صدارتی آرڈیننس فیکٹری سے نکلا نیا شاہکار


صدارتی آرڈیننس فیکٹری سے دوسرے نیب ترمیمی آرڈیننس 2021 کی صورت میں ایک نیا شاہکار آرڈیننس مارکیٹ میں لانچ ہو چکا ہے۔ اس آرڈیننس کو اگر پارلیمانی تاریخ کے چند انتہائی سیاہ، مکروہ اور متنازعہ ترین صدارتی آرڈیننسز میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا، بلاشبہ اس آرڈیننس کو بدنیتی، ذاتی مفادات کو تحفظ دینے کا آئینہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس آرڈیننس کے ذریعے آئین کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے اور چیئرمین نیب جن کی مدت عہدہ ناقابل توسیع ہے اسے توسیع دے کر میری رائے میں آئین سے انحراف کے جرم کا ارتکاب کیا گیا۔

نیب آرڈیننس اپنے قیام سے ہی متنازعہ رہا ہے، جنرل پرویز مشرف نے اسے ایل ایف او کے تحت ایکٹ آف پارلیمنٹ بنا کر آئین پہ ایک سیاہ داغ لگایا دیا تھا، لیکن جب 2008 کے انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی پارلیمان کے ذریعے آئین میں فوجی آمریتوں کی جانب سے وقت بوقت کی گئی ترامیم کو ختم کر کے، 1973 کے آئین کو مزید اصلاحات کر کے اس کی اصل روح کے مطابق 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے بحال کیا تھا تو اس وقت اس پارلیمان میں اٹھارہویں ترمیم پہ متفق ہونے والی تمام جماعتوں کے پاس اہم موقع تھا کہ وہ آئین پہ لگے نیب کی صورت میں سیاہ دھبے کو مٹا کر ایک متفقہ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ احتسابی قانون منظور کر کے ملک میں منصفانہ احتسابی عمل شروع کر سکتے تھے، مگر مسلم لیگ نون کی قیادت کی ضد اور ہٹ دھرمی نے ایسا ہونے نہ دیا۔

وزیراعظم عمران خان صاحب خود جب اپوزیشن میں تھے تو نیب میں من پسند ترامیم کو ذاتی مفادات کا تحفظ قرار دیتے تھے وہ چیئرمین نیب کی وزیراعظم کی جانب سے تقرری پہ بھی سخت تنقید کرتے اور اسے احتساب کی توہین قرار دیا کرتے تھے، مگر آج ماضی کے اپوزیشن لیڈر عمران خان وزیراعظم بن کر اپنے مفادات کو تحفظ دینے، ساتھ بیٹھی کرپٹ ترین مافیاز کو بچانے کے لیے ایک ایسا آرڈیننس لائے ہیں جس کے بعد خان صاحب کا کرپشن کے خاتمے کا بیانیہ ہی دفن ہو گیا ہے۔

نیب کا قانون ایک سیاہ بدترین قانون اور آئین پہ دھبہ نہ صرف ملک کی عدالت عظمیٰ اور اعلیٰ عدالتیں قرار دے چکی ہیں بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی سفارشات میں نیب قانون کو قرآن و سنت میں وضع کیے گئے عدل و انصاف کے تقاضوں کے منافی اور عموماً آئین پاکستان سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس کی منسوخی کی سفارش کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ بارہا چیئرمین نیب اور نیب کے ادارے کی کارکردگی اور سیاستدانوں کے ساتھ ناروا رویوں، احتسابی عمل کی شفافیت پہ نہ صرف سوالات اٹھاتی رہی ہے بلکہ چیئرمین نیب سمیت نیب افسران پہ سخت برہمی کا بھی اظہار کرتی رہی ہے، تو دوسری جانب ملک کی اپوزیشن، کاروباری طبقہ، بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین نیب کے ادارے کے مظالم، زیادتیوں کے خلاف سخت احتجاج بھی کرتے رہے ہیں۔

نیب کے دباؤ کی وجہ سے ریٹائرڈ برگیڈیئر اسد منیر نے خودکشی کی، جبکہ کچھ دن پہلے سندھ کا ایک سرکاری افسر نیب راولپنڈی کے شدید دباؤ کے باعث عدالت کے باہر دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو چکا، مطلب نیب کے کاندھوں پہ رسوائیوں اور ذلتوں کے سجے کئی تمغے اس کے مظالم، بربریت اور لاقانونیت اور لامحدود اختیارات کے اندھے استعمال کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کا متکبرانہ انداز حکمرانی ملک کو انارکی کی جانب دھکیل رہا ہے، رہی سہی کسر ان کے چند مہم جو، کم فہم، ناعاقبت اندیش وزراء اور ترجمان پوری کر رہے ہیں۔ نیب آرڈیننس کی شق 6 واضح طور پر کہتی ہے کہ صدر مملکت، وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے مشورے کے بعد چیئرمین نیب تعینات کریں گے اور چیئرمین نیب کا عہدہ ( ناقابل توسیع) ہو گا، لیکن اس نئے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے چیئرمین نیب کے عہدے میں نیا چیئرمین مقرر ہونے تک کی توسیع کر کے آئین کی بدترین انحرافی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ حکومت کی بدنیتی اس بات سے بالکل واضح ہوتی ہے۔ چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت میں اس طرح غیر آئینی توسیع نہ صرف سیاسی اور اخلاقی بلکہ غیر جانبداری کے بین الاقوامی تقاضوں کے بھی منافی ہے۔

پاکستان کے پارلیمانی جمہوری نظام میں اس طرح صدارتی آرڈیننس اس سے پہلے بھی جاری ہوتے رہے ہیں مگر اس وقت جب ایک تو پارلیمنٹ کے اجلاس نہ ہو رہے ہوں اور امور مملکت چلانے کے لیے کچھ قوانین میں تبدیلی ناگزیر ہو، مگر عمران خان صاحب کی حکومت میں ایک بالکل ہی نئی روایت کی بنیاد ڈالی گئی کہ جب پارلیمنٹ کے اجلاس منعقد ہو رہے ہوتے ہیں اس وقت صدارتی آرڈیننس فیکٹری سے اپنے مطلب و منشاء اور اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے آرڈیننسز جاری کر کے پارلیمانی طرز حکمرانی کو ہی شرمندہ کیا جاتا رہا ہے۔

نیب کے اس دوسرے ترمیمی آرڈیننس پہ بھی کئی ماہ سے کام جاری تھا، کئی ڈرافٹ تیار ہوئے جو وزیراعظم صاحب کو پیش کیے گئے مگر نہ تو اپوزیشن کو ان کی بھنک ہونے دی گئی نہ ہی ان سے کسی بھی قسم کی مشاورت کی کوئی کوشش کی گئی، وزراء کا رویہ انتہائی متکبرانہ انتہائی غیر سیاسی اور غیر اخلاقی رہا ہے، فواد چودھری، شبلی فراز تو فرما چکے کہ اپوزیشن لیڈر چور ہیں ان سے مشاورت نہیں ہو سکتی، وزیراعظم عمران خان بھی تکبر اور اہنکار کے نشے میں اپوزیشن سے بات چیت سے صاف انکار کرچکے، وہ اسی ہزار پاکستانیوں کے قاتلوں سے بات چیت کر کے انہیں عام معافی دینے کے لیے تو تیار ہیں مگر یک طرفہ الزامات کے زد میں آئی ہوئی حزب اختلاف سے کسی قسم کے سیاسی ڈائیلاگ کے لیے تیار نہیں، وحشی قاتلوں سے بات چیت ملکی مفاد ہے مگر سیاسی قیادت سے بات چیت جعلی منافقانہ بیانیے کی نفی۔

وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے دوسرا ترمیمی نیب آرڈیننس جاری کر کے ثابت کر دیا کہ وہ اور ان کے رفقاء ملکی تاریخ کی بدترین کرپشن میں ملوث ہیں اسی لیے وہ تمام شعبہ جات جن سے حکومت اور ان کے اکابرین کے پکڑ ہوتی وہ نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کر دیے گئے، ملک کی اپوزیشن سمیت، وکلاء، میڈیا، غیر جانبدار ذرائع ابلاغ، سول سوسائٹی اس ذاتی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والے صدارتی نیب آرڈیننس کے خلاف نہ صرف سراپا احتجاج ہیں بلکہ اسے مسترد کر چکے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان جو نوے دن میں ملک سے کرپشن کے مکمل خاتمے کے بلند و بانگ دعوے کا کرتے تھے اور ان کی ساری سیاسی زندگی کا نصب العین ہی کرپشن کا خاتمہ رہا ہے، اس وقت پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سب سے زیادہ کرپٹ ترین اور کرپشن کے سہولت کار وزیراعظم کے روپ میں سامنے آئے ہیں، ملکی سیاسی تاریخ کے جانے مانے کرپٹ، نوسر بازوں کے پورے کے پورے گروہ ان کا گھیراؤ کیے ہوئے ہیں اور وہ ان کے ہاتھوں کی عملی طور پر کٹھپتلی بن کر رہ گئے ہیں۔ صدارتی آرڈیننس فیکٹری سے نکلے کرپشن کو تحفظ دینے والے اس شاہکار صدارتی قانون نے سپریم کورٹ کی جانب سے خان صاحب کے صادق و امین ہونے کے سرٹیفیکیٹ کو جھوٹا اور جعلی بنا دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments