انسان: وباؤں اور کٹھنائیوں کے درمیان اور عظیم صوفی


سپیدہ صبح نمودار ہونے والا تھا دھندلکا آہستہ آہستہ چھٹ رہا تھا۔ کہیں کہیں آسمان پر ستارے ٹمٹما رہے تھے ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ پرندے ابھی گھونسلوں میں تھے۔ ان کے بچے ماؤں کے پروں کے نیچے گہری نیند سو رہے تھے۔ ابھی تھوڑی دیر بعد جب روشنی پھیلے گی تو پرندے اپنے اور اپنے بچوں کے رزق کی تلاش میں فضائے بسیط میں پھیل جائیں گے۔ کسی کیاری سے کسی کھیت سے ایک ایک دانہ اکٹھا کرنا اور پھر دور سے واپس آ کر بچوں کو چوگا دینا، پانی کا قطرہ قطرہ چونچ میں لانا اور اپنے جگر گوشوں کے حلق میں ٹپکانا ایک ماں کے لئے کتنا دشوار گزار کام ہے۔

میری ماں مجھے کہتی تھی ان پرندوں کو دیکھو انسانوں کا تو کہا جاتا ہے کہ ان کو اولاد سے لالچ ہے بھلا ان پرندوں کو کیا لالچ ہو سکتا ہے جب بڑے ہو کر اڑنے کے قابل ہوں گے تو پھر کون کس کا آشنا۔ ایک دوسرے کو پہچانیں گے بھی نہیں اور اپنی اپنی راہ پہ چل پڑیں گے۔ لیکن اس قدر مشقت اور تگ و دو کے باوجود پرندے کی زندگی ہے کیا دانہ پانی لاتے ہوئے کسی شکاری کی ہوس کا شکار ہو گیا تو پیچھے ماں کے انتظار میں بھوک کی تاب نہ لاتے ہوئے بچے آہستہ آہستہ گھونسلے میں دم توڑ دیں گے۔ ان کا تو پیچھے رونے والا بھی کوئی نہیں ہو گا، ویسے جانوروں پرندوں کو چھوڑیں آج غریب اور بے کس انسانوں کے لئے بھی رونے والا کون ہے۔

وہ بھی اسی طرح کی ایک صبح تھی۔ لوگ ابھی گہری نیند سو رہے تھے کہ بیس پچیس کڑیل جوان لاٹھیاں لیے ایک غریب آبادی میں داخل ہوئے ایک جوشیلا آدمی ان کی رہنمائی کر رہا تھا۔ وہ کچھ دیر بعد ایک بوسیدہ کچے مکان کے سامنے رکا، جہاں یہ بے شمار کچے مکانوں کی ایک لمبی لائن تھی۔ اس نے ایک مکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اس کذاب کی فیملی رہتی ہے۔ ان پرجوش جوانوں نے اس مکان پر ہلہ بول دیا۔ ایک ہی دھکے سے دروازہ ٹوٹ کے وہ گرا اور وہ سب مکان کے اندر داخل ہو گئے جہاں ایک نوجوان مرد اس کی بیوی اور بچے سو رہے تھے۔

وہ پریشانی کے عالم میں ہڑبڑا کر اٹھے اور اتنے بندوں کو دیکھ کر پریشان ہو گئے، مرد نے لڑکھڑاتی زبان میں پوچھا سرکار میرا جرم کیا ہے؟ ایک ڈانگ اس کے سر پر پڑی ابھی پوچھتے ہو میرا قصور کیا ہے پھر سب مل کر ان کو مارنا شروع کر دیتے۔ تمہارا باپ کدھر ہے۔ سرکار وہ تو دو ماہ قبل فوت ہو گیا ہے۔ وہ کمینہ ہماری مقدس کتاب کے اوراق پھاڑ کر ان پر تعویز لکھ کر لوگوں کو دیتا تھا۔ وہ ہماری مقدس کتاب کی بے حرمتی کر رہا تھا۔

وہ پھر ان کو مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان جوانوں کے چہرے جو ایمان سے منور تھے ایک زندیق کو دیکھتے ہی قہر آلود ہو گئے تھے۔ وہ اس کا جواب دینے کی بجائے اس پر لاٹھیاں برسانے لگے اور نعرے مارنے لگے ان کی لاٹھیوں سے اس کی بیوی بھی نہیں بچ پائی تھی۔ خاوند، بیوی دونوں لہو لہان ہو گئے تھے لیکن یہ نوجوان ان کو کسی طور بخشنے پر راضی نہیں تھے۔ یہ ایک غریب عیسائی فیملی تھی۔ ان کی ٹانگیں اور سارا جسم کانپ رہا تھا۔

ان کی درد ناک آہ و زاری اور ان کے بچوں کی دل ہلا دینے والی چیخیں آسمان تک جا رہی تھیں۔ لیکن معمول کے مطابق سورج طلوع ہو رہا تھا اور آسمان میں روشنی پھیل رہی تھی۔ پرندے آسمان میں تیرتے پھرتے تھے ہمسائے خوف کے مارے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے۔ دونوں خاوند، بیوی زخموں سے چور زمین پر پڑے تھے۔ ہر طرف خون پھیلا تھا۔ آخر کار ان لوگوں نے دونوں خاوند بیوی کو گھسیٹ کر گھر سے نکالا اور ٹرالی میں پھینک دیا اور فضا ایمان افروز نعروں سے گونج اٹھی۔

عبادت گاہوں میں اعلان ہو رہے تھے کہ ہم نے مجرم پکڑ لیے ہیں۔ ہم نے ان کو قرار واقعی سزا دینی ہے آپ اس نیک کام میں جوق در جوق اینٹوں کے مقدس بھٹے پر اکٹھے ہوں۔ اعلان سنتے ہی مختلف دیہاتوں کے لوگ ٹرالیاں بھر بھر کر نعرے مارتے مقدس کلمات کا ورد کرتے بھٹے پر پہنچنے لگے۔ جہاں تک نظر جاتی تھی دھرم سے پیار کرنے والوں کا ایک ہجوم تھا خاوند بیوی کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے اور انہیں ایک ستون سے باندھ دیا گیا تھا۔

مجمع سے آوازیں بلند ہو رہی تھیں ان کے بازو کاٹ دیں، کوئی کہتا ان کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ پھر لاؤڈ سپیکر پر ایک برگزیدہ مذہبی پیشوا کی آواز گونجی کہ ہمارا متفقہ فیصلہ ہے کہ ان کا جرم نا قابل برداشت ہے انہوں نے اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے کہ ان کا زندہ رہنا ہمارے دھرم کے لئے ایک چیلنج، ہمارے ایمان کی توہین اور ہماری غیرت کا امتحان ہے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان دونوں کو زندہ جلا دیا جائے مجمع سے خوشی کے نعرے بلند ہوئے جو آسمان کو چھو رہے تھے۔

آگ کی بھٹی تیار تھی۔ جب بھٹی کا الاؤ روشن ہوا تو دونوں کو بندھے ہوئے ہاتھ پاؤں کے ساتھ جلتی بھٹی میں زندہ حالت میں پھینک دیا گیا ان کی چیخیں آسمان تک سنائی دے رہی تھی لیکن آسمانوں سے کب کوئی جواب آیا ہے اور وہ تو مجرم تھے کوئی اوتار بھی تو نہیں تھے کہ آگ بجھ جاتی یا پھول بن جاتی۔ یا کسی پر کوئی قہر نازل ہوتا۔

میرا بیٹا دبے پاؤں آ کر میرے پاس بیٹھ گیا تھا وہ مجھ سے پوچھنے لگا بابا آپ رو کیوں رہے تھے آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں۔ بیٹے میں نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا ہے جو دیکھنا تو ایک طرف رہا سنا بھی نہیں جا سکتا ہے پھر میں نے دھیرے دھیرے اس کو یہ مقدس لوگوں کا کارنامہ سنایا۔ بابا یہ تو بہت ظلم ہے بیٹے یہ صرف ظلم نہیں افسوس تو یہ ہے کہ یہ ہزاروں سال پرانی بات نہیں یہ سب کچھ ہمارے درمیان اس روشن خیال دور میں آج ہو رہا ہے اور خواب سا دکھائی دیتا ہے۔ آپ اندازہ کر لیں کہ جب خاوند بیوی کے ہاتھ، پاؤں، سر ان کی آنکھیں ان کے جسم کا ایک ایک عضو الاؤ میں کاغذوں کی طرح جل کر راکھ ہوا ہو گا تو ان پہ کیا بیتی ہو گی اس سے زیادہ انسان کی بربریت اور شیطنت کیا ہو سکتی ہے۔

میرا بڑا بیٹا سمجھانے کے باوجود میری تیمارداری کے لئے اکثر میرے پاس آ کر بیٹھ جاتا ہے۔ کرونا کی وہا دنیا میں ایسے پھیلی کہ دہلیز پار کر کے ہمارے گھر کے اندر بھی داخل ہو گئی ہے اور مجھے اپنا شکار بنا لیا ہے۔ میں نے خود کو علیحدہ کمرے میں مقید کیا ہوا ہے۔ چھوٹا بیٹا جب ضد کرتا ہے کہ بابا کے پاس جانا ہے تو اسے بہ امر مجبوری دروازے تک لے آتے ہیں وہ میری طرف لپکتا ہے میں کروٹ لے کر منہ دوسری طرف کر لیتا ہوں اور میرا کلیجہ پھٹ رہا ہوتا ہے کہ یہ کیسی آفت ہے کہ میں اپنے جگر گوشے کو ساتھ نہیں بٹھا سکتا، اپنے سینے سے نہیں لگا سکتا، پیار نہیں کر سکتا، اشارہ کرتا ہوں کہ اسے لے جاؤ وہ روتا ہوا چلا جاتا ہے اور میری آنکھوں سے برسات شروع ہو جاتی ہے۔

والدین کے لئے بچوں کا دکھ اور بچوں کے لئے والدین کا دکھ کتنا غمزدہ کر دیتا ہے کمزوری بے انتہا ہو گئی ہے کوئی چیز کھانے کو دل نہیں کرتا سانس لینا دشوار ہو گیا ہے۔ کبھی رات کو آنکھ کھلتی ہے تو بڑا بیٹا میرے پاؤں دبا رہا ہوتا ہے۔ میں اسے سمجھاتا ہوں کہ بیٹا میری اب فکر نہ کرو میں نے اب زندہ نہیں رہنا اور ایسے سماج میں اب زندہ رہ کر کرنا بھی کیا ہے۔ وہ کہتا ہے بابا آپ کے سوا ہمارا اور کون ہے۔ نہیں بیٹے ایک تو تم خود کو اس وبا سے دور رکھو میری تیمارداری کی زیادہ ضرورت نہیں۔

میری بات غور سے سنو جذباتی نہیں بننا اب میں نے بچنا نہیں ہے میری فکر بالکل نہ کرو میں مر کر پھر اسی دنیا میں واپس آؤں گا۔ میں صدیوں کا انسان ہوں۔ صدیاں میری آتما میں شامل ہیں۔ کتنی صدیاں گزریں کتنے جنموں کے بعد دوبارہ انسان کی شکل میں آیا ہوں کبھی پرندوں میں کبھی کیڑوں مکوڑوں میں، کبھی جانوروں میں، کبھی انسانوں کی شکل میں آتا رہا ہوں ہر جنم دوسرے جنم سے مختلف ہے لیکن قدرت کی ہر تخلیق کی تکلیف سے گزرا ہوں کتنی شکلیں بدلی ہیں۔

کتنے دھرم بدلے ہیں۔ مجھے تو کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ نہ آج شانتی ہے نہ صدیوں قبل شانتی تھی۔ چرند پرند ہوں یا انسان ہر زمانے میں بے توقیر بے وقعت رہے ہیں۔ سارے جنموں کے دکھ اور سکھ میرے شریر کا حصہ ہیں۔ ایک مرتبہ ایک کتا میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور مجھے بڑی دیر تک حیرانی سے دیکھتا رہا مجھے سمجھ آ گئی کہ وہ کیا کہنا چاہتا تھا کہ تمہارے اندر کون سے گن ہیں کہ تو انسان بنا پھرتا ہے اور میں نے کون سا اتنا بڑا جرم کیا تھا کہ مجھے کتا بنا دیا گیا۔ میں نے اسے کہا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہماری شکلیں مختلف ہیں لیکن ہمارے دکھ ایک جیسے ہیں۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ہزاروں سال پہلے ہمارا تعلق کھتری خاندان کے ساتھ تھا ہمارا کام سپہ گری تھا سماج میں ہماری کچھ عزت تھی لیکن نچلی ذات کے لوگوں کی زندگی حیوانوں سے بھی بدتر تھی۔ ان کی جھونپڑیاں دور بنائی جاتیں جو اکثر بارشوں کی زد میں رہتیں۔ ان کے پانی کے کنویں الگ تھے انہیں مقدس کلمات سننے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ وہ کسی اعلی ذات کے ساتھ پوجا پاٹ میں بھی شامل نہیں ہو سکتے تھے۔ ایک دن میرا ایک مندر سے گزر ہوا دیکھا کہ کچھ مقدس لوگ ایک شودر کو گھسیٹ کر لا رہے ہیں انہوں نے اس کو ٹانگوں سے پکڑا ہوا ہے اس کو مارتے اور اس کا سر زمین پر پٹختے آ رہے ہیں۔

ٹوٹے برتنوں کے ٹکڑوں اور پتھروں سے ٹکراتا ہوا اس کا سر لہو لہان ہو گیا ہے۔ قربان گاہ تک لاتے لاتے وہ بے سدھ ہو گیا ہے۔ جب برہمنوں کے پیشوا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ اعلان کرتا ہے کہ ہم جب اشلوک پڑھ رہے تھے تو ان کے مقدس کلمات اس ملیچھ کے کانوں میں پڑے ہیں اور یہ مقدس کلمات سننے کا مجرم ہے چنانچہ میں حکم دیتا ہوں کہ سیسہ پگھلا کر اس کے کانوں میں ڈالا جائے۔ مرے کو مارے شاہ مدار وہ پہلے ادھ موا ہو چکا تھا تھوڑی دیر میں پگھلا ہوا سیسہ اس کے کانوں میں اتار دیا جاتا ہے اور اس کے تڑپتے لاشے کو ایک طرف پھینک دیا جاتا ہے۔ پگھلا سیسہ پڑتے ہی وہ بلبلا اٹھتا ہے اور اس کی چیخیں سن کر کوے اور گدھ بھی نیچے اتر آتے ہیں۔

بابا تب سے ایسے ہی ہو رہا ہے۔ بیٹا ازل سے ہی کمزور انسانوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہو رہا ہے دھرم کے پجاریوں نے ہمیشہ طاقت وروں کا ساتھ دیا ہے ان کا سارا ظلم کمزور پر پڑتا ہے۔ آپ چاروں طرف نظر دوڑائیں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ ان کے کارناموں سے انسانی تاریخ لہولہان ہے۔ دھرم کے نام پر کروڑوں انسانوں کو ذبح کیا گیا جبکہ دھرم کی بنیاد امن اور محبت ہے۔ لیکن ہوتا یہی رہا ہے

بابا آپ زیادہ نہ سوچا کریں آپ کی صحت دن بدن گر رہی ہے ہمیں تو اس وقت آپ کی فکر ہے۔

بیٹے یہ وبا اور بیماری بہت خطرناک ہے میں آپ کو بتانا نہیں چاہتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرا زندہ رہنا اب مشکل دکھائی دیتا ہے۔ بیماری نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ بیٹا رونے لگتا ہے۔ میں اسے تسلی دیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ تمہاری دادی جب اپنی عبادت مکمل کر کے دعا کرتی تھی تو ہمیشہ یہ مختصر دعا مانگتی تھی۔

”میرے پالنہار بچا ہر مصیبت، ہر درد، ہر مرض سے ہر انسان کو اور میرے چھوٹے سے کنبے کو“ ۔

میں تم سے پوچھتا ہوں بیٹے یہ انسان کون ہے؟ تمہارے امی ابو یا ان کے امی ابو تمہارے رشتہ دار تمہارے دھرم کے بندے تمہارے ملک کے لوگ بالکل نہیں تمہیں اس چھوٹے دائرے سے نکل کر انسانوں کے بڑے دائرے میں داخل ہونا ہے جو تمہیں مچھیروں کی بستیوں میں ملیں گے غریبوں کے کچے گھروندوں میں ملیں گے۔ جہاں غربت ان پر بارش کی طرح برستی ہے۔ وہ تمہیں پوش علاقوں میں دشمن ملک میں سات سمندر پار الاسکا سے ٹوکیو تک جگہ جگہ ملیں گے۔

تمہیں ان میں باپ کی شفقت اور ماں کا پیار ملے گا اور جگہ جگہ ملے گا۔ ہم نے تو تمہیں صرف اپنے پاؤں پر کھڑا کیا ہے ان اڑتے پرندوں کی طرح اصل میں یہی تمہارا کنبہ ہے۔ میری گرتی صحت دیکھ کر اور میری باتوں سے اس کی ہمت جواب دے گئی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس وبا نے انسان کو اتنا بے بس اور لا چار کر دیا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو سینے سے لگاتے ہوئے بھی ڈر رہا تھا میں اسے تسلی دے رہا تھا کہ بیٹا ماں باپ سدا زندہ نہیں رہتے۔

ماسوائے تسلی دینے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ تم انسان سے محبت کرو وہ افریقہ کے کالے ہوں یورپ کے گورے یا ایشیا کے براؤن اور ییلو ہو وہ مسلمان ہوں عیسائی ہوں یہودی ہوں ہندو ہوں زرتشی ہو یا بدھسٹ کسی بھی دھرم کے ماننے والے یا نہ ماننے والے کوئی بھی سوچ رکھنے والے وہ سب انسان ہیں تم نے ان سب سے اپنا تعلق جوڑنا ہے۔ بابا آپ نے دیکھا تھا جب انڈیا کی سڑکوں اور گلیوں میں کورونا کی وجہ سے جگہ جگہ انسانی لاشیں پڑی تھیں اور ان کا کوئی وارث نہیں تھا اس طرح جیسے مرے ہوئے جانور پڑے ہوں اور اتنی تعداد میں تھے کہ ان کو دیکھ کر خوف آتا تھا لیکن لوگ کس طرح خوش ہو رہے تھے۔ بیٹا یہ ہمارے اندر کا وحشی ہے جسے ہر صورت ختم کرنا ضروری ہے۔

بیٹے تم اپنے باپ کے لئے پریشان ہو مجھے وہ انسان نہیں بھولتا ہزاروں سال قبل جس نے اپنے من کی شکتی کے لئے اس دنیا سے ہر قسم کی محبت کو خیر باد کہا تاج و تخت چھوڑا، والدین کو چھوڑا، بیوی اور اپنا نوزائیدہ بچہ چھوڑا، محل چھوڑا اور اس ازلی حقیقت کی تلاش میں نکل پڑا۔ پہاڑوں میں جنگلوں میں سرگرداں پھرتا رہا مسلسل فاقہ کشی کی اس نے اپنی آتما کو نفی کر دیا۔ پرندوں جانوروں اور مچھلیوں کی آتما بنا اس نے دھرتی کی ہر ذی روح کی آتما کے احساس کو اپنی ذات کا حصہ بنایا گوتم نے کہا نہ میں نے تخلیق کائنات اور اس کے اسباب پر روشنی ڈالنی ہے نہ روح کی وضاحت کرنی ہے نہ کائنات کے لا متناہی سلسلے اور اس کی تباہی پر بات کرنی ہے میری تمام تر توجہ کا مرکز انسان ہے جب ہر طرف ذات پات کی آندھیاں چل رہی تھیں اس نے کہا انسانوں کی تقسیم بے معنی ہے اس نے انسان کی محبت کو اپنا مرکز بنایا اس نے کہا اپنے من کو اندر سے صاف کرو اس نے انسان کی سر بلندی کے لئے اس وقت آواز اٹھائی جب انسانی مساوات کا تصور بھی نہیں تھا۔

اس نے کہا یہاں کوئی بڑا چھوٹا نہیں، دوسرے انسانوں کے لئے ایثار اور نیکی کا راستہ اپناؤ جو بال سے باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ اس نے کہا میری آرزو ہے کہ ہر جاندار کے لئے ہے وہ کمزور ہو یا مضبوط بڑا ہو یا چھوٹا دکھائی دے یا نہ دے وہ سچی خوشی سے سرشار ہو ان کے لئے اپنے من میں پریم کی جوت جگائے رکھو جس طرح ایک ماں ساری عمر اپنے اکلوتے بچے کو چاہتی ہے۔ آپ کی محبت اتھاہ ہو ساری دنیا کے لئے نجات کے لئے اپنے من کو صاف رکھو۔

اس نے کبھی تلوار نہیں اٹھائی کوئی جنگ نہیں لڑی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس کی تعلیمات دنیا کے نصف کرہ پر پھیل گئی میں نے کماکرا جاپان اور بامیان کے دیو قامت مجسموں کے سامنے بدھا کی تعلیمات اور اس کی عظمت کے سامنے سر نگوں کیا وہ عظیم انسان اور سچا صوفی تھا۔ افسوس دہشت پسندوں نے بامیان کے مجسموں کو ڈائنا میٹ سے اڑا دیا لیکن اس کے باوجود بدھا کی تعلیمات دور دور تک پھیل گئیں ان کے سامنے ملکوں کی سرحدیں نہیں ٹھہر سکیں کوئی ان دہشت پسندوں کو بتائے کہ ”تم گلدان کو تو توڑ سکتے ہو لیکن فضا پھولوں کی خوشبو سے پھر بھی رچی رہے گی“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments