ٹی وی شوز کا گرتا ہوا معیار


مجھے اچھی طرح یاد ہے 1986 میں پہلی بار ہمارے گھر سادہ ٹی وی آیا تھا۔ وہ دن بھی بڑا خوشگوار تھا ہم سب بہت خوش تھے۔ ان دنوں صرف پی ٹی وی کی نشریات ٹی وی پر آتی تھی اور وہ بھی مخصوص وقت کے لیے۔ میں اور میرے بھائی بار بار ٹی وی آن کرتے اور اس پر صرف مکھیاں ہی نظر آتیں۔ شام کو نشریات کا آغاز ہوا اور بڑا اچھا محسوس ہوا۔ اس وقت ہمارے پاس پی ٹی وی کی نشریات کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہ تھا۔ لیکن بڑے اچھے ڈرامے لگا کرتے تھے ان کا بڑا انتظار ہوتا تھا۔

مزاحیہ پروگرام بڑے معیاری ہوتے تھے۔ سادے ٹی وی سے رنگین ٹی وی پر منتقل ہوئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ تبدیلی آتی گئیں۔ جنرل مشرف کے دور میں نجی مالکان کو ٹی وی کے لائسنس دیے گئے یہ لائسنس زیادہ تر میڈیا گروپ نے حاصل کیے جو سالہا سال سے پرنٹ میڈیا کے اندر موجود ہیں۔ مختلف ٹی وی چینل آنے کے بعد کسی حد تک ریموٹ کا استعمال شروع ہوا۔ مسلسل پی ٹی وی دیکھنے والوں کو تھوڑی بہت تبدیلی محسوس ہوئی۔ خبریں پڑھنے کا انداز اور خصوصاً رات کے آٹھ اور دس بجے جس کو پرائم ٹائم کہا جاتا ہے۔

اس میں سیاسی بحث مباحثے کے ٹی وی ٹاک شوز عوام میں مقبولیت حاصل کر نے لگے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اپنے کام میں جدت لانی ہوتی ہے۔ ورنہ بوریت محسوس ہونے لگتی ہے۔ گزشتہ کئی سال سے ایک ہی انداز میں یہ ٹی وی ٹاک شوز ہو رہے ہیں۔ ایک اینکر صاحب ہوتے ہیں جن کو آپ معین اختر یا عمر شریف کہہ سکتے ہیں۔ ان کے سامنے 3 مختلف کریکٹرز ہوتے ہیں۔ جن کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہوتا ہے ان کو سب کچھ پہلے بتا دیا جاتا ہے۔

کون سا سوال کیسے کیا جائے اس کا کیا جواب دینا ہے۔ کہاں پر تھوڑا مسالہ تیز کرنا ہے۔ آخر ریٹنگ بھی تو بڑھانی ہے۔ کبھی کبھی زیادہ جارحانہ رویہ بھی دکھانا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک اسٹیج ڈرامے کی مانند ہوتا ہے۔ میرے نزدیک اسٹیج ڈرامے اور ٹی وی ٹاک شوز میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ دونوں کا مقصد ریٹنگ حاصل کرنا اور پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے اب بہت کم لوگ ٹاک شوز دیکھتے ہیں۔

پھر سونے پہ سہاگہ سب نے اپنے یوٹیوب چینل بنا لیے ہیں اور اس پر ایک دوسرے سے برتری حاصل کرنے کے لئے آخری حدوں کو پار کر جاتے ہیں۔ ان میں بہت کم پروفیشنل صحافی ہیں۔ زیادہ ترکا نام پر بیس سال پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ مختلف چھوٹے چھوٹے کام کرتے تھے۔ پاکستان شاید دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں پر صحافت کرنے کے لئے صحافت کی تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے پاکستان کے ہر شہر میں گاڑی موٹر سائیکل دودھ دہی کی دکان یہاں تک کہ چاول چھولے بیچنے والے بھی صحافی بنے ہوئے ہیں۔

جب سلیکشن کا یہ معیار ہو گا تو پھر آپ کو ایسے ٹی وی ٹاک شوز ہی ملیں گے۔ میری ایک بار ایک خود ساختہ سینئر صحافی سے ملاقات ہوئی میں نے پوچھا آپ کس بیٹ پر کام کرتے ہیں وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے۔ یعنی ان کو اس کا بھی پتہ نہیں تھا۔ لیکن ان کا ویزیٹنگ کارڈ پڑھنے کے لئے دس منٹ چاہیے۔ ٹی وی ٹاک شوز کے ساتھ ساتھ مزاحیہ پروگراموں کا معیار بھی گر چکا ہے لاکھ کوشش کرنے کے باوجود مزاحیہ پروگرام دیکھ کر ہنسی نہیں آتی آج کل کے مزاحیہ لکھاری ایسا لکھتے ہیں پروگرام سننے کے دوسرے دن سمجھ آتی ہے۔

لیکن پھر بھی ہنسی نہیں آتی۔ اطہر شاہ خان ڈاکٹر یونس بٹ کمال احمد رضوی انور مقصود اور مشتاق یوسفی جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے۔ جیسے اب اس طرح محنت نہیں کی جاتی جب صرف پی ٹی وی تھا تو اس وقت صرف معیاری پروگرام ہی چلتے تھے۔ اب چونکہ ٹی وی چینل زیادہ ہو چکے ہیں اس لیے یہاں سب کچھ چلتا ہے۔ اور سب کچھ بک جاتا ہے۔ معیار نام کی کوئی چیز نہیں اور اسی وجہ سے عوام کے اندر ایسے پروگراموں کی مقبولیت میں بہت کمی آئی ہے۔

بظاہر بڑے بڑے نام لیکن ان کی ویڈیو چند ہزار لوگ ہی دیکھتے ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں کچھ پاکستانی ایسے بھی ہیں جو معروف نہیں ہے لیکن ان کی ہر ویڈیو کو لاکھ لوگ دیکھتے ہیں۔ لیکن وہ بہت محنت کرتے ہیں اور معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتے اب تو ایسا دور آ چکا ہے۔ جس کی ویڈیو دیکھیں وہ منت ترلے اللہ کے واسطے دے رہا ہوتا ہے۔ میرا چینل سبسکرائب کریں۔ مجھے لگتا ہے آنے والے وقت میں یہ لوگ سبسکرائبر کو گھڑی اور موبائل گفٹ کریں گے۔

جبکہ میرا خیال ہے اگر آپ معیاری چیز دے رہے ہیں۔ تو پھر درخواست کرنے کی کوئی ضرورت نہیں سب لوگ آپ کی ویڈیو کا بے چینی سے انتظار کریں گے۔ لیکن اب تو دس پندرہ منٹ کی ویڈیو ضرور بنانی ہے اور جو ویڈیو کی ہیڈلائن دی ہوئی ہے وہ بات آپ کو اس ویڈیو میں نہیں ملے گی۔ جس کام کا آغاز ہی جھوٹ سے ہوا ہو اس نے کیا ترقی کرنی ہے۔ یہی ہو رہا ہے اگر تو محنت کی جائے تو پھر ریٹنگ بھی بڑھ جاتی ہے۔ اور سبسکرائبر بھی۔ زیادہ تر لوگ ادھر ادھر سے چیزیں اٹھا کر اپنا وی لاگ بنا لیتے ہیں۔

لیکن ایسے لوگوں کو پذیرائی نہیں ملتی اور ملنے بھی نہیں چاہیے۔ جب تک آپ خود محنت کر کے کسی مقام پر نہیں پہنچ جاتے۔ اس وقت تک اپنی محنت جاری رکھیں منزل ضرور ملے گی۔ بجائے اس کے آپ لوگوں کی محنت کی چیزیں چوری کریں۔ آپ خود محنت کریں پھر دیکھے گا آپ کو کیا نتیجہ ملتا ہے۔ اپنے کام میں جدت لانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کے تقاضے بدل جاتے ہیں۔ کوشش کریں آپ جس بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کو باقاعدہ سیکھیں اور پھر کرنے کی کوشش کریں۔

اگر بڑی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں بیساکھیوں کو ترک کر دیں۔ آپ ایک دن ضرور کامیاب ہوں گے۔ ٹی وی ٹاک شوز کو دیکھنا لوگوں نے کیوں ختم کر دیا کیونکہ لوگ ایک ہی چیز بار بار نہیں دیکھنا چاہتے۔ لوگوں کو جدت پسند ہے۔ ہمارے پاکستان کے تمام خودساختہ دانشوروں کے حوالے سے سیاسیات کے ایک ادنیٰ طالب علم سے بھی آپ پوچھ لیں وہ آپ کو بتادے گا ان کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں یا ان کی چابی کس کے پاس ہے۔ اگر ایک دانشور کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے تو وہ صرف کرپشن پر بات کریں۔

لیکن بغض نواز کو کرپشن کے ساتھ جوڑنا نا انصافی ہے۔ اگر کرپشن نواز شریف کرے تو پھر چالیس منٹ کا پروگرام وہ اکیلے کر سکتا ہے۔ لیکن اگر یہی کرپشن موجودہ حکومت کرے تو پھر آئیں بائیں شائیں۔ عوام بے وقوف نہیں ہیں سب سمجھتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں آپ کا ریموٹ کس کے ہاتھ میں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے اب میرے جیسے ہزاروں لوگوں نے ایسے پروگرام دیکھنے ہی چھوڑ دیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments