ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام



ڈاکٹر عبدالقدیر خان مشکل حالات سے لڑتے لڑتے آخر کار داعی اجل کو لبیک کہہ گئے، نظر بندی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی ان کی متواتر درخواستیں اب بند ہو جائیں گی، ان کی یہ خواہش بھی کہ ملک کے اعلی ’عہدیداروں میں سے کوئی ان کی مزاج پرسی کر لے اب اختتام کو پہنچی، البتہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے پیروکار وزیراعلی‘ سندھ کا بھیجا گیا پھولوں کا گلدستہ اور ان کی صحتیابی کے لیے لکھا گیا رقعہ ان کے لیے تقویت کا باعث ضرور بنا، ملک کے وزیراعظم سے لے کر وزرائے اعلی ’تک نے خود کو تدفین کی رسومات سے دور رکھا، صرف وزیر اعلی‘ سندھ تھے جنہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تدفین میں شرکت کی۔

یادداشت تازہ کرنے کے لیے 70 کی دہائی میں چلا جائے تو پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا خواب دکھانے والے ذوالفقار علی بھٹو شہید کا تر و تازہ اور پر عزم چہرہ نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو شہید کے ذہن میں جنم لینے والا خواب ہی تھا جسے عملی جامہ پہنانے کا اختیار کل بھٹو صاحب نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سپرد کیا تھا۔

70 کی ناقابل فراموش دہائی جب پاکستان انڈیا کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے دو چار ہو کر پاوں پر کھڑے ہونے کی کوشش میں مصروف تھا، ہتھیار پھینک کر انڈیا کی فوج کو گرفتاریاں دینے پر فوج کا جوش و جذبہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا، کمزور معیشت میں توانائی پھونکنے کے لیے دفاع پر اٹھنے والی خطیر رقم کا خرچ کم کرنے کے کے لیے ایٹمی صلاحیت کے حصول کو بڑا ذریعہ سمجھا جا رہا تھا۔ پختہ قیاس تھا کہ ایٹم بم کی تیاری میں کامیابی نہ صرف ہتھیاروں کی خریداری کی دوڑ کو سست کرے گی بلکہ دفاع پاکستان کو بھی ناقابل تسخیر بنائے گی، صبح و شام اسلام کو خطرے سے لے کر ملک کی سلامتی کو در پیش خطرات کا رونا تھم سکے گا اور توانائیاں ملکی دفاع سے معاشی ترقی کی جانب منتقل ہو سکیں گی۔

نتائج خلاف توقع برعکس رہے، نہ تو ہتھیاروں کی خریداری کی دوڑ تھمی، نہ ہی دفاع پاکستان کو لاحق خطرات کے شور شرابے میں کوئی کمی واقع ہوئی، ملک و ملت اور قلعہ اسلام ہر گزرتے دن چلائی جانے والی خبروں کے مطابق اضافی خطرات سے دوچار ہے۔

ملک کو درپیش خطرات اور ان میں اضافے کا ڈھنڈورا ایک طرف بھٹو شہید کی خواہش پر ترتیب دیے گئے ایٹمی پراجیکٹ کے ہیرو کی کردارکشی بھی انہی ہتھیار بند طاقتور حلقوں کی جانب سے کی گئی جنہیں ناقابل تسخیر بنانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنا دن رات ایک کیا۔

ڈاکٹر صاحب فزیسسٹ نہیں تھے میٹالرجیکل انجینیئر تھے یہ بات سب جانتے ہیں اور یہ بھی کہ میٹالرجیکل انجینیئر اپنے ساتھ کام کرنے والے تمام فزیسٹ پر بھاری تھا، دنیا بھر سے اپنی لیبارٹری کے لیے پرزے جمع کرنے انہیں جوڑنے اور مطلوبہ شکل دینے کے لیے اپنی ٹیم کی رہنمائی کی تمامتر ذمہ داری ڈاکٹر صاحب کی تھی۔

ڈاکٹر صاحب کو اس بات کا احساس ضیاء آمر کے ہاتھوں بھٹو صاحب کی گرفتاری اور ضیاء آمر کی خواہش پر بعد ازاں پھانسی دیے جانے پر بخوبی ہو گیا ہو گا کہ ان کے بے لوث اقدامات بے حد نامناسب فضاء اور ملک و قوم پر ذاتی انا کو فوقیت دینے والے بے حسوں کے حصار میں جکڑے جا چکے ہیں۔

ایسے بد بخت جو ملکی دفاع ناقابل تسخیر بنانے کا خواب دیکھنے والے کو پھانسی چڑھا سکتے ہیں وہ کامیاب ایٹمی تجربہ کرنے والے وزیراعظم نواز شریف کو ملک بدر بھی کر سکتے ہیں لہذا ان سے یہی توقع رکھنی چاہیے کہ انہی میں سے کوئی پرویز مشرف اٹھ کر خود ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی عبرت کی مثال بنا سکتا ہے اور ہوا بھی یہی کہ ایک روز ڈاکٹر صاحب ٹی وی اسکرینز پر بندوق کی نال کے زیر اثر بیٹھے عروج کی انتہا سے پستی میں گرتے نظر آئے، یہ ممکن تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو اعترافی بیان نہ دینے کی صورت میں گرفتار کر کے ان کی جان کے پیاسوں کے سپرد کر دیا جاتا۔

میری معلومات کے مطابق ڈاکٹر صاحب تحریری طور پر پاکستان کے لیے ایٹم بم بنانے کے اپنے گناہ کا اعتراف ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کو لکھے اپنے ایک خط میں کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقدیر فزیسسٹ تھے یا میٹالرجسٹ، ایٹمی صلاحیت خالصتاً پاکستانی ریسرچ پر مبنی ہے یا ادھر ادھر سے توڑ جوڑ کر کے اکٹھی کی ہوئی، ڈاکٹر عبدالقدیر اکیلے اس منصوبے کے ذمہ دار تھے یا منصوبے سے متعلق دیگر سائنسدان ان سے زیادہ پذیرائی کے مستحق ہیں ایسی باتیں ہیں جو اپنے اندر کی کسی خلش کو اطمینان بخشنے کے لیے تو ہو سکتی ہیں لیکن یہ وہ ایٹمی پروگرام ہے جس کے کامیاب تجربے نے ساری دنیا میں ہلچل مچا دی تھی، جس کا فخر بہرحال ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہے اور رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments