دریائے سندھ کی ”آب بیتی“ ۔ ڈاکٹر مظفر انجم کا فنی کمال


پچھلے دنوں ضلع کھرمنگ بلتستان کے آخری گاؤں واژرہ (wachra) جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ گاؤں دریائے سندھ کے بائیں کنارے بلتستان کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی سمت آخر میں واقع ہے اور یہیں سے دریائے سندھ پاکستان کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ واژرہ کی دوسری جانب خیبر اور ڈانسر گاؤں موجود ہیں۔ بعد ازاں مرول گاؤں کے پاس دریائے سندھ میں دریائے دراس اور دریائے سورو کارگل کا مشترکہ پانی آ کر شامل ہوجاتا ہے اور کھرمنگ کی وادی میں چٹانوں سے پرشور ٹکراتا ہوا سکردو کی جانب تیزی سے گامزن ہو جاتا ہے۔ کر یس کے مقام پر نوبرا سے آنے والا دریائے شیوک اس سے گلے ملتا ہے اور گرمیوں میں پانی کی سطح اونچی ہوجاتی اور گہرے مٹیالے رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔

سکردو کے جنوب میں کھر پوچو قلعے کے عقب میں ریتلے میداں میں دریائے شوگر جو برالدو اور باشہ وادیوں کا مشترکہ دریا کے گلیشیر کا بھورا پانی تیزی سے آ کر دریائے سندھ میں گھل مل جاتا ہے اور آگے کے سفر میں پابہ رکاب رہتا ہے۔ سکردو سے نکلتے ہی وادی روندو میں دریائے سندھ کافی گہرا نیچے نیچے چٹانوں اور بڑے بڑے پتھروں میں ہیبت ناک آوازیں نکالتا ہوا ایک بھورے ڈریگن کی طرح آگے کو لپکتا ہے اس دوران اس میں مختلف سائز کے چھوٹے بڑے صاف و شفاف کئی ندی نالے تیزی سے آ کر مل جاتے ہیں اور اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔

عالم پل سے کچھ نیچے اس میں دریائے گلگت شامل ہوجاتا ہے جو دراصل ہنزہ، غذر اور کارگاہ کے پانیوں کا مجموعہ ہے۔ اس سفر میں آگے تھلیچی کے مقام پر دریائے استور اور آگے آگے چلاس کا بٹو گاہ، داریل کا دریا اور تانگیر کا پانی دریائے سندھ کی طاقت بڑھاتے ہیں۔ اور آخر میں طرح ضلع کوہستان کی طرف نکل جاتا ہے۔

یہ صرف دریائے سندھ کے گزرنے کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس کے کناروں اور معاون دریاؤں کی تہذیب کی بھی کہانی ہے جہاں صدیوں سے آرین، تاتاری، منگول قبائل نہ صرف آباد ہیں بلکہ کہیں کہیں جدا جدا اور کہیں مشترکہ تہذیب کو جنم دے رہے ہیں۔

دریائے سندھ کی گھاٹیوں، عمودی چٹانوں اور قدیم گزرگاہوں کے ساتھ ساتھ چٹانی تحریریں، نقش و نگار اور مختلف مذاہب اور قبائل کے نشانات کندہ ہیں۔ علاوہ ازیں دریائے سندھ کے معاون دریاؤں میں بھی یہی Rock Carvings دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جرمن، اٹالین اور دیگر محققین کے مطابق ان چٹانی تحریروں اور علامتوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں یوریشین، ساکا، ہخامنشی، زرتشتی، درد، تبتی اور بدھسٹ سمیت چائنیز، سوغدین اور باختریہ لوگوں کا عمل دخل رہا ہے۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی نے تو صرف شتیال سے رائے کوٹ چلاس تک دریائے سندھ کے کناروں پر چٹانوں اور پتھروں پر موجود ان علامتوں، تحریروں اور اشکال کو 27 جلدوں میں مرتب کیا ہے۔

دنیا کی دوسری قدیم تہذیبوں کی طرح جو مشہور دریاؤں کے کناروں پر ظہور پذیر ہوئیں دریائے سندھ کے کناروں پر بھی متنوع تہذیب نے جنم لیا۔ میدانی علاقوں کی تہذیب کو انڈس ویلی سویلازئیشن کا نام دیا جاتا ہے جبکہ پہاڑی اور دریائے سندھ کے ابتدائی گزرگاہ جو کوہ کیلاش، لداخ اور گلگت بلتستان کا ایریا ہے وہ اپر انڈس سویلازئیشن کہلاتا ہے۔

دریائے سندھ کے مخرج کا کھوج لگانے اور اس دریا کے ساتھ جڑی تہذیب کو ڈھونڈنے کے لئے زمانہ قدیم سے حالیہ برسوں تک کئی آوارہ گرد نکلے اور انھوں نے اپنی تحریریں چھوڑیں۔ کچھ کتابیں جو میری نظر سے گزری ان میں Sven Hiden کی کتاب کے علاوہ Jean Fairley کی کتاب The Lion River، کارل جٹمار کی کتاب Beyond the gorgeous of the Indus، راب بوواڈین کی کتاب Settlements of the Indus، ایلس البانیا کی کتاب Empires of the Indus، ڈرولا مورفی کی کتاب Where the Indus is young اور ہمارے اپنے رضا علی عابدی کی کتاب ”شیر دریا“ سے تو سب واقف ہیں۔ ان سب میں دریائے سندھ کی کہانی ہے۔ لیکن ڈاکٹر مظفر حسین انجم کی کتاب دریائے سندھ کی آب بیتی جو 2021 میں چھپی ہے اس میں کیا خاص بات ہے جس کے لئے میں نے اتنا پس منظر بیان کیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کمال کے طبیب تو ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ بلند پایہ لکھاری اور شاعر بھی ہیں۔ اس سے پہلے ان کی تین کتابیں، ”دیوسائی سے کنکورڈیا تک“ ، ”آٹھ سمندر پار“ ، ”تریوی دیوی کے تین سکے“ چھپ کر دادو تحسین وصول کر چکی ہیں۔ یہ سب سفر نامے ہیں جو صاحب قلم کے مشاہدات و تاثرات ہیں۔ ان میں بھی ادبی چاشنی کے ساتھ ساتھ تاریخ و ثقافت کو دل نشین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مگر دریائے سندھ کی آب بیتی کو دیکھیے، نام ہی منفرد اور شاعرانہ۔

آب بیتی کا لفظ کچھ جدا ہی مزا دے رہا ہے۔ اس کتاب میں جو دراصل دریائے سندھ کا اپنا سفر نامہ ہے اور دریا ہی کی زبانی بیان ہو رہا ہے۔ کیلاش سے چیلاس تک دریائے سندھ کی کہانی صرف دریا کے گزرنے کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس کے کناروں اور معاون دریاؤں کے کناروں پر صدیوں سے آباد قبائل کی سماجی و ثقافتی تاریخ بھی بیان ہو رہی ہے۔ تاریخ نویسی عموماً خشک موضوع سخن ہے مگر یہاں قلم ڈاکٹر مظفر انجم کا ہے لہٰذا اس طرح روانی اور سہل انداز میں صدیوں کی تاریخ و ثقافت بیان ہوئی کہ جیسے سبک سر ہوا چل رہی ہو یا دریا کا پانی اپنی نیلگوں حسن کے ساتھ دھیرے دھیرے مترنم بہہ رہا ہو۔

آغاز کوہ کیلاش سے ہے جہاں ہندو مائیتھالوجی کے مطابق ”شیو دیوتا“ کا ٹھکانہ ہے، وہیں کہیں آس پاس سے دریائے سندھ کا آغاز ہوتا ہے۔ تبتی بیان کے مطابق تو یہ دریا شیر کے دھانے یعنی ”سنگھے کھابب“ سے پھوٹتا ہے اس لئے تو رضا علی عابدی نے اپنی کتاب کا نام بھی ”شیر دریا“ رکھا ہے جس میں عابدی صاحب کا سفر ”اپشی“ لداخ سے شروع ہو کر سکردو سے ہوتا ہوا پنجاب، سرحد اور سندھ میں بحیرہ عرب میں جا کر ختم ہوتا ہے۔ عابدی صاحب نے دریا کے کنارے آباد لوگوں کے حال کی کہانی لکھی ہے جبکہ ڈاکٹر صاحب نے حال اور ماضی دونوں کو ایک ساتھ پرویا ہے۔

تبت و لداخ کے حصے کے دوران کا سفر کو ڈاکٹر صاحب نے سنگے کھابب، گرٹوق، شمبھالا، پشمینے کی بکریاں، تشی گانگ، کیسر ہلابروکمو، بون چھوس، کھاچن، لیہ کے گلاب، پوریگ شا ٹھا ٹھا خان، سورو کارگل، زوجی لہ کے عقاب کے عنوانات دیے ہیں۔ ہر عنوان میں دریائے سندھ کی جولانی بڑھانے والے ندی نالوں کا ذکر تو ہے ہی مگر ساتھ میں وہاں کے گاؤں گاؤں اور ثقافتی ورثہ کا ذکر لوک کہانیوں اور لوک گیتوں سے استنباط کر کے کیا ہے۔

ان موضوعات میں چندر گپت موریا کے اشوک اعظم کی بدھ ازم کے فروغ کے لئے کی گئی کوشش جس کے تحت کشمیر، لداخ، بلتستان اور تبت تک بدھسٹ عقائد پھیلے۔ نمگیل خاندان کی کہانیاں، درد قبائل خاص طور پر شاہ ٹھا ٹھا خان، سوری پوئیلو کی چلاس سے طویل ہجرت، دربدری کی داستان اور ان علاقوں میں آبادکاری کی تاریخ کو بڑے سہل انداز میں بیان کیا ہے اور یہ سب گہرا مطالعہ اور تجزیہ ؤ تحلیل کی صلاحیت کا ثبوت ہے۔

بلتستان کے حصے کے دوران کا دریائے سندھ کا سفر شنگو شگر، کر تخشہ، پر کو تہ، شیوق، چھوغوری، نامیاتی گاؤں، چھری، استق تک کی تہذیب و تمدن کو اپنے اندر سموئے ہوئے جاری رہا ہے۔

تیسرے حصے میں دردستان، تو لالئی، گلیت، حصورہ، چلاس، شل مکھی، بروغل کے علاقوں کی تہذیبی داستانیں کے علاوہ خاندان پوئنئیلو اور مشہور صوفی چلاسی بابا تک کا تذکرہ بڑے تزک و احتشام کے ساتھ بیان ہوا ہے اور ابھی یہ سفر ناتمام ہے۔

غرض ایک جہان حیرت ہے جو پڑھنے والوں کو جادوئی گرفت میں رکھتا ہے تا آنکہ کتاب ختم نہ کرے۔ بلکہ یہ سحر تو بڑی دیر تک رہتا ہے، ابھی تو یہ حصہ اول ہے نہ جانے آ گئے حصہ دوم میں کتنی اور دنیاؤں کا طلسم آشکار ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments