لو تہ خاک تم سما بھی گئے



ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات آنے والی نسلیں بھی فراموش نہ کرسکیں گی۔

28 مئی 1998۔ ملکی تاریخ کا وہ اہم ترین دن جس کو اس ملک کا کوئی بھی زی ہوش محب وطن پاکستانی کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ بظاہر اس دن کی ابتدا بھی ایک عام دن جیسی ہی تھی، سورج معمول کے مطابق اپنی ڈگر پہ رواں دواں تھا، لوگ باگ روزمرہ کے کاموں میں معمول کی طرح مصروف تھے کہ چاغی کی پہاڑیوں میں گونجنے والے ایٹمی دھماکے کی آواز نے دنیا بھر کو ایک دم پاکستان کی جانب رخ کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس دھماکے کی گونج نے جہاں پاکستان کو اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنا دیا وہیں سرزمین پاکستان کی جانب اٹھتے دشمن کے ناپاک قدموں کو بھی اپنا رخ بدلنے پر مجبور کر دیا کہ اب اگر کسی نے پاکستان کی جانب میلی آنکھ سے دیکھا تو ہم بھی اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی قوت حاصل کرچکے تھے۔

ملک و قوم کو اس موقع پر ایٹمی طاقت بن جانے پر حکومت کی جانب سے بہت سی مبارکبادیں پیش کی گئیں لیکن اس ایٹمی دھماکے کے پیچھے جس شخص کا ہاتھ تھا یا یوں کہیں جس انسان کی شب و روز کی محنت نے ملک و قوم کو یہ دن دکھایا تھا اس کی عظمت کے تو کیا ہی کہنے تھے۔ یہ انسان یا یوں کہ لیں محسن پاکستان۔ جن کا نام تھا ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھا جنھوں نے دن رات محنت کر کے اور ملک و قوم، کی فلاح و بہبود کی خاطر مال و دولت کے بیش بہا خزینوں کو لات مار دی او ہالینڈ کی پر آسائش زندگی کو چھوڑ کر اپنا مستقل مسکن اور کام کرنے کی جگہ پاکستان کو چنا۔

یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی تھے جنھوں نے ہزار ہا مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر دم لیا اور پاکستان دنیا بھر میں ساتویں اور اسلامی ممالک کی فہرست میں پہلا ایٹمی طاقت کا حامل ملک قرار پایا۔ یوں کہا جائے تو بھی غلط نہ ہو گا کہ اگر آج ہم اس ملک میں چین کی سانسیں لے رہے ہیں اور ہمیں دشمن کے ناپاک ارادوں سے کسی طرح کا کوئی خوف لاحق نہیں تو اس کی وجہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کے ارکان ہی ہیں

یہ تو تھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی انسان سے محسن پاکستان بننے کی مختصر داستان۔ لیکن کہانی یہاں مکمل نہیں ہوتی۔ یہاں ہم نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے اس ہیرو کے ساتھ ماضی میں بہت زیادتی کی گئی، ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے اس سائنسدان کو سیاسی مصلحتوں کے تحت بہت سی سختیاں جھیلنی پڑیں ان کو حبس بے جا میں بھی رکھا گیا، ان کے کچھ ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ہاؤس اریسٹ بھی کیا گیا، یہ ہی نہیں ان کو نیشنل ٹیلیوژن پر معافی نامہ بھی پڑھنے پر مجبور کر دیا گیا۔

یہ وہ وقت تھا کہ جب اس لمحے کے بارے میں سوچتے ہیں بحیثیت ایک محب وطن پاکستانی کے ہمارا دل بھی کانپ اٹھتا ہے تو سوچیں ڈاکٹر عبدالقدیر کے روح و دل پر اس وقت کیا گزری ہوگی جب انھوں نے دنیا کے سامنے اپنے ناکردہ گناہوں کا اعتراف کیا ہو گا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت اور اس واقعہ کا روشن پہلو ہے کہ عوام کے دلوں پر اس واقعے نے خاطر خواہ اثر ہرگز نہیں ڈالا اور ان کے دلوں میں ڈاکٹر صاحب کی عزت و حرمت روز روشن کی طرح برقرار رہی، اور عوام الناس نے ان کی معافی کو محض سیاسی بھیڑ چال کا پیش خیمہ سمجھا اور دل و دماغ سے نکال بھی دیا۔ عوام کے لیے ڈاکٹر صاحب ایک ہیرو، ایک بڑے دل کے روشن دماغ انسان تھے اور ہمیشہ رہیں گے انھوں نے ملک و قوم کی سلامتی کی خاطر اپنی زبان ہمیشہ

بند رکھی اور یہاں تک کہ وہ وقت آن پہنچا جب ڈاکٹر صاحب کی زبان ابد تک کے لیے خاموش ہی ہو گئی۔ جی ہاں یعنی 10 اکتوبر 2021 کا دن بھی ملک کی تاریک کے سیاہ ترین دنوں میں رقم ہو گیا کیوں کہ اس دن محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس جہان فانی کو چھوڑ کر اپنی ابدی آرام گاہ میں جا سوئے۔ عظمت و دیانت کا ایک روشن باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب کرونا کا شکار ہونے کی وجہ سے کئی روز سے وینٹی لیٹر پر تھے اور اور آخر کار آج کے دن انھوں نے اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہ دیا۔

بات یہ نہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس دنیا سے چلے گئے۔ جانا تو ہم سب ہی کو ہے مگر اہم یہ ہے کہ انھوں نے دنیا میں اپنی مرنجاں مرنج طبیعت اور نرم سبھاؤ کی وجہ سے کتنے دکھ اٹھائے۔ کاش جانے سے پہلے حکومت کی جانب سے ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کی مزاج پرسی ہی کرلی جاتی تو اس عظیم انسان کا دل کتنا بڑا ہوجاتا۔ لیکن کیا کہیے کہ عوام اور حکومت کی سوچ کب ایک نقطے پر متفق ہوئی ہے سو یہ عوامی خیال تھا کہ حکومت کی جانب سے ڈاکٹر صاحب کو ان کی زندگی میں خراج تحسین پیش کر دیا جاتا مگر ۔

یہ ہو نہ سکا۔ آج ڈاکٹر کے سفر آخر کے مناظر دیکھ کے یہ احساس ہوا کہ انسان بڑا وہ ہے جسے اس کے جانے کے بعد بھی لوگ جاتا ہوئے دیکھ نہ پائیں۔ یہ ہی حال ڈاکٹر عبدالقدیر کے جنازے کو دیکھ کے ہوا اور بے اختیار دل سے یہ دعا نکلی کہ یارب اس ٹوٹے دکھے دل کے انسان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دینا اور اس کے دل سے تمام دکھ اور ملال کا خاتمہ کر دینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments