پاکستان اور امریکی ضروریات


جب امریکہ افغان طالبان سے معاہدہ کر رہا تھا تو اشرف غنی اور افغانستان کے آئین کا مستقبل صاف دیوار پر تحریر ہو چکا تھا۔ جو کچھ ہوا اس نے فوری طور پر نہ سہی مگر کچھ عرصے بعد تو لازمی طور پر وقوع پذیر ہو جانا تھا اور یہ امریکی اچھی طرح سے جانتے تھے بلکہ اب وہ سردیوں کے اختتام کا انتظار کر رہے ہیں کہ پھر حالات کا تجزیہ کریں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خطے کی اس تبدیل شدہ صورتحال میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کن بنیادوں پر استوار ہے اور امریکہ ان تعلقات کی کیا نہج دیکھنا چاہتا ہے۔

تاکہ اس کے مطابق وطن عزیز بھی اپنی صف بندی کر سکے وینڈی شرمین نے انڈیا میں کھڑے ہو کر پاکستان کے حوالے سے جو گفتگو کی ہے کہ ہم پاکستان سے کوئی طویل شراکت داری نہیں چاہتے اور افغانستان پر گفتگو کریں گے یہ حربہ کہ بھارت میں کھڑے ہو کر پاکستان کے حوالے سے سخت گفتگو کرو امریکہ کا پرانا رویہ ہے۔ نائن الیون کے بعد سے ہم مستقل طور پر یہ دیکھ رہے ہیں کہ کابل اور نئی دہلی میں متعین امریکی سفرا پاکستان کے حوالے سے سخت گوئی کرتے رہے جب کہ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر یا تو چپ رہے ہیں یا ان کا لب و لہجہ اپنے دیگر رفقاء جیسا نہیں تھا ( اب تو صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ سوا دو سال سے پاکستان میں امریکی سفیر ہی موجود نہیں ہے)۔

یہ دباؤ میں لانے کی امریکی پرانی حکمت عملی ہے اور امریکہ اس پر ہی کاربند بھی ہیں ہمارے ارباب اختیار کی صلاحیت صرف یہ ہونی چاہیے کہ وہ اس نوعیت کے سفارتی حملے کا جواب سفارتی انداز میں دینے کی صلاحیت رکھتا ہو مگر یہاں پر صورتحال یہ ہے کہ عمران خان سے سوال پوچھا گیا کہ بائیڈن آپ کو فون کیوں نہیں کر رہے تو جواب دیا کہ وہ مصروف آدمی ہے یعنی کہ ہم ویلے ہیں ویسے بھی اب فون کال ہو بھی گئی تو صرف اس لئے ہوگی کہ اپنی کوئی بات کو اس راستے تسلیم کروا لیا جائے اب کوئی جیت کے بعد والی تو کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی ہے۔

اسی بات کو وینڈی شرمن کے دورے میں بھی استعمال کیا گیا کہ جلدی فون کال کر لیں گے ان سے دنیا بھر کے لیڈران بات کرنا چاہتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو بندہ یہی جواب میں کہہ دیتا کہ انہوں نے فون کال نہیں کی ان سے پوچھئے مگر اتنا کہنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی جب اتنا کہنے کی ہمت نہیں ہوئی تو پھر امریکہ کو اپنے مفادات کی اہمیت باور کروانا تو ناممکن ٹھہرا۔ بھارت میں وینڈی شرمن کی گفتگو امریکہ کے اس رویہ کی عکاس ہے جو وہ انڈو پیسفیک اسٹریٹجی اپنا رہا ہے اور اس میں بھارت کو کلیدی اہمیت حاصل ہوتی جا رہی ہے۔

امریکہ اس سٹریٹیجی کو اپناتے ہوئے جمہوریت اور دیگر معاملات کو اٹھانا شروع کر دیتا ہے کہ وہ تو خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی اہمیت کی حامل ہے بائیڈن دسمبر میں ایک جمہوریت پر ایک کانفرنس کروا رہے ہیں اور بھارت کو کشمیر میں ظلم کے باوجود مدعو کر رہے ہیں جب کہ امریکہ دلیل کے طور پر سری لنکا اور مالدیپ سے چینی مسائل کو پیش کرتا ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ چینی ان دونوں ممالک کے معاملات پر مزید شفافیت لائیں تاکہ اس کے خلاف پروپیگنڈا نہ ہو سکے یہ چین کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔

بہرحال امریکہ اس حوالے سے اپنی صف بندی کر رہا ہے کیوں کہ پاکستان اور چین اچھے ہمسائے ہیں اس لئے پاکستان کو دباؤ میں رکھنا امریکہ کی ضرورت ہے حالانکہ اس وقت پاکستان اور چین کے تعلقات کو بھی جان بوجھ کر دھکا لگایا جا چکا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک امر ہے دلیل کے طور پر گوادر کے آگے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ امریکہ کی انڈو پیسفک سٹریٹیجی اور افغانستان کے حالات نے اس کی ضرورت بنا دیا ہے کہ وہ پاکستان کو چین کے حوالے سے مزید قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور کرے حالانکہ بہت سارے قدم ہم اس سے پہلے ہی پیچھے ہٹا چکے ہیں۔

وینڈی شرمن کا یہ کہنا کہ کانگریس میں بل آتے رہتے ہیں بات اتنی بھی سادہ نہیں ہے پہلے ڈرایا جاتا ہے پھر پریسلر ترمیم عائد کردی جاتی ہے اور اس وقت تو امریکی لب و لہجہ بھی ایسا نہیں تھا امریکہ اپنے تئیں افغانستان سے فاتح ٹھہر کر نکلا تھا اب تو بظاہر ہزیمت زدہ ہے جب امریکہ ویتنام جنگ میں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکا تھا تو اس کا سارا الزام کمبوڈیا پر تھوپ دیا تھا صرف الزام ہی نہیں تھا بلکہ وہاں پر انہی الزامات کے سہارے کہ کمیونسٹوں کی مدد کرتے ہیں اور فلاں کام کرتے ہیں فلاں کام کرتے ہیں صدر نکسن نے فوجی مداخلت کر ڈالی تھی۔

امریکہ کو اب دوسرا کمبوڈیا بھی درکار ہے خدا کا شکر ہے کہ وطن عزیز مئی 1998 کے بعد دفاعی طور پر اس قابل ہے کہ اس پر حملہ کرتے ہوئے کوئی بھی ہزار بار سوچے گا کیوں کہ بھٹو، نواز شریف اور ڈاکٹر قدیر خان نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کہ یہ صلاحیت قوم کو دی ڈاکٹر قدیر تو چل بسے مگر دلوں میں ان کا احترام ہمیشہ بستا رہے گا۔ حالانکہ اس صورتحال کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ کے معاملہ فہم افراد بھی امریکی حکومت کو پاکستان کے حوالے سے انیس سو نوے کی دہائی والی غلطی دہرانے سے اجتناب کا مشورہ دے رہے ہیں۔

مثال کے طور پر سابق امریکی سفیر ریان سی کروکر نے 21 اگست 2021 کو نیویارک ٹائمز میں تحریر کیا تھا کہ

”The United States made a mistake by disengaging with Pakistan in the 1990 s and would be repeating that mistake by turning away from Islamabad now۔ The interests of this pair are aligned now more than ever“

صاف ظاہر ہے کہ ضرورت امریکہ کی بھی ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے ارباب اختیار اس ضرورت کو سمجھتے ہوئے حکمت عملی تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ابھی تک تو مایوسی ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments