مشتاق یوسفی کی چارپائی


مشتاق یوسفی سے زیادہ خوبصورت طرز تحریر کس کی ہو سکتی ہے۔ تحریر میں ایک ایسا بہاؤ کہ الامان الحفیظ۔ ایک بار جو پڑھنا شروع کریں تو پھر رکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تحریر کا ایسا بہاؤ ایسی چاشنی کہ گویا بندہ کشتی میں سوار ہو کر کشتی کو دریا کے بہاؤ پر چھوڑ دے اور پھر اس سفر کے مزے لے۔ مشتاق یوسفی اپنی کتاب چراغ تلے میں ایک مضمون چارپائی اور کلچر میں لکھتے ہیں کہ ”ایشیا نے دنیا کو دو نعمتوں سے روشناس کیا، چائے اور چارپائی۔ اور ان میں یہ خاصیت مشترک ہے کہ دونوں سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔ اگر گرمیوں میں لوگ کھری چارپائی پر سوار رہتے ہیں تو برسات میں یہ لوگوں پر سوار رہتی ہے اور کھلے میں سونے کے رسیا اسے اندھیری راتوں میں برآمدے سے صحن اور صحن سے برآمدے میں سر پر اٹھائے پھرتے ہیں۔

پھر مہاوٹ میں سردی اور بان سے بچاؤ کے لئے لحاف اور توشک نکالتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ سردی روئی سے جاتی ہے یا دوئی سے۔ لیکن اگر یہ اسباب ناپید ہوں اور سردی زیادہ اور لحاف پتلا ہوتو غریب غربا محض منٹو کے افسانے پڑھ کر سو رہتے ہیں۔ اردو میں چارپائی کی جتنی قسمیں ہیں اس کی مثال اور کسی ترقی یافتہ زبان میں شاید ہی مل سکے۔ کھاٹ، کھٹا، کھٹولہ، اڑن کھٹولہ، کھٹ، چھپر کھٹ، کھرا، کھری، جھلگا، پلنگ، پلنگڑی، ماچ، ماچی، ماچا، چارپائی، نواری، مسہری، منجی۔ یہ نا مکمل سی فہرست صرف اردو کی وسعت ہی نہیں بلکہ چارپائی کی ہمہ گیری پر دال ہے اور ہمارے تمدن میں اس کا مقام و مرتبہ متعین کرتی ہے۔ ”

چارپائی کے سحر میں منٹو جیسا افسانہ نگار بھی گرفتار تھا۔ ایک بار ایک میم کی خوبصورت ٹانگوں کو دیکھ کر اپنے ایک دوست کو مخصوص لہجے میں کہا کہ ”اگر مجھے ایسی چار ٹانگیں مل جائیں تو انہیں کٹوا کر اپنے پلنگ کے پائے بنوا لوں۔“ شاید یہی وجہ ہے کہ ایشیائی مزاج لوگوں کو مغربی فرنیچر کبھی پسند نہیں آیا اور چارپائی کی ضرورت روز اول کی طرح آج بھی ویسی ہی ہے۔ بلکہ شاید پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے۔ پہلے تو چارپائی محض سونے یا بیٹھنے کے ہی کام آتی تھی مگر مشتاق یوسفی نے چارپائی کے جتنے نام گنوائے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ناموں کا استعمال بھی بڑھتا گیا۔ کسی بھی کیفیت کی شدت کو ظاہر کرنے کے لیے چارپائی کا حوالہ ضروری ہوتا گیا۔

اگر اس چارپائی کو عصر حاضر کے سیاسی و سماجی ماحول میں استعمال کریں تو بہت سے افعال کی وضاحت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی محض ایک فقرے سے صورتحال کی وضاحت ہو جائے گی۔ جیسے موجودہ حکمرانوں کی معاشی پالیسیوں نے عام آدمی کی کھٹیا کھڑی کردی ہے۔ آئے روز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب متوسط طبقہ گویا کھاٹ پر پڑ گیا ہے ۔ مگر سیاسی اشرافیہ کے کان پر جون تک نہیں رینگ رہی بلکہ اشرافیہ کی پلنگ توڑ ویڈیوز نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کے اعمال میں کوئی فرق نہیں ہے وہ خلوت میں بھی وہی کچھ کرتے ہیں جو وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر عوام کے ساتھ کرتے ہیں۔ بس سادہ دل عوام کو اس کا ادراک نہیں ہو پاتا۔

ادراک ہو بھی کیسے کہ کرپشن اور لوٹ مار کے قصے کہانیوں کا اس قدر شور ہے کہ کان پڑی آواز ہی سنائی نہیں دے رہی۔ حاکم وقت نے کرپشن اور لوٹ مار کا الزام لگا کر ہر سیاسی مخالف کی پگڑی بیچ چوراہے اتاری ہے۔ کون ہے ایسا جو اس دست شر سے بچا ہو۔ مگر آفرین ہے کہ حاکم وقت نے کبھی اپنی منجی تلے ڈانگ پھیرنے کا سوچا بھی ہو۔ چینی اسکینڈل، آٹا اسکینڈل، ادویات اسکینڈل، پٹرول اسکینڈل میں ملوث اسی منجی تلے چھپے ہوئے ہیں۔ اور تو اور جب پنڈورا لیکس میں چند اپنے پردہ نشینوں کے نام سامنے آئے تو احتساب کا قانون ہی بدل ڈالا۔ احتساب کے ادارے کے سینگ توڑ کر اس کو اپنی منجی کے ساتھ رسی سے باندھ دیا۔ ایک آخری نعرہ بچا تھا مگر منجی نشین نے اس سے بھی منہ موڑ لیا۔

مگر ریت میں سر چھپانے سے خطرہ ٹل تو نہیں جاتا اور آنکھیں بند کر لینے سے بلی بھاگ تو نہیں جائے گی۔ اوکھلی میں سر دے ہی دیا ہے تو پھر موسل کا کیا ڈر۔ یہ تو طے ہے کہ جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی ہے کبھی نا کبھی تو ان کا حساب ہو گا۔ اب نہیں ہو گا تو پھر کبھی ہو گا مگر ہو گا ضرور۔ کیونکہ آفاقی اصول ہے کہ دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس وقت ایسی اندھیر نگری ہے کہ پورا راج ہی چوپٹ ہو گیا ہے۔ نا تو چل پا رہے ہیں اور نا ہی رک سکتے ہیں۔ نا اہلی اور نالائقی کی نئی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ لانے والے بھی پریشان ہیں اور لائے جانے والے بھی الجھنوں کا شکار ہیں۔

اضطراب ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے تناؤ ہے کہ کم ہی نہیں ہو رہا۔ پریشان حال عام کی سرگوشیاں بلند آوازوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا۔ جو کچھ ہو رہا ہے یہ تو کسی نے نہیں مانگا تھا اس کی خواہش کس نے کی تھی؟ ہر آنے والا دن نئے امتحان لا رہا ہے۔ اس قدر آزمائشیں کہ اللہ کی پناہ۔ اتنی تیاری تو کسی نے نہیں کی تھی نا لانے والوں نے نا آنے والوں نے۔ شاید اسی لیے ایک سمجھدار نے کہا تھا کہ ہم آپ کو نہیں گرائیں گے بلکہ آپ خود گریں گے۔

کوئی ہے جو دیکھے کہ مہاتما کا سیاسی ویژن ڈوب رہا ہے۔ امیدوں کا ہمالیہ زمین بوس ہو رہا ہے۔ کسی کے کندھے پر بیٹھ کر خود کو سب سے بلند سمجھنے کی خوش فہمی اس قدر زیادہ ہوئی کہ ایک تعیناتی پر اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کر ڈالا اور یہ اظہار گلے پڑ گیا۔ شاید اسی لیے میر ظفراللہ جمالی نے کہا تھا کہ جو لاتے ہیں وہ گھر بھی بھیج دیتے ہیں اور اسی لیے حالیہ تعیناتی پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنے پر لانے والوں نے منجی ٹھوک دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments