ننانوے ناٹ آوٹ


یہ عنوان کچھ سنا سنا سا لگا ہو گا۔ ہے نا؟ جی بالکل۔ یہ شفیق الرحمن کے ایک مضمون کا عنوان ہے جو میں نے مستعار لیا ہے۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ میرا ننانواں مضمون ہے جو ’’ ہم سب’’ پر شائع ہو رہا ہے۔ سینچری ہونے والی ہے۔ پہلے سوچا کہ سو ہو جائیں تو سنچری منایں گے۔ لیکن کیسے منائیں گے؟ کیا کسی سے کہوں کہ سنو ذرا مجھ پر کوئی مضمون لکھ دو اچھی اچھی باتیں بنا کر۔ اور یہ سوچ کر ہی شرم سے ماتھا بھیگ گیا۔ یہ تو مجھ سے ہر گز نہ ہوگا۔

خود ہی اپنے بارے میں کچھ لکھ ڈالوں؟ یہ کام بھی مشکل لگا۔ یہ سوچ بھی ہے کہ میرے مضامین پڑھنے والوں کو بھلا اس سے کیا غرض ہو گی کہ میرے بچپن کے خواب کیا تھے۔ میری زندگی میں کتنے اتار چڑھاو آئے۔ لوگوں کے اپنے بکھیڑے بہت ہیں میرے بارے میں کیوں جاننا چاہیں گے۔ کوئی خوش فہمی بھی نہیں ہے کہ لوگ مجھے جاننا چاہتے ہیں۔ اور سب اسی تجسس میں بے قرار ہیں کہ میں کون ہوں، کیسی ہوں اور ایسی کیوں ہوں۔

جو مجھے جانتے ہیں وہ تو جانتے ہی ہیں۔ جو نہیں جانتے وہ مجھے میری تحریروں سے ہی جانیں اور اس پر رائے قائم کریں۔ میرے شجرہ نسب اور خاندانی پس منظر سے بھلا انہیں کیا دلچسپی۔ ذاتی باتیں آپ کو پڑھنے والوں سے حیرت انگیز طور پر کنکٹ ضرور کر دیتی ہیں لیکن اس سحر میں کھو کر اپنی مدح سرائی اور خود نمائی کرنا نہایت بیزار کن ہے۔ اور یہ کنکشن ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ اس لئے یہ رسک نہیں لیا جاسکتا۔

لیکن کچھ نا کچھ تو کرنا ہوگا۔ اتنا بڑا دن یونہی گذر جائے کیا؟

تو پھر شروع کریں۔ لیکن یہ کیا؟ سب کچھ گڈ مڈ۔ جو موتیوں جیسے چمکتے الفاظ وہ پھڑکتے ہوئے جملے وہ کاٹ دار باتیں سب دھندلا گیں۔ لیپ ٹاپ کھلا ہے۔ اسکرین پر نظریں ہیں لیکن کچھ ہو نہیں ریا۔ اور جو لکھا بھی وہ اتنا بے معنی اور بے اثر ہے کہ خود ہی رد کرنے کو جی چاہتا ہے۔ گھبرا کر پھر فیس بک پر جا بیٹھے۔ دوسروں کی پوسٹس اور مضامین پر تبصرے لکھے۔ یہاں تو خوب ہاتھ چلتے ہیں۔ دوسروں پر لکھنا کتنا آسان ہے۔

 خود اپنے پر کیسے لکھا جاتا ہے؟ وہ بھی غیر جانبداری سے؟

میں نے شعوری طور پر کوشش کی ہے کہ جو بھی لکھوں غیر جانبداری سے لکھوں۔ اب اگر اپنے بارے میں بھی غیر جانبدار رہ کر لکھوں تو یہ ایک انتہائی غیر متاثرکن داستان ہوگی اس لئے اسے جانے دیں۔ میں کیوں لکھتی ہوں اس پر بات ہو سکتی ہے۔ بلکہ مجموعی طور پر دیکھتے ہیں کہ لکھنے والے کیوں لکھتے ہیں؟

اپنے لئے…

تخلیق کا یہ عمل کچھ ایسا ہی ہے جیسے ورک آوٹ، متوازن غذا، پوری نیند اور بننا سنوارنا۔ لکھنا آپ کو اپنی اہمیت کا احساس دلاتا ہے۔ لکھنے سے اسٹریس کم ہوجاتا ہے۔ آپ زندگی کو صرف سیاہ و سفید نہیں دیکھتے بلکہ اس کے ہر رنگ سے آشنائی پیدا کرتے ہیں۔

 دوسروں کے لئے …

زندگی کے کئی روپ ہیں۔ اتار ہے چڑھاو ہے، موڑ ہیں، یو ٹرن ہیں۔ ان پر لکھتے ہیں کہ شاید کسی کی کچھ رہنمائی ہو سکے اور وہ زندگی کے پتھریلے راستے سے گھبرا کر ہمت نہ ہار بیٹھیں۔ اپنے تجربات اور مشاہدات پر لکھتے ہیں۔ کبھی ہم زندگی کے واقعات کو ایسی آنکھ سے دیکھتے ہیں جو شاید ہر ایک نہیں دیکھتا اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ زاویہ نگاہ مدد گار ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ یہ سب لکھتے ہوئے ناصح بن جائیں تو یہ کچھ ٹھیک نہیں۔

داستان گوئی کے لئے …

لکھاری آس پاس بکھری کہانیوں دیکھ کر اس میں کچھ اپنی رنگ آمیزی کر کے کہانی بنا لیتے ہیں۔ کبھی آپ خود پر گذرے کسی حادثے کو کہانی یا افسانے کی شکل دے دیتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کچھ تو واضح لکھیں لیکن بین السطور بھی کچھ ہو۔ کچھ سمجھ جائیں کچھ نہ سمجھیں لیکن کہانی اپنی جگہ مکمل ہی ہوتی ہے۔

 آواز بلند کرنے کے لئے…

آپ کسی بدصورت حقیقت کو بیان کریں یا تشدد اور زیادتی کے کسی واقعے کو، یا غم اور غصے کی کیفیت کو۔ آپ کو بات کہنے کا ڈھنگ آتا ہو تو یہ ایک پا اثر تحریر بن جائے گی۔ ہمارے اندر جو دکھ اور بے چینی ہے اسے الفاظ میں ڈھال کر ہم آواز آٹھاتے ہیں اور یوں اندر کی گھٹن کو باہر نکلنے کا راستہ ملتا ہے۔ نا انصافی پر آواز اٹھانا تو فرض بھی ہے۔ اختلاف اور تنقید سے کیا گھبرائیں۔ یہ سب تو ہوتا ہی ہے۔ جب سر اوکھلی میں دے ہی دیا تو۔۔۔

 تفریح کے لئے …

جی ہاں ایسا بھی ہوتا ہے اور یہ بالکل جائز ہے۔ تفریح پر سب کا حق ہے۔ آپ کا بھی۔ اور جو لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیوں لکھتے ہیں ان کے لئے یہی ایک جواب کافی ہوگا’’ جی ہم تفریح کے لئے لکھتے ہیں۔ ’’

اب یہ بات کہ میں کس کیٹیگری میں آتی ہوں۔ تو جناب میں تھوڑی تھوڑی ہر جگہ ہوں۔ اپنے لئے بھی لکھا۔ داستان گوئی بھی کی۔ ارد گرد بکھری کہانیوں کو لکھا۔ اواز بھی اٹھائی۔ میں لکھتی ہوں کیونکہ مجھے دوسروں کو ایک امید دینی ہے۔ لکھتی ہوں جب اندر کی گھٹن بڑھ جاتی ہے۔ لکھتی ہوں جب کسی کے ساتھ کوئی ناروا سلوک ہو رہا ہوتا ہے۔ لکھتی ہوں کہ تفریح رہے اور زندگی میں کچھ مسکراہٹیں بکھر جائیں۔

تحریر جب تک میری سوچ میں رہتی ہے اچھی لگتی ہے۔ لکھنے کے بعد قدرے معمولی لگتی ہے اور چھپنے کے بعد تو اس میں کئی عیب نظر آنے لگتے ہیں۔

چلئے پھر اتنی تمہید کے بعد اپنے بارے میں کچھ بتا ہی دوں۔ نادرہ گیلانی کے نام سے میرا لکھنے کا سفر بچپن سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ جنگ کے بچوں کے صفحے، پھر طالب علموں کے صفحے پر لکھا۔ لاہور کے ایک میگزین دھنک سے متاثر ہو کر کچھ لکھا اور بھیج دیا اور وہ چھپ بھی گیا۔ دھنک کی کراچی نمایندہ بھی بنی اور کراچی کے ایک رسالہ پاکیزہ کی مدیرہ رہی۔

 پھر آقائے مہرنواز سے ملاقات ہو گئی۔ ہم ایک دوسرے کو اچھے لگے۔ شادی ہو گئی۔

شادی کے بعد ایران پاکستان کے بیچ چکر لگتے رہے۔ ایران میں انقلاب اور پھر ایران عراق جنگ نے وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ ہم پناہ لینے ناروے آ گئے۔ کیسے آئے اور کیا کچھ ہم پر بیتی یہ ایک الگ داستان ہے۔ سنانی بھی مشکل۔

مشق سخن یہاں بھی جاری رہی۔ لیکن اس میں وقفے آتے رہے۔ یہاں پڑھائی کی، کام کیا، اس کے ساتھ تین بیٹوں کی پرورش بھی کی۔

ناروے نیا ملک، نیا ماحول، نئی زبان، نئے چیلنجیز۔ رخش عمر بگٹٹ بھاگتی گئی۔ پیر جم گئے۔ بچے بڑے ہو گئے۔ 2007 میں ہم پر ایک قیامت ٹوٹی۔ نہ زمین پھٹی نہ آسمان گرا نہ سورج ٹکڑے ٹکڑے ہوا نہ چاند کی گردش میں کوئی فرق پڑا۔ بس ہماری دنیا لٹ گئی۔ غم کے ساتھ جینا زندگی نے سکھا دیا۔

ایک لمبے وقفے کے بعد ’’ ہم سب’’ میں لکھنا شروع کیا۔ وجایت مسعود صاحب نے کچھ ایسی عزت افزائی اور تعریف کی کہ مجھے اپنے بارے میں کچھ کچھ خوش فہمی سی ہونے لگی۔ لیکن شکر ہے کہ میرے پیر زمین پر ہی رہے۔ اس کے علاوہ پڑھنے والوں کی محبت ہے جو بات اب تک بنی ہوئی ہے۔ تعریف بھی ہوئی اور تنقید بھی۔ شاباش بھی ملی اور گالیاں بھی۔ ہمت افزائی بھی ہوئی اور دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اب قدغنیں بھی لگ رہی ہیں لیکن دریا اپنے بہاؤ کا راستہ بنا ہی لیتا ہے۔ اب آپ نے جان لیا کہ میری داستان کافی بور قسم کی ہے اور آپ کو با دل نخواستہ پڑھنی بھی پڑی۔ اس کے لئے آپ کا شکریہ۔

تو لیجیئے خیر سے ٹک ٹک کرتے ننانوے ناٹ آوٹ تک آ پہنچے۔ پتہ نہیں سینچری ہو پائے گی یا یہ اننگ بس یہیں تک رہے گی۔ شاید آؤٹ کر دیے جائیں۔ انتظار کیجئے، سینچری اگر ہو جائے تو مبارکباد ضرور بھیجئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments