خبردار! کیمرہ دیکھ رہا ہے


خبردار کیمرہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔ یہ عبارت جدھر لکھی دیکھیں تو ریلیکس ہوجائیں۔ یہاں چاک و چوبند ہونے کی ضرورت بالکل نہیں۔ کہ اصل رولا تو وہاں شروع ہوتا ہے جہاں یہ نہیں لکھا ہوتا۔ کہ وہاں کچھ خبر نہیں ہوتی، کیمرے کی خفیہ آنکھ دیکھ رہی ہے، یا انسانی آنکھ چھپ چھپ کر ۔ یہ بھی ممکن ہے کیمرے کے ساتھ ساتھ انسانی آنکھ بھی دیکھ رہی ہو اور آپ بے خبر ہوں۔ کہ ایسا واہیات دور آ چکا ہے کہ بات اب ایک آنکھ تک نہیں رہتی۔

بلکہ موبائل ہی موبائل سے ہوتی ہوئی پوری دنیا کا سفر چند منٹوں میں طے کر لیتی ہے۔ موبائل ایک شر انگیز چیز ہے اور کیمرہ اس کا دودھ شریک بھائی۔ دونوں مل کر وہ فساد مچاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ حد تو یہ ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی کسی دوسرے کی پناہ میں بھی نہیں چھپ سکتا، کہ پناہ دینے والا بھی تو کہیں منہ چھپانے کو پناہ ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔ لہذا اپنے شریکوں سے بچنے کے خود ہی انتظام کرنا ہوں گے۔ یہ ثابت ہے کہ خلوتوں میں بڑے بڑے جلوے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ خلوتوں کے جلوے محفلوں کی زینت بنتے جا رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان سے لطف اندوز ہونے کو ہر کوئی خلوت کا ہی تمنائی ہوتا ہے۔ اور ان جلوے بکھیرنے والوں کو سب کے سامنے لعن طعن کرنے والے تنہائی میں خودی کو شرمندہ کرتے ہیں کہ ’مرشد تم بھی سیکھو کچھ‘ ۔

ہم بڑی بڑی روایتوں کے امین کہ کسی کو کسی کے سامنے بے آبرو نہیں کرتے تھے۔ ہماری ثقافت تو اس قدر پردے کی حامی تھی کہ کسی چیز میں بے پردہ بیبیاں نظر آ جاتیں تو ان چیزوں کو ڈھانپ دیتے۔ لیکن اب ان روایتوں پہ پانی پھیر کر نئی روایتیں جنم دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب لوگ اور روایتیں اتنی بڑھتی جا رہی ہیں کہ خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی ستر پوشی کی فکر بھی ہونے لگی ہے۔ یہ چلن عام ہو رہا ہے کہ لوگ اپنے مخالف کی ٹوہ میں رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کردار کشی کرنے کے لیے دوسرے کو دنیا کی نظر میں گرانا ہی معیار بنتا جا رہا ہے۔ یہاں یہ رسم چلی ہے کہ محفل میں رسوا کر کے چھوڑیں گے۔ دیکھیے یہ رسم کہاں تک چلتی ہے اور کون کون اس سے متاثر ہوتا ہے۔

ہمارے شاہی حرم تو شرم سے حوض میں غوطہ زن ہیں کہ حرم کے تقدس پامال ہو رہے ہیں اور کسی شہنشاہ کو پرواہ ہی نہیں۔ کجا وہ دور تھا کہ سارے عالی جاہ اور ان کے ہمنوا ڈنکے کی چوٹ پر مونث چیزوں سے خاصی رغبت رکھتے تھے۔ باہر جنگ ہو رہی ہوتی اور شہنشاہ کسی حرم میں شمع روشن کیے غم دور کرتے رہتے۔ آفرین ہے ان غیور لوگوں پر کہ اپنے تو اپنے تھے، مخالف فریق بھی اعتراض نہ کرتے۔ اگر کوئی اپنی حرکتوں سے کسی کے سامنے برہنہ ہونے بھی لگتا تو لوگ اس پہ اپنی سوچ کے کپڑے پہنا دیتے۔

بات آج بھی حرم اور حمام ہی کی ہے۔ لیکن لوگوں کی سوچ تھوڑی لوفر ہو گئی ہے مشہور مقولہ ہے کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ تو صاحب حرم اور حمام تو بنے ہی اس لیے ہیں کہ وہاں ننگا ہوا جائے، میرا مطلب ہے کہ وہاں جیسے چاہو رہا جائے۔ اگر حمام میں کپڑے ہی پہننے ہیں تو پھر حمام بند کردینے چاہیے اور کسی سرائے میں رہنا شروع کر دینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ حرم قائم رہیں گے اور حمام بند نہیں ہو سکتے۔ کہ اگر یہ بند ہو گئے تو معاشرہ کراہیت زدہ ہو جائے گا، ہر شخص بدبو سے اٹ جائے گا۔

حرم اور حماموں کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ ہر کوئی حمام میں اپنی ضرورت کے تحت جاتا ہے۔ حمام میں سب ننگے ہونا چاہتے ہیں لیکن راندہ درگاہ کوئی نہیں ہونا چاہتا۔ اس لیے اگر حمام میسر ہوں تو پہلے تسلی کر لیں کہ کسی نے آپ کے راندہ ہونے کا اہتمام تو نہیں کر رکھا۔ کسی نے موبائل فونز اور خفیہ کیمروں کو شتر بے مہار چھوڑ کر آپ کے خلاف سازش تو نہیں کر رکھی۔

دستور بدلا، اطوار بدلے۔ لیکن ہمارے ذہنوں میں موجود پراگندہ خیالات کا انبار وہیں کا وہیں ہے۔ نیوڈ فلموں کے شوقین اوریجنل فلمیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں، پھر اس پر حرام کا تڑکا لگا کے اس گناہ کی تشہیر کرتے ہیں اور گناہ کے بل پر خوب ثواب ( منافع ) کماتے ہیں۔

کوئی منہ کالا کرے یا سفید، یہ سراسر اس کا ذاتی فیصلہ ہے۔ خدا جانے کیا فتور دماغ میں سمایا ہے کہ بگڑے ہوئے دوسروں کو سدھارنے کا بیڑہ اٹھائے پھرتے ہیں۔ ارے بھیا پہلے اپنا چلن تو ٹھیک کر لو دوسرے کا کعبہ بعد میں درست کر لینا۔ ہر شخص دوسرے کو سدھارنے کے لیے آپریشن راہ راست کا جہاد کر رہا ہے جبکہ خود براہ راست شو دیکھتا ہے۔ مجھے تو ان لوگوں پہ رشک آتا ہے جن میں کم ازکم ان میں اتنی اخلاقی جرات تو ہے، کہ ببانگ دہل اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

منافقت نہیں کرتے۔ جو ہوتے ہیں وہ دکھتے ہیں، جو سوچتے ہیں، بتا دیتے ہیں۔ یہاں ہر کوئی پارسا نہیں۔ لیکن کچھ لوگ اتنے کم بخت ہیں، کہ خود سے بھی سچ کہتے گھبراتے شرماتے ہیں۔ اخلاق کا جنازہ نکال کر ادب آداب کی بات کی جاتی ہے۔ کہیں کوئی جبر کی بات ہو تو ہنر بھی آزمایا جائے۔ ظلم ہو تو کوئی ہاہاہا کار بھی مچے۔ جب بات رضا و تسلیم کی ہو تو پھر بولنا بنتا نہیں۔ دوسرے کو پاپی کہنے سے پہلے ایک نظر اپنے اندر بھی دیکھ لینا چاہیے۔ کہ ہم نے تو یہاں بڑے بڑے پارساؤں کو پاپ کے قدم چاٹتے دیکھا۔ اس جہان کار ساز میں جو بچنے کی کوشش کرے وہ بھی کسی طور پاپیوں کے ہتھ چڑھ ہی جاتا ہے، کہ فرشتوں سے نسبت کا دعوی تو کوئی نہیں کر سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments