کاغذی دھوپ” منفرد نام منفرد افسانے


مجھے پڑھنا اچھا لگتا ہے اور جب کوئی اچھی کتاب پڑھنے کو مل جائے تو اور بھی اچھا لگتا ہے۔ حال ہی میں ایک خوبصورت افسانوی مجموعہ ”کاغذی دھوپ“ پڑھنے کا موقع ملا۔ کاغذی دھوپ ہریش میسی صاحب کا افسانوی مجموعہ ہے جو 1993 میں شائع ہوا۔ اس افسانوی مجموعے پر احمد ندیم قاسمی، میرزا ادیب، یونس جاوید اور کنول فیروز نے اپنی رائے دی ہے۔

احمد ندیم قاسمی اس افسانوی مجموعے کو ”نہایت جدید اور نہایت مختلف“ قرار دیتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں ”یہ شخص انسانی مزاج کی اندازہ دانی کے ساتھ ساتھ حیوانی نفسیات کی بھی حیرت ناک حد تک درست ترجمانی کر رہا ہے۔ ان کے مشاہدے کی گہرائی عصر حاضر کی پاکستانی سوسائٹی کے ہر شعبے کو کمال ژوف نگاہی سے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ میں ان افسانوں کے اس نہایت جدید اور نہایت مختلف مجموعہ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ “

میرزا ادیب فرماتے ہیں۔ ”ہریش میسی کی کہانیاں، نئی فکر، نئے رویے، نئے انداز کی کہانیاں ہیں سادہ مگر موثر، مختصر لیکن اپنی معنویت میں مکمل۔“

ڈاکٹر یونس جاوید اس افسانوی مجموعے کے بارے یوں کہتے ہیں۔ ”حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب سانپ اور چیتے جیسے موذی، امن پسند ہی نہیں دردمندی میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں۔ سادگی اور سلامت اس کے تخلیقی سفر میں اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ موڑ توڑ کر بات کرنے کا عادی نہیں ہے۔ وہ تو کھل کر کہتا ہے“ آج کا انسان (ہم) جانوروں سے زیادہ خونخوار اور وحشی ہو گیا ہے۔ ”

کتاب دس افسانوں پر مشتمل ہے۔ اس افسانوی مجموعے کی انفرادیت یہ ہے کہ کاغذی دھوپ کے کردار غیر انسانی ہیں۔ چرند پرند، درخت، کیڑے مکوڑے۔ لکھنے کا یہ اسلوب دنیائے ادب میں بہت کم استعمال ہوا ہے۔ برصغیر میں اس اسلوب کو استعمال کرنے والے جو چند گنتی کے نام ہیں ان میں نمایاں نام وشنو شرما، (پنج تنتر) ، پریم چند (دو بیل، پوس کی رات، ) ، رفیق حسین (آئینہ حیرت) اور اس کے بعد ہریش میسی صاحب (کاغذی دھوپ) کا نام آتا ہے۔ مصنف نے جس خوبصورتی کے ساتھ ان غیر انسانی کرداروں سے مختلف انسانی زندگی کے مختلف مسائل پر بات کی ہے اور حیرت انگیز طور پر متاثر کن ہے۔

کتاب شروع کرنے سے پہلے کتاب کا ٹائٹل کاغذی دھوپ آپ کی توجہ لے لیتا ہے۔ میں نے کوشش کی کہ کھوجوں کسی اور جگہ کاغذی دھوپ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہو۔ مگر جہاں تک میری رسائی تھی مجھے کہیں بھی یہ اصطلاح نہ ملی۔ بہت سے لکھاریوں نے لفظ ”کاغذی“ کو بطور سابقہ استعمال کیا ہے۔ یہ لفظ جسم اور لباس کے ساتھ استعمال ہوا مثلاً کاغذی پیکر، کاغذی جسم، کاغذی تن، غالب کا مشہور مصرع ”کاغذی ہے پیرہن“ کاغذی لباس، ملبوس، کاغذی لوگ، اشیا کے ساتھ استعمال ہوا۔

کاغذی کشتی، کاغذی پھول، کاغذی سونا کیفیت، وقت اور مقام کے ساتھ استعمال ہوا ہے، کاغذی دنیا، کاغذی شہر، کاغذی وعدے، کاغذی صحرا، کاغذی شیر، کاغذی انا، کاغذی موسم، کاغذی رویہ (پطرس بخاری) کاغذی عمر، کاغذی نام و نسب، کاغذی مہتاب، کاغذی شادابیاں، کاغذی لعبت وغیرہ مگر کہیں بھی ”کاغذی دھوپ“ نہ ملا۔

کاغذی دھوپ دس افسانوں پر مشتمل ہے ہر ایک افسانہ انسانی نفسیات کی ایک گرہ کھولتا ہے۔ چیلنج کرتا ہے، سوال چھوڑتا ہے اور قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ جب ان افسانوں کے کردار، غیر انسانی اشیاء اور مختلف جانور، کتا، شیر، کوا اپنی زبان میں زندگی کی گہری حقیقتوں سے پردہ اٹھاتے ہیں تو ان افسانوں کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے ۔

ان افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے مصنف کی علمی وسعت، فنی بصیرت، حیوانی اور انسانی نفسیات کی گہری سوجھ، اور مشاہدے کی گہرائی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے زندگی کا بھرپور اور بغور مطالعہ کیا ہے۔ ان کی قوت مشاہدہ بہت تیز ہے۔ اور پھر اس مشاہدہ سے دانش کشید کرنے کا فن بھی انھیں آتا ہے۔ پھر مختلف اشیاء کے منہ سے نکلوائے ہوئے مکالمات آپ کو حیرت زدہ کر دیں گے۔ لکڑی اپنے آپ سے یوں گفتگو کر رہی ہے۔ ”میں گہرائی میں ڈوبتی چلی جاتی اور سوچتی کہ عورت اور خدا شاید ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ “ (خدا)

کہیں عرفان ذات سے عرفان خدا کی بات کرتے ہیں مثلاً یہ مکالمہ دیکھئے ”بدبختو انسان کو پہچانے بغیر خدا کو کیسے پہچانو گے۔“ (خدا)

کبھی ہجرت کا دکھ یوں بیان کرتے ہیں۔ ”ہم امن اور سلامتی کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں لگتا ہے آج کا انسان ہم جانوروں سے کہیں زیادہ خوں خوار اور وحشی ہو گیا ہے۔ (دوسرا غم)

ان فلسفیانہ خیالات پر بھی آپ کی توجہ درکار ہے۔ ”دنیا میں بہت کم ہی ایسے لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ انہیں کیا چاہیے اور وہ حاصل کر لیتے ہیں اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو جانتے تو ہیں مگر حاصل نہیں کر سکتے اور ایک بہت بڑی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن میں تم سب شامل ہو جو نہ تو یہ جانتے ہیں کہ انہیں کیا چاہیے اور نہ ہی کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔“ (کاغذی دھوپ)

کیا خوبصورت اور اچھوتا خیال ہے۔ ”ہم شاید اس لئے زندہ رہتے ہیں کہ ان یادوں کو دہرائیں۔ اور یادیں ہیں کہ سب کچھ چھین لینے کے بعد مزید یادیں بنا لیتی ہیں۔“ (دھندلکے )

یقین جانو، اس کائنات کا ایک ایک ذرہ کائنات میں توازن کے قیام اور زندگی کو آگے بڑھانے کی ضمانت ہے۔ کائنات میں جب بھی توازن بگڑتا ہے زندگی بکھر جاتی ہے۔ (زندگی سے زندگی تک)

اس کتاب میں علم و دانش کے موتی بکھرے نظر آئیں گے۔ یہ کتاب بلاشبہ علم و ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments