پانی دھرتی کا دودھ


اقوام متحدہ کے ایک ذیلی تنظیم کا دنیا میں پانی کے بحران کے حوالے سے رپورٹ قابل غور اور تشویشناک ہے۔ وہ علاقے اور ممالک جہاں موسمیاتی تبدیلی سے جو بھی حالات ہو چکے ہیں اور رونما ہو رہے ہیں جس میں مزید شدت آنے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ اور وہ ممالک جہاں لوگوں کا زیادہ دار و مدار زراعت پر ہے وہاں موسمیاتی تبدیلی سے پیداوار میں کمی اور پانی کی قلت سے مزید نقصانات ہو نے کی گنجائش ہے۔

ورلڈ میٹیورولوجیکل آرگنائزیشن کے رپورٹ کے مطابق دنیا میں پانچ عرب سے زیادہ لوگوں کو 2050 ء تک پانی کی رسائی میں مشکلات درپیش ہوسکتے ہیں جو کہ 2018 ء تک ایک سال کے دوران تین اعشاریہ چھ عرب لوگوں کے لئے کم ازکم سال کے ایک مہینے پانی تک رسائی کے مسائل بنتے تھے۔

سطح زمین پر پانی کے ذخائر کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پانی کی یہ مقدار گزشتہ بیس سال سے ایک سینٹی میٹر کے حساب سے گھٹ رہی ہے۔ اب جو کہ زمین میں 0.5 فیصد پانی تازہ اور قابل استعمال ہے، وہ ذخائر جو زمین کی سطح، زیر زمیں، برف اور گلیشیرز کی صورت میں موجود ہیں، ان میں مزید کمی ہو سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو دہائی سے سیلاب اور اس سے متعلق تباہی میں بھی 124 فیصد اضافہ دیکھنے میں آئی ہے۔

جرمن واچ کا حوالہ دے کر پاکستان اکنامک سروے ( 2019۔ 20 ) میں یہ رپورٹ ہوئی ہے کہ پاکستان اپنے جغرافیہ کی وجہ سے دنیا میں ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گزشتہ بیس سال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ ماحولیاتی ابتری اور حالات سے نمٹنے کے لئے ملک میں، سروے کے مطابق، ہر سال سات سے چودہ عرب ڈالر کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ایک دوسرے اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تین اعشاریہ آٹھ عرب ڈالر کے حساب سے معاشی نقصان موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں پانی کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ دریائے سندھ ہے جس سے زراعت میں نوے فیصد پیداوار ہوجاتی ہے۔ زرعی پیداوار ملک کے جی۔ ڈی۔ پی کا ایک کوارٹر حصہ بن جاتی ہے اور یہ ملک کے اندر خوراک اور ذریعہ معاش کا اہم وسیلہ ہے۔ پاکستان کے برآمدات اور بیرونی آمدنی کا اہم ذریعہ بھی زراعت ہے جو پانی کی کمی سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ آزادی کے وقت پاکستان میں پانی فی کس کے حساب سے عالمی معیار کے مطابق زیادہ تھی جو کہ اب گر کر ایک ہزار میٹر فی کس سے بھی کم ہو چکی ہے جس سے شدید پانی کی قلت، ترقی میں رکاوٹ اور انسانی صحت متاثر ہونے کا خطرہ ظاہر کیا جاتا ہے۔

پاکستان واٹر وژن 2025 کے مطابق پاکستان میں جنگلات کی کٹائی ہر سال چار فیصد کے حساب سے جاری ہے جس سے بلندی پر واقع علاقے جہاں عالمی حدت کا اثر زیادہ ہو جاتی ہے جس سے برف کی پگھلاؤ زیادہ اور پانی کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے۔ اگر اس عمل سے ایک طرف نقصانات ہو رہے ہیں تو دوسری طرف پانی کے وسائل کم ہونے کا شرح بڑھ چکی ہے۔

پاکستان کے ڈرافٹ نیشنل واٹر پالیسی کے مطابق پاکستان میں 2025 ء تک پانی اور اس کے ذخائر کے تحفظ اور ترقی سے کافی پانی موجود ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ملک میں پانی کی تقسیم کا معیار بہتر کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ پانی کے حوالے سے قومی پالیسی کا لب لباب یہ ہے کہ ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے معیار زندگی کو بہتر بنانے، وسائل کی معاشی اہمیت اور تمام اسٹیک ہولڈر کی شمولیت سے پانی کے نظام تقسیم کے معیار کو بہتر بنانے اور اس کی برابر تقسیم کو یقینی بنانا چاہیے۔ اور صارفین کے ضروریات کو مدنظر رکھ کر بہتر انتظام کا ہونا، اداراتی اور قانونی نظام جس سے پانی کے پائیدار استعمال سے ملک میں سماجی اور معاشی ترقی ممکن ہو سکے۔

پانی کو دھرتی کے دودھ سے تعبیر کیا جاتا ہے جس سے زمین میں بسنے والے زندگی کا انحصار ہے۔ گو کہ پاکستان میں کئی علاقوں میں پانی کی کمی موجود ہے، اور چند شہروں میں پانی کی کمی قلت کی صورت لے چکی ہے۔ بشمول پاکستان، دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حدت سے متاثر ہونے والے ممالک میں پانی کی کمی سے قلت اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کا اندازہ قابل غور ہے۔ دنیا میں پانی کے بحران کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی یہ رپورٹ پاکستان کی آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہے۔ نیشنل واٹر پالیسی پر عملی کام کر کے ملک میں بننے والے پانی کی قلت سے نمٹنے کے لئے اقدامات اور موجود پانی کے ذخائر کو محفوظ کرنے، اور ان کے پائیدار استعمال کو یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

الحاج محمد خان
Latest posts by الحاج محمد خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments