حمزہ حسن شیخ کے افسانوی مجموعے ”کاغذ“ کا تنقیدی جائزہ


حمزہ حسن شیخ سے بطور لکھاری میری شناسائی پرانی ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمارا شمار بچوں میں ہوتا تھا اور ہم بچوں کے صفحات کے لیے چھوٹی موٹی سبق آموز کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ اس دور میں روزنامہ پاکستان، روزنامہ اوصاف، روزنامہ مشرق، روزنامہ ایکسپریس اور روزنامہ اساس میں بچوں کے صفحات کا خاص اہتمام ہوتا تھا اور ان پر ننھے لکھاریوں کا اتنا رش ہوتا تھا کہ تحریر کی اشاعت کے لیے کئی ہفتوں تک انتظار کرنا پڑتا۔

حمزہ حسن اس دور میں بھی اچھا لکھتے تھے اور کمال یہ کہ انھوں نے وہ تمام کہانیاں تین کتابوں کی صورت میں شائع کیں۔ ان کا ادبی سفر بہت تیزی سے آگے بڑھتا گیا۔ وہ بیک وقت انگریزی، اردو زبان میں شاعر، ناول نگا ر، کہانی کار، افسانہ نگار اور مترجم کی حیثیت سے پہچان بنا چکے ہیں اور کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز بھی حاصل کرچکے ہیں۔ مجھے ان کی اس کامیابی سے اس لیے بے حد خوشی ہوئی ہے کہ ان کے ساتھ بچپن کی سنہری یادیں وابستہ ہیں۔

گزشتہ دنوں مجھے گورنمنٹ سپیرئر سائنس کالج پشاور میں شعبہ اردو کے چیئرمین پروفیسر رشید احمد کے توسط سے ان کا افسانوی مجموعہ ”کاغذ“ ملا جو کہ 2014ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ اس میں کل 41 افسانے ہیں۔ ابتدا ”خاک میں چھپا چاند“ سے ہوتی ہے۔ اس افسانے میں انھوں نے ایک گورکن کا المیہ بیان کیا ہے گورکن کے کردار اور اس کے متعلقات کی خوبصورت منظر کشی کی ہے۔ اس افسانے میں لاشعوری طور پر اکتوبر 2005ء کے ہولناک زلزلے کا عکس نظر آتا ہے البتہ اس کہانی کا بنیادی خیال عجیب مخمصے کا شکار ہے۔

گورکن کا بیٹا جب کہتا ہے ”بابا، اگر میں مر گیا تو مجھ پر بھی مٹی ڈال دے گا۔“ تو قاری بچے کی موت کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوجاتا ہے لیکن اتنے ہولناک زلزلے کے لیے قاری ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں بچے کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ محنت کا صلہ نہ ملنے اور بے روزگاری کی وجہ سے نوجوانوں کو کن مسائل کا سامنا ہے یہ جھلک افسانہ ”انشورنس“ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس افسانے میں ترقی پسند سوچ پائی جاتی ہے۔ انشورنس کی معمولی رقم کے لیے ایک بے روزگار نوجوان جس المناک انجام سے دوچار ہوتا ہے اس کوایک طرف اگر بے بسی اور قربانی کا نام دیا جاسکتا ہے تو دوسری طرف ”کم ہمتی ہی کیوں نہ ہو توہین زندگی“ کی بہترین مثال بھی ہے۔

حمزہ حسن پسے ہوئے طبقے کی بہترین نمائندگی کرتے ہیں۔ افسانہ ”کاغذ“ میں بڑے دلچسپ اور خوبصورت انداز میں محبت جیسے لطیف جذبے کو بنیاد بنا کر اس طبقے کی نمائندگی کا حق ادا کیا ہے۔ محبت حسب و نسب کی قائل نہیں اور فن و فنکار کی فطرت و عظمت اس افسانے کا بنیادی موضوع ہے۔ ان دو بظاہر بے ربط موضوعات کو بڑی خوبصورتی سے مختصر سے افسانے میں سمیٹا ہے۔ خاص کر اس کا مرکزی کردار بڑا جاندار اور مکالمے بڑے شاندار ہیں۔ اس میں بھر پور کہانی ملتی ہے۔

اس مجموعے کے کئی افسانوں میں ’فن اور فنکار‘ کی نمائندگی کے ساتھ ان کا المیہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ حمزہ حسن شیخ کی کہانیوں میں فنکار اپنے اصل منصب پر فائز نظر آتے ہیں۔ ”کاغذ“ میں کاغذ کی کشتیاں بنانے والی غریب فنکارہ اور ”فنکار“ کا کمہار دونوں جب اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزوں کے ساتھ بچوں کو کھیلتے دیکھتے ہیں تو خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں۔ حس لطافت کے ساتھ ان کو اپنے وجود کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ان فنکاروں کا اپنے فن سے لگاؤ اور غربت کے باوجود اطمینان اور قربانی مثالی ہے۔ کیونکہ ”کاغذ“ کی غریب لڑکی اپنے فن کے لیے اپنے امیر شوہر کا گھر چھوڑ کر اپنی بوسیدہ جھونپڑی میں واپس چلی جاتی ہے اور ”فنکار“ کا کمہار اپنے گھڑوں کے ساتھ ڈوب کر سیلاب کی نذر ہوجاتا ہے۔

حمزہ حسن شیخ نے موضوعات معاشرے اور اردگرد کے ماحول سے چنے ہیں ان میں کوئی ماورائی تاثر نہیں ملتا اور نہ ہی افسانوی مصلحتوں کے شکار نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے افسانہ ”قل خوانی“ کو مدنظر رکھتے ہیں جس میں انھوں نے ایک دولتمند گھرانے کے ہاں رسم غمی کی خوبصورت تصویر کشی کی ہے۔ یہ دراصل ایک خاندان کی کہانی ہے جو نمود و نمائش اور تصنع کو ایسے موقعوں پر بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور نچلے طبقے کو چشم حقارت سے دیکھتے ہیں۔

افسانہ نگار نے فنکارانہ طریقے سے اس ریڈ کارپٹ طبقے کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے اور ان کی مصنوعی زندگی اور نفسیات کو بڑی پرکاری سے بیان کیا ہے۔ یہ کہانی جہاں فنی لحاظ سے قاری کے دل و دماغ پر ایک خوبصورت تاثر چھوڑ جاتی ہے وہاں احساس و فکر کی دعوت بھی دیتی ہے۔ حمزہ نے کمہار کے داخلی محسوسات و کیفیات کو بھرپور انداز میں پیش کیا ہے۔

حمزہ حسن شیخ کے ہاں انشائیہ کا رنگ بھی ملتا ہے وہ معمولی موضوعات میں ایسے نکتے نکالتے ہیں کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔ افسانہ ”انشورنس“ کے علاوہ ”حاجی صاحب“ بھی ایک ایسا ہی افسانہ ہے جس میں افسانہ نگار نے بڑی چستی کے ساتھ ایک نرم دل مالدار اور وضع دار شخص کی دریا دلی، بچے پر شفقت، بچے ساجد کے من کی سچائی اور حاجی صاحب کا دوغلا پن دکھایا ہے۔ ظاہری پرہیزگاری اور کھوکھلی دینداری کا پردہ بھی فاش کیا ہے۔

حاجی صاحب کی صورت میں بہت سے کردار ہمارے آس پاس موجود ہیں۔ ان کا قلم استاد کے شب و روزکا احاطہ بھی حسن و خوبی سے کرتا ہے ”لنگڑی زندگی“ میں ایک غریب گھرانے کی واحد کفیل استانی کے محدود وسائل اور لامحدود مسائل کا نقشہ کھینچا ہے۔ سرکاری نوکری ہونے کے باوجود بھی استانی مفلوک الحال ہے اور شناخت کے بحران سے گزر رہی ہے۔ ”وہ اپنے اردگرد روشنی میں نہائی ہوئی زندگی دیکھ کر حیران رہ گئی جبکہ اس کی زندگی تو ایک اندھیرے گھر میں قید تھی“ ۔

وہ بیمار باپ کے علاج، چھوٹے بھائی کی معصوم خواہش پوری کرنے اور گھر کا خرچ اٹھانے کے لیے پولیو ویکسین مہم میں چند اضافی روپے کمانے کی غرض سے شامل ہوجاتی ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت کا گھر سے نکلنا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے اور وہاں کے مولوی اور عام لوگ محکمہ صحت کی اس مہم کے خلاف زہر اگل رہے ہوتے ہیں۔ کہانی میں پائے جانے وائے تجسس میں، گزرتے لمحوں کے ساتھ اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ایک خوبصورت تسلسل اس افسانے کا خاصہ ہے۔

معاشرے میں موجود ناہمواریاں، جہالت، مذہبی ٹھیکیدار یہاں بھی مختلف کرداروں کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں اور اس کا انجام ایک غریب استانی کی موت کی صورت میں ہوتا ہے۔ خاص کر اس افسانے کا اختتام بڑا کربناک ہے جہاں بلیاں اسٹریچر پر استانی کا پڑا ہوا خون چاٹتی ہیں اور ایک لنگڑی بلی کے منہ میں اسٹریچر سے رستا ہوا خون پولیو کے قطروں کی مانند ٹپکتا ہے۔ یہاں ایک ”لنگڑی زندگی“ کا اختتام دوسری لنگڑی زندگی کے دوام کا باعث ہے۔ اس کا انجام بڑا علامتی اور معنی خیز ہے۔ اس کہانی میں درپردہ اہل اقتدار پر گہرا طنز بھی کیا گیا ہے ۔

حمزہ حسن شیخ معاشرے کے تلخ حقائق کو بڑی سادگی سے بیان کرتے ہیں۔ ”مدہم چراغ“ میں ایک جوڑے کے رہن سہن کو یوں بیان کرتے ہیں : ”ساحل سمندر پر ابھری اس چٹان پر بنا جھونپڑا دور سے خوبصورت دکھائی دیتا تھا مگر اس میں رہنے والوں کو معلوم تھا کہ وہ کتنا بھیانک ہے۔“ اس افسانے میں ایک محبت کرنے والے شادی شدہ جوڑے کی مشکلات اور استحصالی رویوں کی کشمکش دکھائی گئی ہے۔ بورژوا طبقے نے ہمیشہ غریب کا استحصال کیا ہے اور اگر اس کے خلاف کسی نے آواز اٹھائی تو اس کو کچل دیا گیا ہے یہی انجام حامد کا بھی ہوتا ہے۔ ”مدہم چراغ“ اور ”مہندی“ دونوں ترقی پسند سوچ کے حامل افسانے ہیں۔ ”مہندی“ میں بھی ایک غریب کے ارمانوں کا خون دیکھا جاسکتا ہے۔ زندگی کی بے ثباتی اور آرزوؤں کی تشنگی اس افسانے کا المیہ ہے۔

حمزہ حسن شیخ کے ہاں روایتی اور مشرقی محبت کے قصے بھی ملتے ہیں۔ فلیش بیک تکنیک میں لکھے گئے افسانے ”راہگزر“ میں یہی کیفیت پائی جاتی ہے جس میں مصنف ”میں“ کی صورت میں موجود ہے۔ فہد محبت پانا چاہتا ہے اور باوجود کوشش کے کامیاب نہیں ہوتا، جبکہ اس کے دوست کو اسی لڑکی کی محبت مل رہی ہے لیکن وہ اسے دوستی کی وجہ سے ٹھکرا رہا ہے۔ فہد احساس کمتری کا شکار ہے اس میں خود اعتمادی کا فقدان ہے۔ اسی طرح ”بیوٹی کوئین“ میں دوسروں کے جذبات سے کھیلنے والے ایک بے ضمیر شخص کی کہانی ہے جو سمندر پار بیٹھی ’ہما‘ کا قلمی محبوب ’طارق‘ بن کر اس سے خط و کتابت کر رہا ہے۔

اس کی بے حسی اور بزدلی کا یہ حال ہے کہ تعلق ختم ہونے تک وہ چاہتے ہوئے بھی سچائی اور حقیقت بتانے سے قاصر رہتا ہے۔ محبت جیسے نازک جذبوں پر لکھے گئے ہر افسانے میں ایک نیا رنگ اور تازہ کہانی ملتی ہے۔ ”اڑان“ میں بھی لاکھ پردوں میں چھپی ہوئی مشرقی محبت بیان کی گئی ہے۔ امجد چاہتے ہوئے بھی اپنی محبت کا اظہار نہیں کر پاتا اور لڑکی اپنی محبت پاس ہوتے ہوئے بھی اس کا ادراک نہیں کر پاتی۔ اس کہانی میں سسپنس برقی رو کی طرح دوڑ رہا ہے۔

مشرقی محبت کی بدعتیں جو ازل سے ہمارے ہاں چلی آ رہی ہیں اور محبت اکثر ان بدعتوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ ”بولی“ میں اس معاشرے کا یہی چہرہ دکھایا گیا ہے۔ عاصم اور زوبیہ کی محبت میں مشرقی پن اور ظالم سماج کا خوف دکھایا گیا ہے۔ بنیادی طور پر ، یہ ایک رومانوی افسانہ ہے لیکن اس کے تار خواتین کے ساتھ ناروا سلوک اور ان کے جذبات کا خون کے ساتھ ملتے ہیں اور ایک لالچی والد کا روپ حاوی ہے۔ اس افسانے میں مختصر مگر جاندار مکالمہ نگاری نے افسانے کو لازوال بنا دیا ہے : ”آج تم سنو گے اور میں بولوں گی“ ۔

”تو سنو کل میری بولی ہے تم بھی میری بولی دینے آجانا“ ۔ بیانیہ انداز میں لکھے گئے افسانے ”بندے“ میں یقیناً مارگلہ میں گرنے والے جہاز کا المیہ ہے۔ اس افسانے کا انجام انہونا اور حیران کن نہیں البتہ دردناک ضرور ہے۔ ایسے حادثے اس جدید دور میں ہوتے رہتے ہیں اور جائے حادثات پر انسان کے روپ میں پائے جانے والے درندے جیبیں اور پیٹ بھرنے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ اس میں معاشرے کا یہ مکروہ چہرہ دکھایا گیا ہے۔ بلحاظ موضوع ”انشورنس“ ”لنگڑی زندگی“ اور ”بندے“ میں جدید موضوعات کو افسانے کے دامن میں موتیوں کی طرح ٹانکا ہے جس سے عصری آگہی جھلکتی ہے۔

حمزہ حسن شیخ کا کمال یہ ہے کہ وہ جس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں تو اپنے بھرپور مشاہدے کے زور پر اس کا حق اداکرتے ہیں اور اس کی بڑی خوبصورت تصویر کھینچتے ہیں۔ وہ بڑی روانی اور آسانی سے اپنی بات کہہ دیتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں چونکا دینے والی کیفیت پائی جاتی ہے۔ نئی کہانی میں جو ’اچانک پن‘ موجود ہے وہ ہمیں ان کے ہاں بھرپور انداز میں ملتا ہے۔ ان کے افسانوں کی جڑیں ہماری زمین سے پھوٹتی ہیں اور اس کا ماحول اور کردار ہمارے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ ان کے افسانوں میں ہمارے اردگرد کے لوگ کرداروں کی صورت میں ملتے ہیں۔ جن میں مزدور، گورکن، استاد، سیٹھ، بھکاری، کمہار، زمیندار، بابو، مولوی، حاجی صاحب، بچے اور مائیں شامل ہیں۔ رشید امجد لکھتے ہیں :

”حمزہ حسن کے افسانے ہمارے آس پاس کی زندگی کے مسائل سے عبارت ہیں۔ ان کے کردار اور ان کے اعمال ہمارے جانے پہچانے ہیں“ ۔

فطرت کی منظر نگاری اور تصویر کشی کے دوران ان کے افسانوں میں برستی بارش، ندی، نالے، سمندر، پرندے اور برگد سے ایک خوبصورت احساس جاگتا ہے۔ حمزہ حسن کے افسانوں میں تہذیبی و ثقافتی جھلکیاں، مقامی کھیل تماشے، گاؤں، شہر، جھونپڑیاں، کوٹھیاں، دکانیں، شاپنگ مال، کاغذ کی کشتیاں، مٹی کے کھلونے ملتے ہیں۔ غم دوراں، غم جاناں، عدم تحفظ، شناخت کا بحران، تلخ حقائق، سماجی شعور، عصری آگہی اور موضوعات کی ندرت ان کے افسانوں کے لازمی جزو ہیں۔

وہ گھما پھیرا کر بات کرتے ہیں اور نہ ہی علمیت کا رعب جھاڑنے کے لیے ادق، متروک اور نامانوس الفاظ و تراکیب ڈھونڈ ڈھانڈ کر استعمال کرتے ہیں یہی وجہ ہے ان کا اسلوب نہایت رواں دواں اور شستہ ہے۔ حمزہ حسن کے افسانوں کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ افسانے کی بنت اور کینوس کے لیے جنسی موضوعات اور طوائف کا کوٹھا لازمی نہیں بلکہ ’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘ کے مصداق سماج کی گود میں پڑے ایسے موضوعات بھی ملتے ہیں جس کو بنیاد بنا کر اچھا افسانہ لکھا جاسکتا ہے بس اس کو زیرک نظر فنکار کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کو چن کر موتیوں کی مالا پر و سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments