ڈاکٹر عبد القدیر خان پاکستانی عوام میں پسند کی جانے والی سب سے ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔ آپ کسی بھی شخص سے ان کے بارے پوچھ لیں وہ ان کے بارے لازمی کسی نہ کسی سطح تک جانتا ہو گا۔ اور یہ تعارف مثبت ہی ہو گا کوئی ان کے بارے ایسی رائے نہیں رکھتا ہو گا جیسی دیگر معروف راہنماؤں کے بارے میں ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ان سے ہماری محبت ویسی ہی ہے جیسی محبت ہم اسلام اور پاکستان سے کرتے ہیں۔

پاکستان کی آبادی کا ستانوے فیصد مسلمانوں پہ مشتمل ہے۔ یہاں اسلام کے لیے جذبات میں ایک شدت موجود ہے۔ جس کا اظہار توہین رسالت کے موقع پہ دیکھی جا سکتی ہے۔ لوگوں کا ایک لگاؤ ہے جس کا اظہار یہاں کے مکاتب فکر کے اجتماعات سے لگایا جا سکتا ہے۔ محرم اور صفر کے مہینوں میں یہاں امام حسین ؑ کی لازوال قربانی کی یاد میں ہر جانب لوگوں کا سمندر امڈ آتا ہے۔ مجالس کا ایک وسیع سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ربیع الاول میں نبی پاک ﷺ کے میلاد کی مناسبت سے محافل کا اہتمام گلی گلی میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر فرقے کے اپنے اپنے سالانہ اجتماعات بھی مقرر ہیں جن میں عوام کی کثیر تعداد دینی تقاضا سمجھ کر جاتی ہے۔

اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود اسلام ہماری اجتماعی زندگی سے رخصت ہو چکا ہے۔ ہم عفو و درگزر سے کام نہیں لیتے، برداشت ہمارے رویوں کا حصہ نہیں بن سکی۔ ہم غلطی کر کے اس پہ ڈٹ جاتے ہیں۔ کبھی ندامت کا اظہار نہیں کیا۔ ہم دوسروں کی دل آزاری بھی روز کرتے ہیں۔ ہم نظم و ضبط سے خالی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ معاشرہ بڑوں کے احترام اور چھوٹوں سے شفقت سے خالی ہو گیا ہے۔ یہاں کا پسندیدہ کھانا کسی حقدار کا حق ہے۔ ہم نمائش کے لیے تو اسلام کو اپنا لیتے لیکن اسلام کی روح کو اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔

ستانوے فیصد جذباتی مسلمانوں کے ہاں اسلام کی روح خالق حقیقی کے پاس پہنچ گئی لیکن کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔ ہم نے کبھی اسلام کے روح کو تازہ کرنے کے لیے معاشرے میں ان اقدار کو زندہ کرنے کے لیے اپنے جذبہ ایمانی کو جنبش نہیں دی۔ نہ ہی ہم اسلام کو اپنے بازاروں میں لانے پہ آمادہ ہوتے ہیں۔ جس سے ملاوٹ، ناپ تول میں کمی بیشی، اور ذخیرہ اندوزی جیسی ممنوع اقدار فروغ پا چکی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مبینہ طور پہ دنیا میں سب سے زیادہ سچے عاشق رسول مسلمان ہم ہی ہیں۔

پاکستان سے ہماری محبت بھی کمال افسانوی ہے۔ آئین کسی بھی ملک کی سب سے مقدس دستاویز کا نام ہے۔ اور اس سے ہٹ کر کوئی سوچ اپنانا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے ہاں اس کو پامال کرنے کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینک کر بھی ہیرو کا درجہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جس کی واضح مثال جنرل ایوب خان، جنرل یحیی خان، جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی ملک میں مقبولیت ہے۔ پاکستان کو بڑے اہتمام سے توڑا گیا لیکن اس کی ذمہ داری کا تعین کرنا پچاس سال بعد بھی نا ممکن ہے۔

بلکہ ملوث کرداروں میں سے بیشتر ہمارے ہیروز ہیں۔ 80 کی دہائی میں پاکستان کو افغان جنگ کے ذریعے ہیروئن کی لعنت، کلاشنکوف کلچر، فرقہ واریت کا آسیب لسانی اور گروہی تقسیم کو مزید گہرا کرنے جیسے بد نما داغ مملکت خدا داد کے چہرے پہ لگائے گئے لیکن آج بھی وہ جنگ ہمارے غرور میں اضافے کا باعث ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں وہ نرسری جو اسی کی دہائی میں امیر المومنین اپنے دست شفقت سے لگا گئے تھے اس قدر تنا ور ہوئی کہ وطن عزیز سے ستر ہزار لاشوں کا خراج وصول کر کے دم لیا۔

لیکن ہم ان کی مذمت میں کبھی یکساں سوچ نہیں اپنا سکے اور نہ اسے اپنے لیے تاریک دور سے تعبیر کر سکے۔ اس کے علاوہ سیاسی لیڈروں نے مبینہ طور پہ کمال کی لوٹ مار کی، پاکستان کے تشخص کو عالمی سطح پہ خراب کیا لیکن ہم نے ہر بار پہلے سے زیادہ ووٹوں سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ کبھی پاکستان میں آئین شکنی کے وقت حب الوطنی نہیں جاگتی۔ کبھی پاکستان کو عالمی سطح پہ رسوائی کے وقت قوم کی غیرت نہیں جاگی۔ لیکن اس سب کے باوجود ہم وطن سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ہمارے محبت بھی اسی نوعیت کی ہے۔ وہ پاکستان کے حقیقی محسن ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا۔ 1974 میں بھارت نے جب ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان کی سالمیت کا شدید خطرات لاحق تھے۔ اگرچہ بھارت نے اپنے بم کا نام سمائلنگ بدھا رکھ کر اسے پر امن مقاصد کا لبادہ پہنایا تھا لیکن پاکستان کے لیے وہ خطرے کی گھنٹی تھی۔ ابھی دو سال پہلے پاکستان ٹوٹا تھا۔ نوے ہزار پاکستانی سپاہی بھارت کی قید سے رہا ہو کر لوٹ رہے تھے۔

قوم کا مورال گرا ہو تھا۔ ان دنوں ڈاکٹر صاحب ہا لینڈ میں ملازمت کر رہے تھے۔ انہوں نے تب کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے خود ایٹم بم بنانے کی پیشکش کی۔ پھر نہایت کم مدت میں اپنے دعوی کو سچ بھی کر دکھایا۔ 11 مئی 1998 کو بھارت نے پھر سے ایٹمی دھماکے کیے اور اب کی بار اپنے ایٹم بم کا نام شکتی رکھ کر اپنے عزائم کا اظہار بھی کر دیا تو پاکستان کو دندان شکن جواب دینے میں زیادہ دن نہیں لگے۔ 28 مئی 1998 کو پاکستان نے بھارت کا حساب بھی چکا دیا۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان کے میزائل پروگرام کے بھی خالق تھے۔

پھر ایک دن قوم نے انہیں ٹی وی پہ اپنے ناکردہ گناہوں کا اعترافی بیان پڑھتے دیکھا۔ مشرف جیسے بدنما کردار کے سامنے نہایت قسم پرسی کی حالت میں بیٹھا ٹی۔ وی کی سکرین پہ دکھایا گیا۔ جس کی تفصیل بعد میں مشرف نے یہ بتائی کہ وہ میرے گھٹنوں کو پڑ کے روتے ہوئے مجھ سے معافی مانگ رہے تھے۔ ریاستی اداروں نے انہیں نظر بند کر دیا۔ انہیں ہر طرح کی نقل و حرکت سے روک دیا۔ انہیں میڈیکل سہولیات کے حصول کے لیے بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ عدالتوں میں بھی خجل ہوئے کہ انہیں آزادی دی جائے۔ یہ رویہ صرف مشرف کی حکومت تک محدود نہ تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز اور موجودہ تحریک انصاف پاکستان کی حکومتوں نے بھی اسی پالیسی کو جاری رکھا۔ ان کی جبری نظر بندی کی درخواست ابھی بھی پاکستان کی سپریم کورٹ میں سماعت پذیر تھی جو ان کی وفات کے ساتھ ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔ ہر عدالت ان کا کیس سننے سے انکار کرتی رہی۔ اس سارے عرصے میں وہ قوم کے ہیرو رہے۔

انہیں محسن پاکستان کے لقب سے بھی یاد رکھا جاتا رہا۔ قوم کے دل میں ان کے لیے احترام کا جذبہ موجود رہا۔ کسی بھی پاکستانی سے ان کے بارے پوچھ لیں تو وہ ان کے بارے مثبت رائے ہی رکھتا ہو گا۔ لیکن اس سب کے باوجود پچھلے سترہ سالوں میں ان کی جبری نظر بندی کے لیے کوئی تحریک نہیں چل سکی۔ کسی سیاسی جماعت نے ان کی خدمات کے اعتراف کو قومی سطح پہ نہیں کیا۔

پاکستان میں یہ احسان کشی کا کوئی یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ لیکن زیادہ محسوس اس لیے ہو رہا ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت کے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالکلام کو ان کی خدمات کے اعتراف میں بھارت سے سب سے بڑے قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد میں انہیں صدر مملکت کے عہدے پہ بھی فائز کیا۔ جب کچھ برس قبل ان کی موت ہوئی تو انہیں اصلی قومی اعزاز کے ساتھ رخصت کیا گیا جس میں انتہا پسند ہندو وزیر اعظم کی کی میت کے قدموں میں ہاتھ باندھ کر کھڑا دیکھا گیا۔

جو کہ اس محسن کے احسان کا قومی سطح پہ اعتراف تھا۔ ہمارے ہاں بھی ڈاکٹر قدیر صاحب کی نماز جنازہ کو قومی اعزاز کے ساتھ ادا کیا گیا لیکن کسی لیڈر ان کو نماز جنازہ میں شرکت کی توفیق نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم صاحب کی یقین دہانی کے باوجود وہ اپنی وصیت کے مطابق تدفین بھی نہ پا سکے۔ قوم نے محسن پاکستان کے مرنے پہ ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور شاید محسن پاکستان نے ملک الموت کا کہ کم ظرف لوگوں سے جان چھٹی۔