شعر کو انگلیوں پر پرکھ لیں


سوشل میڈیا کی برکت سے جو گت بیچاری اردو شاعری کی بنی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ ایک بے ہنگم تماشا ہے جو شاعری کے نام پر بپا ہے۔

اس طوفان بدتمیزی و بد تہذیبی کا جائزہ لیا جائے تو تین طرح کے معاملات ہو رہے ہیں۔

نمبر ایک کسی بھی معروف شعر کو اصل شاعر کی بجائے کسی معروف شاعر کے تخلص سے جوڑ کر پیش کرنا، اس میں مخلصانہ غلطی بھی ہو سکتی ہے اور شعوری یا لاشعوری بے احتیاطی بھی۔

نمبر دو کسی بھی بے ربط عبارت کو شعر کے طور پر پیش کرنا، یہ یقیناً غلطی نہیں بلکہ ایک شعوری بے احتیاطی ہے۔

لیکن تیسری صورتحال سب سے زیادہ تشویش ناک ہے

اور وہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور بظاہر شعری ذوق رکھنے والے افراد انتہائی بے وزن اور غیر موزوں عبارت کو اپنی شعری تخلیق کے طور پر پیش کر دیتے ہیں یا کسی جگہ سے ایسی ہی کوئی عبارت دیکھ کر اسے بڑی اعلیٰ شاعری کے طور پر آگے شیئر کر دیتے ہیں۔

ایسے افراد کو حد ادب یا مروت کے مارے واضح طور پر سمجھایا بھی نہیں جا سکتا کہ حضرت یہ عبارت شعر نہیں، اکثر ایسے نام نہاد شعر، شاعر کے خود ساختہ فلسفیانہ قسم کے خیالات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ایسے حضرات سے مجھے ہمدردی ہوتی ہے کیونکہ یہ پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں، ان کے پاس کہنے کو کوئی بات بھی ہوتی ہے، انہیں اپنی یا کسی دوسرے کی بات کو شعر کی شکل میں بیان کرنے کا شوق بھی ہوتا ہے۔ لیکن انہیں شعر کی پہچان نہیں ہوتی۔

اب یہ ہمارے نظام تعلیم کی خامی ہے یا کچھ اور، لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں اردو، اور اس کے علاوہ دیگر علاقائی زبانیں بھی ایک وسیع اور لازوال شعری روایت اپنے اندر سموئے ہوئے ہوں، وہاں کا پڑھا لکھا طبقہ شاعری کی بنیادی ساخت اور بنت سے اس قدر نابلد ہو، بڑے افسوس اور تشویش کی بات ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ اس موضوع پر کوئی کتاب یا تحریر ڈھونڈنے نکلیں تو وہ اتنی ثقیل اور پیچیدہ اصطلاحات سے اٹی پڑی ہوتی ہیں کہ عام قاری کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہوتے ہوئے ابتدا ہی میں تائب ہو جاتا ہے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ اچھا شعری ذوق رکھنے کے باوجود اور اچھی خاصی شاعری کر لینے کے باوجود میں خود ان پیچیدہ اصطلاحات اور قواعد و ضوابط کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ لیکن بہر حال ایک پڑھے لکھے فرد میں اتنی صلاحیت تو ہونی چاہیے کہ وہ ایک شعر کو پہچان سکے۔

تو آئیے آج کوشش کرتے ہیں کہ کسی قسم کی اصطلاحات میں الجھے بغیر اتنی سوجھ بوجھ حاصل کر سکیں کہ کسی لکھی ہوئی عبارت کے بارے میں یہ فیصلہ کرسکیں کہ یہ شعر ہے یا نہیں۔ میری کوشش ہو گی کہ میں کسی بھی قسم کی اصطلاح کا استعمال کیے بغیر اپنی بات بیان کر سکوں۔ اسی وجہ سے یہ تحریر یقیناً سکہ بند نقاد حضرات کے معیار پر پوری نہ اترے گی۔ اور میرے مخاطب اس وقت اردو زبان اور شاعری کے نقاد یا اساتذہ نہیں کیونکہ بصد احترام، یہ ان کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک عام پڑھے لکھے اردو زبان کے استعمال کرنے والے فرد کی بات ہے۔

تو بات شروع کرتے ہیں، بالکل بنیادی نکتے سے۔
شعر اردو کی دو سطروں ( مصرعوں ) پر مبنی ایک تحریر ہے۔
یہ دو سطریں کب نثر کی بجائے شاعری بن جاتی ہیں؟

اگر یہ دونوں سطریں صوتی اعتبار سے ہم آہنگ ہوں تو یہ شعر بن جاتی ہیں ( کچھ دیگر شرائط کے ساتھ جن کو فی الحال نظر انداز کر دیتے ہیں )

اب ہم آہنگ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ ایک مثال سے سمجھتے ہیں
ایک مشہور مزاحیہ شعر ہے
”پہلے اس نے مس کہا، پھر تق کہا، پھر بل کہا
اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کر دیے ”

ذرا سوچیں، ہم مستقبل کو اسی ترتیب سے انہی ٹکڑوں میں بولتے ہیں، آپ کبھی ”مست“ اور ”قبل“ کی طرح نہیں بولتے۔ کس لفظ کو کیسے بولنا ہے یہ اس کے تلفظ پر منحصر ہے۔ اوپر کی مثال میں ”مس“ ، ”تق“ اور ”بل“ تین آوازیں ہیں جن سے مل کر یہ پورا لفظ مستقبل بنا۔ اب ذرا لفظ ”شہر“ پر غور کریں، یہ دو آوازوں ’شہ ”اور“ ر ”سے مل کر بنا ہے۔ غور کریں کہ“ مستقبل کی تینوں آوازیں اور ”شہر“ میں ”شہ“ کی آواز دو دو حروف سے مل کر بنی ہیں لیکن ”شہر“ کی دوسری آواز یعنی ”ر“ ایک حرف پر مشتمل ہے۔ اردو زبان کا کوئی بھی لفظ ان دو طرح کی آوازوں سے ہی مل کر بنتا ہے یعنی دو ”حرفی“ آواز یا ”یک حرفی“ آواز۔

ان دو آوازوں کو سمجھ لینے کے بعد واپس شعر کی طرف آتے ہیں۔

تو کوئی سی بھی دو سطریں مل کر ایک شعر تب بنتی ہیں جب ان دونوں سطروں میں دو حرفی اور یک حرفی آوازوں کی ترتیب ایک جیسی ہو۔ یعنی اگر یک حرفی آواز کو ہم 1 سے اور دو حرفی آواز کو ہم 2 سے ظاہر کریں تو دونوں سطروں میں اگر 1 اور 2 کی ترتیب ایک جیسی ہو گی تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دو سطریں مل کر ایک شعر ہیں۔ ایسی سطروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وزن میں ہیں۔ دراصل وزن میں ہونے والی ہر دو سطریں شعر نہیں ہوتیں، بلکہ ان وزنوں کی کچھ مخصوص ترتیبیں اساتذہ اور نقادوں نے طے کی ہیں جن پر پورا اتر نے پر ہی کسی شعر کو شعر کہا جاسکتا ہے یہ ترتیبیں بحر کہلاتی ہیں،

جن ترتیبوں کو میں نے 1 اور 2 سے سمجھانے کی کوشش کی ہے اس کے لئے شعری قواعد میں مخصوص الفاظ استعمال ہوتے ہیں جیسے فاعلات، فاعلن، مفعول، مفعولن مفعولات وغیرہ ان الفاظ کو اوزان کہا جاتا ہے اور ان کی مخصوص ترتیب سے بحر کا تعین ہوتا ہے۔ کون سا شعر وزن میں پورا ہے یا نہیں اور کس بحر میں ہے، اس کے تعین کرنے کے عمل کو تقتیع کرنا کہتے ہیں۔

میں نے اوپر کے دو پیروں میں کچھ اصطلاحات استعمال کی ہیں، لیکن ایک عام پڑھے لکھے اردو بولنے والے کے لئے ان تراکیب کو یاد رکھنا ضروری نہیں، بس آپ صرف اتنا پرکھ لیں کہ دونوں مصرعوں میں 1 اور 2 کی ترتیب درست ہے تو شعر کو درست سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ کام با آسانی الفاظ کو بولتے ہوئے، ہاتھوں کی انگلیوں پر حساب لگا کر کیا جاسکتا ہے، تھوڑی سی پریکٹس چاہیے۔ گو اس سے بحر کا تعین نہیں ہوتا لیکن یہ بہت بعید از قیاس بات ہوگی کہ کسی شعر کو اس طرح بگاڑا جائے کہ وزن میں تو رہے لیکن بحر سے نکل جائے۔ یہ بجائے خود ایک بہت بڑی فنکاری ہوگی۔

اوپر کی ساری بحث سے یہ تو سمجھ آ گئی کہ شعر کی شعریت کا تعلق صوت یعنی آواز سے ہے ہجوں یعنی املاء سے نہیں، اس لئے یہ از حد ضروری ہے کہ تلفظ درست ہو اوپر مثال میں ”شہر“ کا لفظ استعمال ہو تو ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ اسے ”شہ“ اور ”ر“ کر کے پڑھنا ہے نہ کہ ”ش“ اور ”ہر“ کر کے۔ اس طرح کئی دوسرے الفاظ بھی ہیں جیسے فصل، زہر، زخم، ستم وغیرہ۔

اسی سے جڑی ایک دوسری بات یہ بھی ہے کہ بعض الفاظ، خصوصاً دو حرفی الفاظ جیسے ”تو“ ، ”ہے“ ، ”جو“ ، ”یہ“ ، ”کا“ ، ”کی“ ، ”کے“ وغیرہ، کو شعری ضرورت کے تحت یک حرفی بنا کر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، ایسی صورت میں ادائیگی کے وقت بھی ان الفاظ میں دوسرے حرف کو چھوٹا کر کے بولا جاتا ہے تاکہ شعر کی روانی برقرار رہے۔

امید ہے اس ایک بنیادی قاعدے کو سمجھ لینے سے ہماری شعر فہمی میں ایک ابتدائی بہتری آ سکے گی۔

تو آئندہ لفظوں کے کسی مجموعے کو جس میں اقبال، غالب یا فراز کا لفظ موجود ہو شعر سمجھنے سے پہلے اپنی انگلیوں پر 1 اور 2 کی ترتیب کے پیمانے پر سے گزار لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments