ہماری توجہ کی منتظر اردو


اردو برصغیر پاک و ہند اور دیگر ایشیائی ممالک میں بولی جانے والی سب سے مقبول اور عام فہم زبان ہے، بارہویں صدی سے شروع ہونے والی یہ زبان ترقی کے مختلف مدارج طے کرتی ہوئی آج ایک مکمل اور کامیاب زبان ہے، جس کا اپنا رسم الخط ہے، لغت ہے، اپنا مکمل صرف و نحو ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اس کے بولنے اور سمجھنے والوں کا حلقہ بڑھا ضرور مگر وہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی جس کی اردو زبان مستحق تھی۔ اردو اب مشرق وسطی، مشرق بعید امریکہ اور یورپ میں بھی بولی جاتی ہے۔

اردو پاکستان کی قومی زبان ہے، پاکستانیوں کی اکثریت اپنی مقامی زبان بولتی ہے جیسے پنجاب میں پنجابی، سندھ میں سندھی، خیبر پختونخوا میں پشتو اور بلوچستان میں بلوچی بولی جاتی ہے۔ اس کے باوجود قریب ستر ملین لوگ اردو بولتے ہیں، جب دو مختلف زبانوں کے بولنے والے آپس میں ملتے ہیں تو عموماً اردو ہی گفتگو کا ذریعہ ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں اردو زبان کا حال قابل رحم ہے، کہنے کو قومی زبان ہے، سب کا مدعا بیان کرتی ہے، مواصلات و پیغام رسانی کی آسانی بھی فراہم کرنے کے باوجود، اردو پذیرائی اور دلبستگی سے محروم ہے۔

یہ اردو کی بدقسمتی رہی ہے کہ نہایت کار آمد و مقبول ہونے کے باوجود ہمیشہ سوتیلی اولاد جیسی رہی ہے۔ یہی لسانی تضاد اردو کی ترویج و ترقی میں حائل ہے۔ حالانکہ اٹھارہویں صدی میں اردو برصغیر میں عام بولی جانے والی زبان بن گئی تھی جو ہر طبقے میں یکساں مقبول تھی، مورخین اس کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگاتے ہیں کہ یہ عام گلی کوچوں میں بولی جاتی تھی جبکہ دفتری و عدالتی زبان فارسی تھی۔

اب سے نصف صدی پہلے تک عام گھروں میں بھی نہایت سلیس اور باکمال اردو بولی جاتی تھی، گھروں میں والدین زبان کی سلاست اور لفظوں کے مناسب استعمال کی تربیت کیا کرتے تھے اور اس بارے میں جذباتی حد تک سنجیدہ ہوا کرتے تھے۔ مجھے بہت اچھے سے یاد ہے کہ ایک بار استاد محترم کے ساتھ ایک راستے سے گزر رہا تھا کہ وہاں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر بے ساختہ میرے منہ سے نکلا کہ یہاں تو بڑی بھیڑ ہے، تو استاد صاحب نے نہایت ہی ناگواری سے مجھے دیکھتے ہوا کہا کہ یہ بھیڑ کیا ہوتی لوگوں کا ہجوم کہنے میں کیا حرج ہے۔

تو یہ چلتی پھرتی تربیت گاہیں ہماری علمی آبیاری کیا کرتی تھیں، مگر وقت کے ساتھ ساتھ گزشتہ چند دہائیوں میں زبان، تلفظ اور صحیح لفظوں کا چناؤ سب کچھ شدید تنزلی کا شکار ہوئے ہیں۔ اور اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اہل قلم بھی صحیح لفظوں کے چناؤ اور ان کے استعمال کا اہتمام نہیں کرتے۔ لہذا ایک بہت ہی مبہم اور غیر معیاری زبان ذریعہ اظہار بنی ہوئی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک اور حیران کن رجحان بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے کہ بچہ جب بولنا شروع کرتا ہے تو اس سے اپنی مقامی یا اردو کی بجائے انگریزی زبان میں بات شروع کی جاتی ہے، لہذا بچہ اپنی مقامی زبان یا اردو سیکھنے کے بچائے انگریزی بولنا شروع کر دیتا ہے۔ تو بچہ ابتداء ہی سے مقامی زبانوں کے بچائے انگریزی کی طرف مائل ہوجاتا ہے جو مقامی زبانوں بالخصوص اردو کی ترقی و ترویج میں دیوار بن کر حائل ہوجاتا ہے۔

صرف چند دہائی پہلے تک اخبار، ریڈیو اور ٹی وی پر بڑے بڑے ماہر اہل زبان موجود ہوتے تھے جو اردو زبان کے معیار کو ہمیشہ ملحوظ خاطر و مقدم رکھا کرتے تھے اور زبان و بیان کی سلاست کو کسی طور ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، لہذا نہایت ہی معیاری علمی و ادبی مواد عام آدمی کو ملتا رہتا تھا۔ ریڈیو کی تو بات ہی کیا اب تو ٹی وی اور اخبارات کی زبان پر غور کریں تو پائیں گے کہ وہ الفاظ کی صحت اور تلفظ کی درست ادائیگی کا بالکل بھی اہتمام نہیں کرتے۔

ایک وقت تھا جب ریڈیو اور ٹی وی پر تلفظ کی درست ادائیگی پر بہت زور دیا جاتا تھا اور صداکاروں کے تلفظ کی اصلاح و تربیت کے لئے ماہرین موجود ہوتے تھے۔ لہذا نہایت ہی معیاری ٹی وی اور ریڈیو پروگرام تخلیق پاتے تھے جو آج بھی اردو ادب کا قیمتی حصہ ہیں۔ اس وقت صرف ایک پی ٹی وی ہی ہوتا تھا جہاں قریش پور، عبید اللہ بیگ، اشفاق احمد، حمایت علی شاعر، مستنصر حسین تارڑ، لئیق احمد، انور مقصود اور فراست رضوی جیسے مایہ ناز اردو دان اپنی مہارت کے جوہر دکھایا کرتے تھے۔

جبکہ صداکاروں میں طارق عزیز اور ضیاء محی الدین جیسے باکمال لب و لہجہ کے حامل فنکار موجود تھے جن سے اردو کے گلشن میں زبردست بہاروں کا سماں تھا، مگر جیسے جیسے نام نہاد ترقی نے قدم جمائے اردو اپنا حسن و جمال، سلاست و چاشنی کھوتی چلی گئی اس کی جگہ نیم حکیم قسم کے صحافیوں اور فصلی صداکاروں نے لے لی جن کا نہ تلفظ ٹھیک ہے نہ انہیں زبان کی ہی بہتر تربیت و آگہی ہے، لہذا جس کا جو دل چاہ رہا ہے کر رہا ہے۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی ہے جہاں ہر قسم کا غیر معیاری مواد موجود ہے جسے لوگ بڑی شان سے ٹرینڈز کہہ کر استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔

کہتے ہیں پرانے زمانے میں بعض اضلاع میں کچی بولی بولنے پر وہاں کے والی یا حکمران لوگوں کو جیل میں بند کر دیا کرتے تھے اور آج ہم اس ترقی یافتہ دور میں اپنی قومی زبان کی ترویج کے لئے کام کرنے کے بجائے اس کے بگاڑ کی نئی نئی صورتیں پیدا کر رہے ہیں۔ ان میں نجی چینلز بڑا کردار ادا کر رہے ہیں، وہاں اردو زبان انتہائی کشمکش کا شکار نظر آتی ہے۔ تذکیر و تانیث، تلفظ اور بنیادی قواعد کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا، جس کا جیسا دل چاہتا کر گزرتا ہے۔

یوں تو تلفظ کے حوالے سے کچھ رعایت دی جا سکتی ہے کہ دوسری زبانوں کے بولنے والے اپنی مادری زبان کے زیر اثر تلفظ میں کچھ کمی بیشی کر سکتے ہیں مگر جو لوگ خود کو اردو کا استاد کہتے ہیں ان کے ہاں یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی اور عوامی سطح پر اردو کی ترویج و ترقی کے لئے عملی اقدامات کیے جائیں، اسکول و کالج میں باقاعدگی سے تدریسی و تربیتی لائحہ عمل نہ صرف ترتیب دیے جانے چاہئیں بلکہ ان پر عمل بھی کیا جانا چاہیے، ساتھ ساتھ لائبریریز بنائی جانی چاہئیں اور بچوں کو باقاعدگی سے لائبریری جانے کی عادت ڈالنی چاہیے، فکری و ادبی حلقے و نشستیں ہونا چاہئیں۔ تب کہیں جاکر ہم انگریزی کے احساس کمتری سے شاید نجات پا سکیں۔ کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ جن اقوام نے اپنی زبان میں تعلیم کو فروغ دیا انہوں نے ضرور ترقی کی ہے جس کی زندہ مثال، چین، جاپان، فرانس اور جرمنی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments