استاد کا احترام ترقی کی ضمانت


استاد معاشرے کا سب سے مقدس اور قابل احترام ہستی شمار ہوتا ہے ’جو معاشرے کے نونہالوں کی گھنی دھوپ میں چھاؤں بن کر صحیح معنوں میں آبیاری کرنے کے لئے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ عالمی یوم معلم دنیا کے مختلف ممالک مختلف تاریخوں میں مناتے ہیں‘ مگر ایک بات مشترک ہے کہ اساتذہ کا دن انتہائی، خلوص، محبت، عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر اسکول و کالجوں اور جامعات میں مختلف پروگرام، خصوصی سیمینارز، کانفرنسیں، تقاریر، قیمتی تحائف اور جلسوں کے ذریعے اساتذہ کی خدمات کو سراہا جاتا ہے اور معلم کے احترام کا درس دیا جاتا ہے۔

یقیناً دنیا میں علم کی قدر اس وقت ممکن ہے جب معاشرے میں استاد کو عزت کا مقام حاصل ہو۔ اس بات کا زمانہ گواہ ہے کہ ترقی یافتہ قوموں نے ہی اس زمین پر حکمرانی کی ہے اور ان پڑھ قومیں ان کے ماتحت رہی ہیں۔ آج اگر ہم پسماندہ ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم آداب معلم بھول گئے ہیں۔ آج جن اقوام نے ترقی کی منازل طے کی ہیں اور سائنسی دنیا میں انقلاب برپا کر کے پوری دنیا بالخصوص اسلامی دنیا پر اپنی طاقت کا سکہ بٹھایا ہے ’ثقافت سے لے کر مذہب‘ گویا ہر شعبے میں ہم پر مسلط ہیں ’تو استاد کی ہی مرہون منت ہے۔

عمیق مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جو مقام استاد کو حاصل ہے ’وہ صدر مملکت کو بھی نصیب نہیں۔ مغربی ممالک میں معلم کو باقی تمام افراد پر اس قدر فضیلت حاصل ہے کہ استاد کی گواہی کو معتبر و مستند سمجھی جاتی ہے۔ جب کسی طالب علم کو نمایاں کامیابی ملتی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے استاد کو سلام پیش کرتا ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں طلبہ کامیابی کو اپنی کمال سمجھتے ہیں اور ناکامی پر استاد کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔

وہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں جگہ خالی نہ ہو تو بھی گنجائش نکالی جاتی ہے‘ جبکہ ادھر تھانے دار پر تعیش گاڑیوں میں اور معلم رکشوں میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہوتا ہے۔ وہاں ذہین و فطین انسان شعبہ معلمیت سے وابستہ ہوتا ہے اور ادھر بے روزگار اور فارغ لوگ اس شعبے سے منسلک ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔ عظیم فاتح سکندر اعظم بھی اپنے استاد ارسطو کے سامنے نظریں جھکائے کھڑا رہتا تھا۔ آج لوگ بدل گئے، زمانہ بدل گیا، رسم و رواج، طور طریقے بدل گئے۔ اب تو شاگردوں کا استاد ادب کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جرمنی میں اساتذہ کو زیادہ تنخواہیں دی جاتی ہیں ’جس پر اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران نے احتجاج کیا اور اساتذہ کے برابر تنخواہ کا مطالبہ کیا‘ جس پر جرمن چانسلر نے جواب دیا کہ میں آپ لوگوں کو ان کے برابر کیسے کروں جنہوں نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا۔

پاکستان جیسے مرعوب معاشرے میں سب سے کمزور، مجبور اور مظلوم طبقہ اساتذہ ہیں۔ قوم کے معمار کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ کہیں پر معلم کے حقوق کی بات نہیں ہوتی ہے۔ جس کی وجہ حکومتوں کا اس مقدس شعبے کی طرف خاطر خواہ توجہ نہ دینا ہے۔ دوسری جانب خود اساتذہ بھی برابر کا شریک ہیں۔ آج کل گلی کوچوں میں ٹیوشن سنٹرز اور تعلیم برائے فروخت کے رجحان نے معلم کے وقار کو یکسر کم کر دیا ہے۔ اسلام نے معلم کو جو معیار دی تھی ’جس کا وہ مستحق تھا اسے حاصل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ ایک معلم آج بھی اپنے اندر عملی کردار، اخلاص، صبر و برداشت، احساس ذمے داری، قول و فعل میں مطابقت، غصہ پر قابو جیسی اعلیٰ صفات پیدا کر کے نہ صرف ایک مثالی معلم بن سکتا ہے بلکہ اپنا کھویا ہوا وقار بھی حاصل کر سکتا ہے۔

اگر ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اساتذہ کی عزت و تکریم کا خاص خیال رکھنا ہو گا۔ ٹیچرز ڈے کی نسبت سے اساتذہ کے مسائل حل کر کے انہیں باعزت مقام دینے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے ۔ ہمارا معاشرہ معاشی عدم توازن کا شکار ہو چکا ہے اس معاشی عدم توازن کے نظام کا سدباب کر کے اساتذہ، علماء اور محققین کی آمدنی میں اضافہ کر کے ان کی معیار زندگی بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ پاکستان دنیا کی عظیم اور مہذب اقوام کی صف اول میں کھڑا ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments