نظام گِر گیا تو؟


فریب کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ خود فریبی کا شکار رہتا ہے، اپنے عکس میں ڈوب کر اپنی ہی ذات کا حصہ بنتا ہے، خود بنائی کو اصل کامیابی سمجھ لیتا ہے، یہ سمجھے بنا کہ حقیقت کہیں دور سے اس پر مسکرا رہی ہے۔

ہمارے موجودہ نظام کا معاملہ بھی یہی ہے۔ یہ نظام جس کے ساتھ ہائبرڈ کا سابقہ لگا ہے فریب اور خود فریبی کی اعلیٰ مثال ہے۔

کارسازوں نے کارخانوں میں بُت تراشے، پھر ان بُتوں میں جان ڈالی، پھر ان کو لمبی زبانیں اور چھوٹے دماغ دیے۔ الفاظ کو الزام اور سوال کو بہتان بنایا گیا، شبانہ روز محنت سے ایسے چہرے تخلیق کئے گئے کہ جن کے پیچھے کئی چہرے چھپے تھے۔

ایسا نظام بنایا گیا کہ جس کا اصل رخ سب جانتے ہیں، پہچانتے ہیں۔ مگر نظام بنانے والے خود فریبی کا شکار ہیں کہ پہچانے تو صرف پرانے ہی گئے ہیں۔

برا ہو اس بیانیے کا جو محض بیان کے لیے دیا گیا۔ بدعنوانی کے خلاف بدعنوان، بد زبانی کے خلاف بد زبان، بد گمانی کے خلاف بدگمانوں کو ہی محکمے سونپے گئے۔ ان سے پہلے والے بھی کوئی پارسا نہیں تھے مگر پارسائی کا جو ڈھونگ اب کی بار رچایا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔

ہر دور کے اعتبار سے اُس دور کے مطابق رہنما صرف راہزنوں میں ڈھونڈے جاتے رہے اور بدعنوانی کا جو عنوان ارباب اختیار لکھتے رہے، وقت کے اکثر لکھاری درباری بن کر وہی تحریر کرتے رہے۔

ابھی کل ہی ذوالفقار علی بھٹو کی پچاس سالہ پرانی تقریر کا ایک ٹکڑا نکالا گیا جس میں وہ اس وقت کے ٹوٹے پھوٹے شکستہ پاکستان کو درپیش مسائل اور مہنگائی کی دلیل پیش کر رہے تھے۔

یہاں اس کلپ کو یوں پیش کیا جار ہا تھا کہ گزشتہ پاکستان بھی ایسا ہی تھا، بہر حال دلیل مستند شخصیت کی چاہیے تھی سو بھٹو صاحب کو اس قابل سمجھ لیا گیا ورنہ ایوب خان کی محبت میں موجودہ وزیراعظم کیا کچھ نہیں فرماتے۔

خیر اس نظام کی تشکیل میں جن عناصر کو شامل کیا گیا وہ تو بیان ہو چکے مگر اصل بات یہ ہے کہ سمجھا یہ جا رہا ہے کہ یہ محض نعروں، کرپشن کے الزامات اور بہتان طرازی سے وقت گزار لیں گے۔ یہ معلوم نہ تھا کہ محض باتوں سے قلعے فتح ہوتے تو فوجوں کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔

گزشتہ تین سالوں میں ایک سے بڑھ کر ایک سکینڈل اس حکومت سے وابستہ ہو چکا ہے۔ چینی، آٹا، دوائیاں، بجلی اور ضرورت کی ہر شے پہنچ سے بہت دور چیخ چیخ کر نظام کے گرنے کی پیش گوئی کر رہی ہے۔

روٹی کو ترسنے والے عوام اب پیٹ سے آگے کچھ سوچنے کو تیار نہیں اور نا ہی کسی بیانیے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ حزب اختلاف اپنی ضد لگا کر بیٹھی ہے کہ عوام اپنا ’شوق‘ پورا کر لیں۔

عوام میں موجود غم اور غصہ کسی بھی انتشار کا سبب بن سکتا ہے اور یہاں خود فریبی میں مبتلا ارباب اختیار جانے کس منصوبہ بندی کے مراحل میں ہیں؟

دہشت گردی کی نئی لہر کا آغاز ہو چکا ہے، تازہ دم دہشت گرد آئین اور ریاست مخالف بیانیے کے ساتھ حملہ آور ہیں جبکہ ہم ’مذاکرات‘ کی پوزیشن میں آ چکے ہیں۔ ہم ریاست اور آئین کی رٹ چیلنج کرنے والوں کی طرف زیتون کی شاخ پیش کر رہے ہیں جبکہ جواب میں نفی کا کلمہ جیتی ہوئی قوم کے حوصلے اور جذبے کو پست کر رہا ہے۔

شہید بچوں کے ماں باپ ہوں یا ستر ہزار خون میں ڈوبی لاشیں۔۔ ریاست سے سوال کر رہی ہیں کہ مذاکرات کیسے اور کس سے؟ کیا چند ہزار دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں ہو سکتا یا بے بسی کی وجہ کچھ اور ہے؟

’بچوں سے ڈرنے والے بڑے دشمن‘ سے مذاکرات کون کر رہا ہے اور کس کی اجازت سے کیے جا رہے ہیں؟ پارلیمان کہاں ہے اور سب سے بڑھ کر ہماری لڑنے اور جان دینے والی فوج یہ سب کیسے برداشت کرسکتی ہے؟

جناب! ہر محاذ پر قوم مایوس ہو رہی ہے۔ آگ دامن کو لگے تو تپش سینے تک پہنچتی ہے۔ خود فریبی اور فریب سے نکلیے اور گلی، محلوں، کوچوں میں جائیے، دیکھئے کہ عوام میں کس طرح کا غصہ پنپ رہا ہے۔

اس غصے کو کوئی راہ نہ ملی تو انتشار پھیل سکتا ہے، پھر نہ کارساز بچیں گے نہ کارخانوں کے بُت۔۔۔ نظام اپنے وزن پر گِر گیا تو پھر اسے کون بچائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments