محمد حسن ٹیچر اور لائن آف کنٹرول پر قائم سکول کی کہانی


5 اکتوبر کے دن کو عالمی سطح پر ”استاد کا دن“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیمی شعبے کو ویسے ہی خاص توجہ حاصل نہیں ہے اس پر مستزاد اساتذہ کو نہ ہی سماجی اور معاشی کوئی خاص مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ استاد کی ملازمت کو آخری ترجیح دیتے ہیں۔ جس کا افسوس ناک نتیجہ یہ نکلا کہ معیار تعلیم بھی وہ نہ رہا جس کا وہ متقاضی ہے۔

ادھر یہ بحث بھی روز بہ روز شدت پکڑ رہی ہے کہ کیا دھرا نظام تعلیم ممد و معاون ثابت ہوا یا کہ مزید طبقاتی تقسیم کا ذریعہ بن گیا ہے۔ حکمران طبقے نے اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے ملک میں ایسے نظام تعلیم کی پشت پناہی کی جس میں ان کا مفاد مقدم تھا۔ اسی لئے زراعت پیشہ، مزدور اور عام آدمی کے لئے تعلیم کی وہ سہولیات فراہم نہیں کی گئیں کہ عام آدمی بھی ہیئت مقتدرہ اور فیصلہ سازی میں شریک ہوں۔ اچھے تعلیمی ادارے اور مواقع صرف اشرافیہ کی دسترس میں ہیں اور وہی طبقہ مالی، معاشی اور اقتدار کے مزے اٹھاتا ہے۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن سردست ایک ایسے استاد کی کہانی میرے پیش نظر ہے جس کا حوصلہ اور عزم کسی اور دنیا کی کہانی بیان کرتا ہے۔

محمد حسن کا تعلق گنگنی کھرمنگ سے ہے اور یہ بلتستان کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر آخری سرحدی گاؤں ہے۔ برصغیر کی تقسیم یعنی 1947 سے پہلے اسی گاؤں سے کارگل اور لداخ کو جانے والا راستہ گزرتا تھا۔ 1947 کے بعد سے 1965، 1971 اور پھر 1999 کی کارگل جنگ کے دوران اس چھوٹے سے گاؤں کی سماجی زندگی کئی بار تہ و بالا ہوئی ہے۔ چھوٹے چھوٹے ڈھلوانی کھیت، میٹھے خوبانی کے درخت اور اور مٹی کے بنے مکان کئی بار اجڑے اور ویران ہوئے لیکن زندگی کی امید برقرار رہی۔ محمد حسن یہی پر پرائمری سکول کا ٹیچر ہے اور سکول بھی ایسا کہ جس کی نہ دیواریں ہی اور نہ ہی کوئی چھت بلکہ لائن آف کنٹرول کے ساتھ جڑا ہوا کھیت کا ایک کنارہ۔

محمد حسن کی استاد بننے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ چودہ جماعت پاس کرنے کے بعد روزگار کے سلسلے میں در در کی ٹھوکریں کھائی کیونکہ علاقے میں روزگار تھا ہی کہاں۔ کسی طرح سے محکمہ صحت میں ہیلتھ اسسٹنٹ کی نوکری ملی اور وقتی طور پر تو ٹھہراؤ رہا مگر کہیں پیچھے لاشعور میں بے چینی مترشح تھی جو سکون سے رہنے نہیں دیتی۔ ابھی ملازمت کو ڈیڑھ سال ہوا تھا کہ پتہ چلا گنگنی گاؤں کے لئے ٹیچر کی پوسٹ اناونس ہوئی ہے۔

ٹسٹ دیا اور پاس ہوا۔ انٹرویو کی کہانی بھی ایک دلچسپ واقع ہے۔ ان دنوں محمد حسن میموش کھرمنگ میں تھا، پتہ چلا کہ طولتی میں مانیٹرنگ ٹیم نے انٹرویو کے لئے بلایا ہے۔ محمد حسن کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ توسیع کے حوالے سے میموش سے طولتی تک سڑک زیر تعمیر تھی اور پبلک ٹرانسپورٹ بالکل نہ تھی۔ محمد حسن کے پاس ایک سہراب سائیکل تھی انھوں نے اللہ کا نام لیا اور میموش گاؤں سے نکل پڑے۔ راستہ بہت دشوار، غیر ہموار اور پتھریلا تھا اور ایک جانب دریائے کرگل اور پھر سندھ، خوف کی ایک کیفیت ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ ایک اور ساتھی راستے سے ہمراہ ہوا اور ٹارچ کی روشنی میں لمحہ لمحہ آگے بڑھنے لگے۔

طولتی پہنچتے ہی رات ہوگی، بہ مشکل ایک دیسی ہوٹل میں چارپائی ملی۔ رات نیند نہیں آئی اور جاگ کر گزاری، صبح تڑکے جیسے تیسے سبز چائے اور دیسی روٹی ( کھو ربا) سے ناشتہ کیا اور طولتی سکول کی راہ لی۔ وہاں جاکر پتہ چلا کہ انٹرویو تو سکردو رکھا گیا ہے، اب کیا کریں۔ شومئی قسمت دیکھئے کہ جلدی میں کوئی لوڈنگ گاڑی ملی اور بروقت سکردو پہنچا۔ آرمی کی مانیٹرنگ کمیٹی کے تحت انٹرویو ہوا اور محمد حسن کی قسمت جاگ اٹھی اور بطور ٹیچر سلیکٹ ہوئے۔

گاؤں کا سکول کارگل جنگ کے دوران گولہ لگنے سے بری طرح متاثر ہوا تھا اور گاؤں والے گنگنی سے کافی پیچھے برسیل چھو میں مقیم تھے۔ وہیں پر ٹینٹ سکول پر بچوں کو پڑھانا شروع کیا ابتدا میں پچیس بچے تھے۔

2015 میں 20 گھر واپس گنگنی آ کر آباد ہوئے لیکن انڈیا کی ساتھ لگی ہوئی فوجی پوسٹوں سے سرخ جھنڈا آویزاں کر دیا گیا جو کہ خطرے کی علامت تھا۔ گاؤں والے ایک بار پھر گنگنی سے پیچھے جاکر خیمہ زن ہوئے۔ پھر شاید ریاستی سطح پر بات ہوئی ہو گئی انہیں پھر سے گنگنی جانے کی اجازت ملی۔ تب سے اب تک محمد حسن لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ لگے ہوئے کھیت کے کنارے اوپن جگہ پر پرائمری سکول میں بچوں اور بچیوں کی مشترکہ کلاس کو پڑھا رہا ہے، سردیاں ہو یا گرمیاں اس کا جذبہ جواں اور بلند ہمت رہتا ہے۔

سکول میں اور کوئی ٹیچر نہیں ہے لہذا اس کی بیگم جو پڑھی لکھی ہیں بھی پڑھانے میں اس کی مدد کرتی ہے۔ اب گاؤں کے کنارے سکول کی نئی عمارت بن رہی ہے۔ محمد حسن کی کوشش ہے کہ گنگنی سے 1965، 1971 اور 1999 کی جنگوں کے دوران جو لوگ سکردو اور دیگر جگہوں پر جاکر بس گئے ہیں وہ واپس گنگنی آ کر آباد ہوں تاکہ اس چھوٹے سے گاؤں کی وہیں پرانی رونقیں بحال ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments