ہمارا معاشرہ بستر مرگ پر ہے


دنیا کی کسی بھی سچی عدالت نے جذبات، غصہ اور تعصب پر مبنی کبھی فیصلہ نہیں سنایا ہے۔ عدالت میں ایک ہی ہتھیار کام آتا ہے وہ ہے دلیل۔ دلیل ثبوت کی علامت ہے۔ ثبوت نہیں تو دلیل پیدا نہیں ہو سکتی۔ دلیل جتنی جاندار ہوگی کیس اتنا مضبوط ہوتا ہے۔ چنانچہ انصاف کی بنیاد دلیل ہے۔ دلیل حق اور سچ کو ظاہر کرتی ہے۔ دلیل کے لئے علم کا ہونا ضروری ہے اور علم کے لئے تحقیق اور تحقیق کے لئے جستجو کے ساتھ ذہن کا تمام تر تعصبات اور خرافات سے پاک ہونا لازمی ہے۔ دلیل پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد پسندی سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ اہل علم کی اہم اور بنیادی خصوصیت دلیل ہوتی ہے۔ وہ بات کو دلیل کا طاقتور جامہ پہناتے اور اس کو منواتے ہیں۔ بات اور تحریر میں جتنی مضبوط دلیل ہوگی وہ اتنی ہی شدت سے اثرانداز ہو گی۔

انسان بنیادی طور پر ایک سماجی و سیاسی جانور ہے۔ یہ جانور بھی ابتداء میں صدیوں تک دیگر جانوروں کی طرح وحشی پن کی خصوصیات رکھتا تھا۔ حیوان ناطق ہونے کی وجہ سے یہ بول اور سوچ تو سکتا تھا مگر ان دونوں خصوصیات کا استعمال کم کرتا تھا۔ اس لئے انسان کی ابتدائی نسلیں غیر مہذب اور وحشی تھیں۔ وقت کے ساتھ انسانی شعور، عقل اور علم میں جب اضافہ ہوا تو انسان نے لڑائی جھگڑے کی بجائے بات چیت سے ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش شروع کی۔ بات چیت کے نتیجے میں نظم و ضبط پر مبنی معاشرے وجود میں آنے لگے۔ تہذیبیں پنپنے لگیں اور ادارے قائم ہو گئے۔ درس و تدریس کے باضابطہ مراکز قائم ہوئے۔ تمام تر گفتگو، تقاریر اور بات چیت کی بنیاد دلیل ٹھہری۔

یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ دلیل کی بنیاد پر انسانوں نے مل جل کر رہنے کے اسباب پیدا کیے ۔ مل جل کر رہنے اور مشترکہ مسائل کے حل اور معاشرتی زندگی کو پرامن اور خوشگوار بنانے سمیت بہترین انسانی اقدار کے فروغ کے لئے انسانوں نے منظم معاشروں کی بنیاد رکھی جس کو مملکت یا ریاست کہا جانے لگا۔ جہاں پر جرائم اور غیر انسانی رویوں پر قابو پانے کے لئے انصاف کا ایک باضابطہ نظام قائم کیا گیا۔ انصاف کا وہ نظام دلیل کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا۔

جہاں دلیل نہیں وہاں انصاف نہیں ہو سکتا ۔ جہاں دلیل نہیں وہاں وحشت اور بربریت ہوتی ہے۔ معاشرے کے مسائل کے حل کا واحد ذریعہ دلیل ہے۔ دلیل پر قائم نظام انصاف مہذب معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے۔ نظام انصاف صرف عدالتوں کا نام نہیں ہے۔ جب تک درس و تدریس اور تعلیم و تربیت پر مبنی ایک مربوط نظام معاشرے کے ہر فرد کو انصاف پسند بنانے کی تگ و دو نہیں کرتا ہے تب تک معاشرے کا ہر فرد انصاف پسند نہیں ہوتا ہے اور جب تک معاشرہ مجموعی طور پر انصاف پر یقین نہیں رکھتا ہے تب تک معاشرے میں انصاف کا بول بالا نہیں ہو سکتا ۔

عقائد، نظریات اور تمام تر اختلافات کے باوجود پرامن بقائے باہمی اور فعال انسانی معاشرے کے قیام کے لئے دلیل سے بڑھ کر کوئی ہتھیار نہیں ہو سکتا ۔ جنگوں کی تباہی کے بعد ٹیبل پر بیٹھ کر بات چیت کی جائے تو وہاں دلیل کام آتی ہے۔ بیمار ذہن دلیل قبول نہیں کرتا جبکہ صحت مند ذہن دلیل سے ہٹتا نہیں ہے۔ جس طرح بیمار ذہن دلیل قبول نہیں کرتا اسی طرح بیمار معاشرے بھی دلیل قبول نہیں کرتے ہیں۔ معاشرہ بیمار ہو جائے تو وہ دلیل کی بجائے زور زبردستی، تشدد اور بے جا طاقت پر بھروسا کرتا ہے۔

ایسے معاشرے دلیل سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ دلیل سے خوف زدہ معاشرہ پرتشدد ہوتا ہے۔ پرتشدد معاشرہ خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ دلیل درمیان سے ہٹائی جائے تو بات چیت، گفتگو، مکالمہ، تحریر اور تقاریر میں گالم گلوچ اور دشنام طرازی در آتی ہے۔ چونکہ دلیل کی بنیاد علم اور تحقیق ہوتی ہے جس کے لئے ذہنی مشقت درکار ہوتی ہے جبکہ بیمار معاشرے ذہنی مشقت کے لئے تیار نہیں ہوتے اس لئے وہ تشدد پسند ہو جاتے ہیں۔ وہ معاشرے کا علاج بھی تشدد میں ڈھونڈتے ہیں۔

وہ علم، تحقیق اور دلیل کی بنیاد پر مسائل کا حل ڈھونڈنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ایسے معاشروں کو دلیل پر یقین رکھنے کی ڈگر پر ڈالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ ایک بیمار معاشرے کے علاج کے لئے درس و تدریس اور نصاب کو انسان دوستی اور احترام آدمیت کے اعلی معیارات پر مبنی بنانا لازمی ہے۔ بیمار معاشرے میں مذہبی، لسانی، علاقائی، جنسی اور دیگر تفرقات کی بجائے انسانی اقدار کی تعلیم دے کر اس کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔

تعلیم کا بنیادی مقصد سوال، جستجو، تحقیق، تقابلی جائزہ اور کھوج لگانا نہ ہو تو وہ تعلیم بے کار ہے۔ تنقیدی گفتگو، تقریر اور تحریر کی آزادی دیے بغیر دلیل کی روایت قائم نہیں کی جا سکتی۔ تحریر اور گفتگو کا جواب گولی اور بندوق کی بجائے دلیل پر مبنی تحریر اور تقریر میں دینے کی روایت قائم کیے بغیر معاشرے کو انصاف پسند نہیں بنایا جاسکتا۔ جب تک معاشرہ دلیل کی طاقت پر بھروسا نہیں کرتا تب تک بیمار ہی رہے گا۔ ہمارا معاشرہ دلیل کی راہ سے ہٹ چکا ہے۔

دلیل کی راہ سے ہٹنے کا مطلب ہمارا معاشرہ انصاف کی راہ سے ہٹ چکا ہے۔ ہمارا معاشرہ ڈی ٹریک ہو چکا ہے۔ ہمارا معاشرہ تشدد کا قائل بن چکا ہے۔ ہمارے معاشرے کا خیال ہے کہ بات چیت اور دلیل پر بھروسا کرنا ناجائز عمل ہے۔ ہمارے معاشرے کی فرسودہ سوچ یہ ہے کہ مار دھاڑ، سخت سزائیں، تشدد، گالم گلوچ، زور زبردستی، بولنے اور لکھنے والے کو خاموشی کرانا ہی مسائل کا اصل حل ہے۔ ہمارا معاشرہ دلیل کے جواب میں گالی دینا پسند کرتا ہے۔

ہر عقل کی بات ہمارے معاشرے کو ناگوار گزرتی ہے۔ معاشرہ نئی بات سن کر ایک دم سیخ پا ہوجاتا ہے۔ تشدد ہمارے معاشرے کا اجتماعی اور پسندیدہ رویہ بن چکا ہے۔ معاشرہ یہ بھول چکا ہے کہ ہر قسم اور ہر نوعیت کی تشدد پسندی انصاف کا قتل کرتی ہے جبکہ گفتگو، دلیل اور علم پر بھروسا انصاف کا بول بالا کرتا ہے۔ انصاف انسان کی مہذب اور پرامن معاشرتی زندگی کی بنیاد ہے اور انصاف کی موت دراصل معاشرے کی موت ہے۔ ہمارا معاشرہ بستر مرگ پر ہے اور تڑپ تڑپ کر علاج کے لئے چیخ و پکار کر رہا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments