”اے عورت، خدا ناراض ہے تم سے“


میشی ایک فرمانبردار اور مشرقی آئیڈیل خاتون کی تعریف میں قدرے فٹ آنے والی عورت زرد چہرہ لیے ایک ’روحانی‘ شخصیت کے قریب بیٹھی تھی۔ سوال سامنے رکھ چکی تھی۔ اس کے کان احساس بھرے الفاظ سننے کو ترس رہے تھے۔ ’روحانی باجی‘ کے جوابی الفاظ جب اس کے ترستے کانوں سے ٹکرائے تو وہ بے یقینی کی کیفیت میں جانے لگی۔ اس کو اپنی اٹھائیس سالہ دوسروں کی خدمت میں گزاری ہوئی زندگی بے سود لگنے لگی۔ اپنے شوہر کے گرے ہوئے کردار سے پریشان میشی نے روحانی باجی سے پوچھا کہ جب نیک لوگوں کو نیک ہم سفر کا وعدہ تھا تو میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟

روحانی باجی نے چہرے پر مکمل یقین سجائے اس کے ہاتھوں پر لگی گلابی نیل پالش اور اس کی تراشی ہوئی بھنوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”ایسے حدود کو پامال کرنے والی عورت سے خدا ناراض نہ ہو تو کیا ہو!“

میشی کا ذہن شعور اور لاشعور میں ڈول رہا تھا۔ اس کو ہر ہر قربانی یاد آئی جو اس نے کبھی بھائیوں، ماں باپ، اپنے شوہر اور بچوں کے لئے ہمیشہ مسکرا مسکرا کر دی تھی۔ سجدے بھی خشوع و خضوع سے کیے تھے اور اپنے محدود وسائل میں سے اوروں کی مدد بھی کی تھی۔ ”کیا مجھے نیل پالش لگانے کی اتنی بڑی سزا دے گا خدا؟“ میشی نے بے یقینی سے پوچھا۔

روحانی باجی نے سرد چہرے کے ساتھ اسے سمجھایا کہ جانے کس کس مرد نے تمہارے ہاتھ دیکھے ہوں گے اور تم جو اپنی نیکیاں گننے بیٹھی ہو پتا نہیں کون کون سے گناہ کی مرتکب رہی ہو گی۔ جن کا تمہیں علم ہی نہیں۔ انھی میں سے کسی گناہ کی سزا ہے۔

”نیل پالش نہیں لگاؤں گی تو شوہر بدکردار ہونے سے دور رہے گا“ ؟ میشی نے پوچھا

”مرد کی فطرت ہے۔ کیا کہا جا سکتا ہے۔ تبھی تو اسے چار بیویاں رکھنے کی بھی اجازت ہے۔ اب لونڈیوں کا زمانہ نہیں ورنہ تو وہ بھی اجازت ہے۔ جتنی چاہے رکھے“ روحانی باجی نے جواب دیا۔

”تو عورت کی فطرت میں وفا اور محبت کی خواہش ہی نہیں؟“ میشی تقریباً چلاتے ہوئے بولی
وہ میز سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے گھر کو چل دی۔

میں آج تک اپنی مرضی سے سوئی اور جاگی بھی نہیں۔ عزت غیرت کے تمام بوجھ بخوبی اٹھا کر چلتی آئی ہوں۔ میں نے اپنی ”میں“ کو مار دیا اور ”ہم“ کو خود میں بسا لیا اور اس سب کے بعد بھی اگر میں نقصان پہنچائی جاؤں تو بری میں ہی کیوں؟

”مرد ایسا ہی ہوتا ہے“ یہ کیا بکواس ہے! ؟ اس کا کوئی معیار کیوں نہیں! اس کی بدکاری بھی قابل فراموش اور میری تمام فرمانبرداریوں کے باوجود ایک نیل پالش مجھے بدکردار کر دے! یہ انصاف کا کیسا فارمولا ہے؟ اب بھی وہ شعور اور لاشعور میں ڈول رہی تھی!

وہ چلا کر روحانی باجی سے کہنا چاہتی تھی کہ ”جس انصاف کے فارمولے کی تم نے تبلیغ پکڑی ہے مجھے اس چال پر شک ہے۔ مجھے تمہارے انسان ہونے پر شک ہے!“

مگر یہ الفاظ اس کے حلق میں آنسؤوں کے ساتھ پھنسے رہ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments