گم نام گاؤں کا آخری مزار


کالج میں طالب علمی کا زمانہ شروع ہوا ہی تھا کہ شناسائی ان سے ہو گئی۔ شناسائی بھی ایسے ہوئی کہ ایک دن اخبار میں ان کا کالم دیکھا اور پھر پڑھ لیا جو کہ ایک معجزہ تھا۔ کافی ماہ تک صرف ان کے کالم کا انتظار رہتا کیوں کہ کالم کسی اور کا تب پڑھتے ہی نہ تھے۔ جس دن ان کا کالم چھپتا، اسی دن صبح لائبریری جا کر اخبار اٹھاتے اور صرف ایک کالم پڑھ کر راہ واپسی کی اختیار کرتے۔ یاد داشت اگر ساتھ دیتی تو پہلا کالم جو پڑھا تھا اس کے موضوع کا تذکرہ کچھ ہو جاتا مگر، حافظے بے کار ہو گئے صاحب۔

فقط دھندلی سی یاد باقی ہے کہ کالم میں کچھ کتابوں کا تذکرہ تھا قرات جن کی کالم نگار نے چند دن پہلے کی تھی۔ اور یوں یہ تذکرہ کتابوں سے محبت کی پہلی سیڑھی بن گیا۔ کالم نگار اکثر کتابوں پر کالم لکھتے اور یوں راوی اور کتابوں سے بہ یک وقت محبت پروان چڑھتی رہی۔ یہ محبت برقرار اب بھی ہے مگر اس شکوے کے ساتھ کہ اب وہ کالم نگار یعنی رؤف کلاسرا کتابوں پر کالم بہت کم لکھتے ہیں۔ یہ بیڑہ اب پیرزادہ صاحب نے اٹھایا ہوا ہے اور خوب اٹھایا ہوا ہے یا ہمارے محبوب نثر نگار کے کالموں سے اچھی کتابوں کا سراغ مل جاتا ہے۔

کچھ ماہ قبل ذکر رؤف کلاسرا کی کتاب ”گم نام گاؤں کا آخری مزار“ پڑھی تھی، ذکر جس کا آج رہے گا۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ کتاب ہے یا کسی سینما کی سکرین کہ جس پر واقعات نمودار ہوئے چلے جاتے ہیں۔ ان واقعات میں رقعت ایسی ہے کہ دل درد سے، جگر لہو سے اور آنکھ پانی سے بھر جاتی ہے۔ اثر ہم پر شاید اس لیے بھی زیادہ ہوا کہ بہت سے واقعات کا تعلق ہماری قبیل سے ہے۔ گاؤں سے، جد و جہد کرنے والوں سے، دوسروں کو مصیبت میں دیکھ کر پریشان ہونے والوں سے۔ اسی کتاب میں گاندھی جی سے متعلق ایسا واقعہ درج ہے، جس کے متعلق ہم سمجھتے ہیں کہ حصہ اس کو نصاب کا بنا دینا چاہیے۔ کلاسرا نے یہ واقعہ کلدیپ نیئر کی خود نوشت سے نقل کیا ہے۔

کلدیپ لکھتے ہیں کہ ہندوستانی گورنمنٹ پاکستان کو واجب الادا رقم کے معاملے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی تھی۔ گاندھی جی چاہتے تھے کہ پاکستان کو اس کے حصے کے پیسے جلد از جلد مل جائیں اور اس کے لیے انہوں نے مرن برت کا آغاز کر دیا، اسی مرن برت کے دوران ہی گاندھی جی کو گولیاں مار ہمیشہ کی نیند سلا دیا گیا۔ گاندھی جی پاکستانیوں کے حقوق کے لیے جان دے گئے، جب کہ یہاں آج بھی گاندھی جی کو مجرم گردانا جاتا ہے۔ کالج کے زمانۂ طالب علمی کے دوران ”مطالعہ پاکستان“ کے استاد اکثر گاندھی جی کے جرائم گنواتے تھے کہ کس طرح انہوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دیا اور گاندھی جی تو بہت مکار آدمی تھے جنہوں نے مکھوٹا شرافت کا چڑھا رکھا تھا۔ وہ تو جب تاریخ کے اصل حقائق سامنے آئے تو بھید کھلا کہ گاندھی جی جتنے ہندوؤں کے محسن ہیں اتنے ہی مسلمانوں کے بھی ہیں، مگر تعصب بینائی چھین لیتا ہے، اس لیے گاندھی جی کو آج بھی یہاں ان کا اصل مقام نہ مل سکا۔ زمین کے بٹوارے نے بڑی شخصیات کو بھی تقسیم کر دیا۔

کلاسرا نے ایک اور واقعہ بھی لکھا ہے کہ لاہور میں بچوں اور خواتین کی تعلیم کے لیے زندگی وقف کرنے والی سویڈش خاتون کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی، رینگتی بھی کیسے کہ وہ کون سا ہمارے مذہب سے تعلق رکھتی تھی۔ ایسے ہی کئی واقعات اس کتاب میں درج ہیں، یاد جن کو اگر تھوڑی دیر بھی کر لیا جائے تو طبیعت اداس ہو جاتی ہے۔ واقعات تو ایک طرف، کتاب میں درج ایک مکالمے نے ایسا کچوکا لگایا ہے کہ ٹیس محسوس اب بھی ہوتی ہے۔

رؤف لکھتے ہیں کہ امریکہ کے سفر کے دوران ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی جو اچھی خاصی پر آسائش زندگی گزار رہے تھے۔ وہ پاکستانی کہنے لگے کہ رؤف دیکھو، یہاں میرے بچے محفوظ ہیں، وہ سکول جاتے ہیں تو ان سے مذہب نہیں پوچھا جاتا، ترقی کے مواقع ان کو اتنے ہی میسر ہیں جتنا کہ مقامیوں کو، میرا کاروبار بھی بہت صحت مند ہے، پھر وہ شکوہ کرنے لگے کہ پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہے؟ کلاسرا کہتے ہیں کہ میں ان کو جواب کیا دیتا کہ کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔

گم نام گاؤں کا مزار ایسی پر اثر کتاب ہے کہ اس کا پہلا ایڈیشن صرف ایک ماہ میں فروخت ہو گیا تھا اور جہلم میں قائم ایک پبلشنگ ہاؤس نے خاص اہتمام سے اس کتاب کو چھاپا ہے۔ اگر آپ معاشرے میں رو نما ہونے والے دکھی واقعات کو جان کر دل میں تڑپ پیدا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments