پاکستان کی خارجہ پالیسی کا چیلنج اور عالمی طاقتوں کا کردار


پاکستان عملی طور پر ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ اس کو داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز میں ایک مسئلہ ہماری علاقائی یا عالمی سطح پر خارجہ پالیسی کا بھی ہے۔ بالخصوص جس انداز سے حالیہ کچھ عرصہ میں خطہ کی بدلتی ہوئی صورتحال، افغانستان میں ہونے والی تبدیلیاں، پاک بھارت تعلقات، خطہ میں چین کا بڑھتا ہوا اثر سمیت امریکہ چین تعلقات کو دیکھیں تو بہت سی ایسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جس کا اثر خود پاکستان کی داخلی سیاست اور خارجہ پالیسی سے جڑے نئے امکانات، خدشات یا مسائل سے جڑے نظر آتے ہیں۔

بالخصوص پاکستان امریکہ تعلقات کی نوعیت میں بھی ہمیں مختلف مسائل یا بداعتمادی کا ماحول غالب نظر آتا ہے او راسی بنیاد پر ہم خارجہ پالیسی میں نئے امکانات کو بھی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک خارجہ پالیسی میں خود کو مضبوط پیش کرنے کا ایک ہی بنیادی اصول ہے وہ داخلی سطح کا سیاسی اور بالخصوص معاشی استحکام ہوتا ہے۔ لیکن کیونکہ ہم داخلی سطح پر معاشی طور پر بہت زیادہ مضبوط نہیں تو یہ ہی وجہ ہے کہ ہم عالمی سیاست کے بڑے دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔

پاکستان امریکہ تعلقات کے تناظر میں پاکستان میں امریکہ کے طرز عمل پر شدید تحفظات ہیں۔ پاکستان نے جو کچھ افغان بحران کے حل میں کیا او رجو میز عالمی سطح پر امریکہ، افغان حکومت اور افغان طالبان کے لیے مذاکرات کی سجائی وہ یقینی طور پر پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھی، مگر اس کے نتیجے میں جو بڑی بداعتمادی کا ماحول امریکہ کی جانب سے پاکستان کے تناظر میں دیکھنے کو مل رہا ہے وہ واقعی پاکستان کی تشویش کو نمایاں کرتا ہے۔

پاکستان 2001۔ 21 تک افغانستان کے تناظر میں امریکہ کا اہم اتحادی رہا ہے۔ خود امریکہ میں اعتراف علمی و فکری سطح پر موجود ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغان بحران کا حل ممکن نہیں۔ لیکن اب جس انداز میں امریکی سینٹ میں ایک بل کا مسودہ پیش کیا گیا اور اس میں تقاضا کیا گیا کہ طالبان او ران کی مدد کرنے والے ممالک اور حکومتوں پر پابندی لگائی جائے او راس میں پاکستان کا نام بھی شامل کیا گیا ہے۔ یقینی طور پر یہ طرز عمل پاکستان کے کردار کی نفی بھی ہے او راس میں امریکہ افغانستان میں اپنی بڑی ناکامی کا بوجھ بھی پاکستان پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس لیے اگر پاکستان نے اس پر اپنا شدید ردعمل دیا ہے تو فطری بھی ہے اور حقیقت پر مبنی بھی ہے کہ امریکہ دوہرے معیارات کا شکار ہے۔

بہت سے لوگوں نے افغانستان سے امریکی انخلا کو سیاسی تنہائی میں دیکھا تھا او ر کہا تھا کہ امریکہ اب افغانستان سے چلا گیا ہے۔ اس وقت بھی راقم نے یہ ہی لکھا تھا کہ امریکی فوجیوں کا انخلا افغانستان سے ضرور ہوا ہے لیکن امریکہ بدستور افغانستان میں ہی رہے گا۔ اب جو ہمیں صورتحال افغانستان کی نظر آ رہی ہے اس میں امریکہ کا کردار بڑھ گیا ہے اور وہ طالبان سمیت پاکستان کو افغانستان میں سخت ٹائم دینا چاہتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ افغانستان میں تناظر میں امریکہ کا اب بڑا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے اور امریکہ بھارت کی سرپرستی کر کے افغانستان میں اپنی پراکسی وار کو بھارت کی مدد سے چلائے گا۔

ابتدا میں امریکہ نے پاکستان کو پیغام دیا تھا کہ وہ افغان بحران کے حل میں بھارت کو بھی شامل کرے لیکن پاکستان کی مخالفت کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ اب امریکہ اور بھارت دونوں ہی افغانستان میں ناکام ہوئے ہیں اور دونوں ہی اس ناکامی سے کچھ سبق سیکھنے کی بجائے بدلہ لینے اور افغان حکومت کو تنہا کرنے اور پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں ایک طرف امریکہ تو دوسری بھارت سے بھی خطرات لاحق ہیں جو افغانستان سمیت پاکستان کو مستحکم دیکھنے کی بجائے غیر مستحکم رکھنا چاہتے ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کے تناظر میں اس بنیادی نقطہ کو سمجھنا ہو گا کہ امریکہ کا مستقبل کا کردار افغانستان کی تعمیر نو ہے یا وہ اپنے بدلہ کی آگ میں اسے غیر مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔ اگر امریکہ کی پالیسی افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کی ہے تو پھر پاکستان کا استحکام بھی اسے کسی صورت قبول نہیں۔ ایسے میں پاکستان کیونکر اپنا پورا جھکاؤ امریکہ کی گود میں ڈال دے جو پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے مفادات کے ساتھ زیادہ کھڑا ہے۔

حالانکہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ ہم ماضی کے تنازعات یا تضادات پر مبنی پالیسی سے نکل کر مستقبل کی طرف اور معاشی استحکام کی بنیاد پر علاقائی اور عالمی تعلقات کو موثر بنانا چاہتے ہیں۔ اس میں پاک امریکہ تعلقات اور پاک بھارت تعلقات کی بہتری کا ایجنڈا بھی شامل ہے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ امریکہ کے لیے پاکستان کا چین کی طرف بڑھتے ہوئے جھکاؤ کی قبولیت قبول نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ امریکی پالیسی میں ہمیں پاکستان کے لیے مفاہمت سے زیادہ مزاحمت، ٹکراؤ یا دباؤ ڈالنے کی پالیسی کافی نمایاں نظر آتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کی علاقائی اور عالمی سیاست کے تناظر میں ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں کیا کرنا چاہیے اور ہماری اپنی ایسی کیا حکمت عملی ہونی چاہیے جو ہمیں خطرات موجود ہیں ان کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں ہمیں سات اہم نکات پر توجہ دینی ہوگی۔ اول ہمیں کسی بھی ملک کے خلاف ان کی سخت ردعمل کی پالیسی پر ویسا ہی سخت رویہ اختیار کرنے کی بجائے مدلل انداز میں یا اپنی سوچ و فکر کی بنیاد پر متبادل لانگ ٹرم، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسی پر مربوط انداز میں کام کرنا ہو گا جس میں جذباتیت کے مقابلے میں ٹھوس گہرائی موجود ہو اور یہ پالیسی کسی سیاسی تنہائی میں نہیں بلکہ علاقائی اور عالمی فریم ورک اور مشاورت پر مبنی ہونی چاہیے۔

دوئم ہمیں علاقائی ممالک سے اپنے اتحاد و تعلق کو ایک نئی جہت دینی ہوگی اور خود کو علاقائی ممالک کے ساتھ کھڑا کر کے عالمی سیاست کا مقابلہ کرنا ہو گا او راس میں چین کے ساتھ اپنے تعلق کو بھی مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا ہو گا۔ امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کے تناظر میں بھی ہمیں توازن پر مبنی پالیسی رکھنی ہوگی اور اس تاثر کی نفی کرنی ہوگی کہ ہمارا چین سے تعلق کی بنیاد امریکہ سے تعلقات ختم کرنے پر ہے۔ سوئم جو عالمی سطح پر امریکہ اور بھارت کی طرف سے ہمیں سنگین نوعیت کی الزام تراشیوں کا سامنا ہے اس کے لیے ہمیں عالمی میڈیا، تھنک ٹینک، یورپی پارلیمنٹ اور امریکی کانگریس سمیت دیگر رائے عامہ کو متاثر کرنے والے افراد یا اداروں کے ساتھ ایک موثر تعلقات پر مبنی پالیسی درکار ہے۔

ہمیں عالمی دنیا کو یہ پیغام دینا ہو گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کون اس وقت خطہ یا عالمی امن کے خلاف ہے۔ چہارم ہماری حکومت، ریاست، فارن آفس، خارجہ امور کے ماہرین، عالمی دنیا میں موجود پاکستان کے سفارت کار، ڈپلومیٹ اور میڈیا کے محاذ پر ایک بڑے بیانیہ کو طاقت فراہم کرنا ہوگی اور اس بیانیہ میں تضاد سے زیادہ اتفاق رائے پر مبنی ایجنڈا ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہمارے باہمی تضادات کو بنیاد بنا کر ہی عالمی سیاست سے جڑے ممالک ہی اسے ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں۔

پنجم پاکستان کو اپنے داخلی مسائل میں سیاسی اور معاشی استحکام کو بنیاد بنانے اور وہ مسائل جس پر عالمی دنیا ہم پر تنقید کرتی ہے اس پر ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ ہماری داخلی پالیسی ہماری خارجہ پالیسی کو طاقت فراہم کرنے کا سبب بنے۔ ششم ہمیں اپنی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ٹکراؤ کی پالیسی کی بجائے ایک دوسرے کے لیے بھی اور خود ملک کے لیے بھی ایک ذمہ دارانہ پالیسی اور طرز عمل کی ضرورت ہے جس میں قومی مفاد کی اہمیت سب سے زیادہ ہونی چاہیے۔

ہفتم ہمیں افغانستان یا طالبان کے تناظر میں ایک توازن پر مبنی پالیسی درکا ر ہے جس میں ہمارا کردار معاونت کا ہی ہو اور ہمیں خود کو ان کا ترجمان پیش کرنے کی بجائے ان کے مثبت یا منفی اقدامات کی تعریف اور تنقید دونوں کرنی ہوگی۔ کیونکہ بھارت کا ایجنڈا یہ ہے کہ وہ پاکستان کو دنیا میں اس انداز سے پیش کرے کہ طالبان کے پیچھے پاکستان ہے اور جو کچھ افغانستان میں برا ہو رہا ہے یا ہو گا اس کی ذمہ داری پاکستان پر ہی عائد ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments