مشفق استاد قاسم علی شاہ


چند برس قبل ایکسپریس اخبار میں قاسم علی شاہ صاحب کا ایک انٹرویو پڑھتے وقت جب قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کا ذکر آیا اور فاؤنڈیشن میں منعقد ہونے والے کورسز کا ذکر پڑھا تو فوراً سے دل نے کہا کہ جناب تیاری پکڑیں۔ خیر سے فاؤنڈیشن رابطہ ہوا تو چند دن بعد والے ایک کورس کی معلومات ملنے پر خود کو رجسٹرڈ کروانے کی کوشش کی لیکن بتایا گیا کہ آپ خود تشریف لائیں، پہلے آپ کا انٹرویو ہو گا اور اس کے بعد آپ کا ایڈمشن۔ خیر انٹرویو کے لیے فاؤنڈیشن پہنچا تو عمیر بھائی نے انٹرویو لیا اور اس کے بعد ہم باقاعدہ فاؤنڈیشن سے تربیت لینے لگ گئے۔

غالباً یہ تیسرا دن تھا جب بریک ٹائم میں قاسم علی شاہ صاحب دفتر سے نکلے اور ان سے پہلی ملاقات ہوئی، اتنی خوش مزاجی سے ملے گویا برسوں سے جانتے ہوں۔ سلسلہ سیلفیہ سے منسلک ہونے کے باوجود ہمت نہ ہوئی کہ اظہار کر سکوں، اور بعد میں بھی ایک مدت تک خود میں یہ ہمت نہ پا سکا۔ کورس کا اختتامی لیکچر شاہ جی نے دیا اور ہم ایک سحر میں گرفتار بس خاموشی سے سب کچھ سنتے رہے۔ دل کے کسی نہاں خانے میں یہ خواہش پل رہی تھی کہ مرشد سے ایک اٹوٹ انگ جیسے رابطے میں اللہ پاک لے آئے۔

گردش ماہ سال کچھ ایسے گزرے کہ پتا ہی نہ چلا جب وجاہت علی شاہ صاحب کا فون آ گیا کہ شاہ جی ملاقات کے لیے بلوا رہے ہیں۔ اور ہم کہ خوشی سے پاگل تین دن بڑی مشکل سے گزرے۔ جمعہ کا دن تھا اور ہم بالمشافہ ملاقات کے لیے جا پہنچے۔ محدود سے وقت میں ڈھیر ساری باتیں ہوئیں اور اس کے بعد سے تو گویا ایک ایسا اعتماد ملا کہ ”پیا کے رنگ میں رنگ گئے“ کچھ سمجھ نہ آئی کہ کب

”رانجھا رانجھا کر دیاں، میں آپی رانجھا ہوئی“

مجھے خبر بھی نہ ہوئی اور میرے اندر کے استاد کو مرشد نے اپنا پلیٹ فارم دے دیا۔ میرے پہلے سیشن کی مبارکباد دیتے ہوئے شاہ جی نے کہا کہ اب ہمارے گھر کا ایک اور ٹرینر تیار ہو گیا۔

ایک دن میری خوشی اور حیرانی دو چند ہو گئی جب میرے سیشن کے اختتام پر شاہ جی خود پھولوں کا گلدستہ لیے آئے اور اپنی محبتوں سے نوازا اور پھر تو گویا وقت کو پر لگ گئے۔ ایک سال کے دورانیے میں اس تھوڑے سے کام کو اللہ پاک نے اتنی قبولیت بخشی کہ ہمیں پاکستان کے طول و عرض سے ایک نئی پہچان مل گئی۔

قاسم علی شاہ صاحب ایک استاد، ایک رہنما، ایک دوست اور ایک بھائی غرض ہر روپ میں انمول ہیں اور مجھ جیسے نالائق کی یہ خوش بختی کہ مجھے آپ کی محبت ہر روپ میں مل رہی ہے۔ آپ جس مقصد کو لے کر آگے بڑھ ہیں اس کے کارواں کا ہم بھی کب حصہ بنے خود کو بھی خبر نہ ہو سکی۔

قاسم علی شاہ صاحب کے اندر اللہ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ ایک دفعہ آپ ان سے ملتے ہیں تو اگلی ملاقات میں چاہے کتنا ہی عرصہ کیوں نہ گزر جائے، آپ سے اتنی ہی گرم جوشی کے ساتھ ملیں گے جیسے پہلی ملاقات میں تھے۔ آنے والے شخص کو توجہ دینا، خوش اخلاقی سے بات کرنا اور گرم جوشی کے ساتھ استقبال کرنا یہ وہ چیزیں ہیں جو انہیں دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ بڑے انسان کو دیکھنا ہو تو اس کے چھوٹے کام دیکھو، بڑا انسان ہمیشہ چھوٹے چھوٹے کاموں سے بنتا ہے۔

شاہ صاحب میں بھی یہ عادت بدرجہ اتم موجود ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے بیرون ملک سفر کرنا تھا، جہاز میں بیٹھنے سے پہلے آخری فرد کے طور پر مجھ سے ملے۔ کچھ گھنٹوں کے بعد ان کا فون آیا تو مجھے تشویش ہوئی کہ اللہ جانے کیا مسئلہ ہو گیا ہے؟ لیکن یہ جان کر حیرت انگیز خوشی ہوئی کہ انہوں نے صرف مجھے اطلاع دینے کے لیے فون کیا کہ میں خیریت سے پہنچ گیا ہوں۔

ایک دفعہ ہم کسی تقریب میں تھے۔ واپسی میں ہم فاؤنڈیشن کی طرف اکٹھے آئے۔ رات ہو چکی تھی، مجھ سے انہوں نے پوچھا کہ گھر کیسے جائیں گے؟ میں نے کہا شاہ جی! ٹیکسی منگوا لی ہے، بس کچھ دیر میں آ جائے گی۔ لیکن شاہ صاحب اس وقت تک انتظار میں ہی رہے جب تک میری ٹیکسی نہ آئی اور مجھے رخصت کرنے کے بعد وہ گھر کی طرف روانہ ہوئے۔

شاہ صاحب تعلق نبھانے میں اس قدر پرخلوص ہیں کہ وہ از خود آپ کی ذمہ داری لے لیتے ہیں۔ مجھے سرکاری طور پر ملتان ہجرت کرنی پڑی۔ لاہور میں میرا ایک وسیع حلقہ احباب تھا، اچانک ملتان پہنچا تو کچھ دن میں اور میری فیملی دونوں کچھ بے سکون تھے، لیکن ایسے میں شاہ جی نے اپنی ذمہ داری اس طرح نبھائی کہ اول مجھے فون کر کے بتایا کہ فلاں فلاں جگہ میرے جاننے والے ہیں، ان سے مل لیں اور شناخت بنائیں۔ اس کے ساتھ ملتان میں اپنے جاننے والوں کو بھی فون کر کے بتایا کہ آپ کے پاس ہمارا ایک دوست آیا ہوا ہے، اس کا خیال رکھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کے اس مادہ پرست دور میں بغیر کسی غرض کے اس قدر اپنائیت دکھانا ایک عظیم انسان کا ہی کام ہو سکتا ہے۔

شاہ صاحب کے پاس جو بھی آتا ہے وہ اس کو اپنی دسترخوان میں ضرور شریک کرتے ہیں۔ ساتھ میں سیلفی کی صورت میں ملاقات کو یادگار بناتے ہیں اور کتاب کا تحفہ بھی دیتے ہیں۔ شاہ جی نے ان لوگوں کے لیے بھی اپنے دل کے دروازے کھلے رکھے ہیں جو ابھی تک فاؤنڈیشن نہیں آئے او ر اسی وجہ سے وہ اپنی ہر ویڈیو کو انٹرنیٹ پر شیئر کر دیتے ہیں تاکہ وہ لوگ بھی اس خیر سے محروم نہ رہیں۔ شاہ صاحب کی اسی علمی اور اخلاقی سخاوت نے ہر انسان کے دل میں ان کے لیے محبت پیدا کی ہے اور اسی وجہ سے ان کی مقبولیت اور چاہت میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔

میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت شاہ جی کو خوشیوں بھری لمبی عمر عطا فرمائے اور انہیں قدم قدم پر کامیابیاں اور کامرانیاں نصیب فرمائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments