاں جا رہے ہو، اندھے ہو گئے ہو اس طرف سے آنا تھا اس طرف کیسے آ گئے ”، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے سلوک اور ان الفاظ کی چبھن وہی محسوس کر سکتا ہے جن پر گزر رہا ہے۔ اور یہ دنوں کے حساب سے نہیں گھنٹوں کے حساب سے ہونے والا سلوک ہے۔

گزشتہ دنوں تربت میں مبینہ طور پر ایک چیک پوسٹ نے براہ راست ایک گاڑی پر فائرنگ کی، لکڑیاں چننے جنگل جانے والی فیملی میں سے تاج بی بی نامی خاتون کو گولی لگی جو وہیں شہید ہوئیں اور ایف آئی آر نامعلوم کے نام کاٹ دی گئی، پوسٹ اہلکاروں کو بری الزمہ قرار دیا جا رہا ہے، تربت میں مظاہرہ ہوا سیاسی پارٹیاں ایف آئی آر مسترد کر چکی ہیں، مگر سنتا کون ہے۔

گوادر کی ترقی کے راگ الاپنے والوں کی زبان پر تالے پڑے ہیں، یا چھالے پڑے ہیں، جو وہ ایوانوں میں اس پر نہیں بولتے ہیں۔

پورا بلوچستان اذیت اور کرب کی زندگی گزار رہا ہے، پانی اپنی جگہ، بجلی اپنی جگہ، سڑکیں، تعلیم، ہسپتال وہ سب رہنے دیں یہاں کے رہنے والوں سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے، یہاں لوگوں کی عزت نفس کو روزانہ کوڑے مارے جاتے ہیں، ایک مفتوح کا سلوک روا رکھا گیا ہے، یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ مین اسٹریم میڈیا پر بالکل نہیں آتا ہے، مین اسٹریم میڈیا میں مرغوں کی لڑائی خبر بن جاتی ہے مگر بلوچستان میں گرتا خون خبر نہیں بنتا ہے۔

پاکستان کا اہل دانش ستو پی کر سو رہا ہے، وہ بلوچستان کو غدار سمجھ کر تبصرے کرتا ہے، وہ عام آدمی کی زندگی کی اذیتوں کے ادراک سے بے بہرہ ہے مگر یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ بن رہا ہے، بلوچستان جو کچھ سہ رہا ہے وہ تنہا سہ رہا ہے، وہ ملک کے اہل دانش سے مایوس ہے، کہیں سے خیر خیریت معلوم کرنے کے دو جملے بھی موصول نہیں ہوتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ بلوچستان سے ہی کوئی اٹھ کر ایوانوں میں گوادر کی ترقی کی بات کرے، تو کیا تاریخ ان لوگوں کو نہیں دیکھ رہی ہے؟ کیا یہ لوگ تاریخ کو نہیں بھگتیں گے؟

بلوچستان کی سیاست میں مداخلت اس قدر کہ اسمبلی اکثریت کٹھ پتلیوں کی ہے، یہ مہرے ہیں، ان کی زبان طوطے کی ہے، رٹی ہوئی بولتے ہیں، لکھی ہوئی پڑھتے ہیں، انہیں عوام اور عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے انہیں معلوم ہے کہ اگلی باری پھر ان کی ہوگی، کیا گوادر کیا مکران کیا بلوچستان۔ ان کی اپنی ترقی تو ہو رہی ہے اور سدا بہار ہو رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments