شہید خان عبدالصمد اچکزئی کی کتاب: میں اور میری زندگی


پشتون قوم پرستوں کی ایک مضبوط آواز، ایک توانا لیڈر، بلوچستان میں صحافت کا معمار، اور ایک متاثر کن ادبی شخصیت۔ جن کی خدمات نے انہیں آج تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ ادب کے میدان میں انہوں نے کئی کتابوں کا ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی کئی کتابوں کے مصنف رہے۔ زیر نظر کتاب میں اور میری زندگی ایک شاہکار کتاب ہے جس کا انگریزی اور یوکرائنی زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے زیر نظر تجزیہ اب بیتی کے 2 جلدوں یعنی کتاب 1 اور کتاب 2 کے ہیں۔ پہلی جلد 379 پر مشتمل ہے جبکہ دوسری جلد 540 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو ایک نئے پشتو لہجے میں لکھا گیا ہے جس کو خود خان شہید خان عبدالصمد اچکزئی نے ترتیب دیا ہے۔

پہلی جلد بنیادی طور پر مصنف کے بچپن، اس کے آبا و اجداد کی تاریخ، اس کی تعلیم، معاشی مسائل، اس وقت کے مذہبی حالات، جرگہ، علاقے کے معاشرتی مسائل جیسے منشیات کی لت وغیرہ پر مشتمل ہے۔ جبکہ دوسری جلد کو پڑھنے کی بڑی اہمیت ہے جو جیلوں میں عبدالصمد خان اچکزئی کی ہمت، ان کی سیاسی زندگی، ان کی قوم کے لیے اخلاص اور قربانی اور ادب سے ان کی محبت کے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں برطانوی دور کے دوران جیلوں کے وحشیانہ منظر کی نشاندہی کی گئی ہیں جس میں خان عبدالصمد خان اچکزئی کہتا ہے کہ جیل میں 200 قیدیوں کے لیے صرف ایک باتھ روم ہوا کرتا تھا۔ بعد میں، عبدالصمد خان اچکزئی اور اس کے ساتھیوں نے جیل میں 15 دن کی بھوک ہڑتال کی جس کے نتیجے میں جیل انتظامیہ نے کچھ سہولیات فراہم کیں۔

وہ بلاشبہ ادبی ذوق کا آدمی تھا وہ خود کہتا ہے کہ اس نے بہت کم عمری میں سر سید احمد خان کی تفسیر پڑھی تھی اور 1929 میں علامہ محمد اقبال کی کتابیں خریدیں اور مطالعہ کیا۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ انہوں بے شبلی نعمانی کو بھی پڑھا جبکہ مولانا ابوالکلام آزاد کو وہ اپنا استاد کہتا ہے

خان عبدالصمد خان اچکزئی نے اپنے سیاسی کیریئر اور محمد علی جناح، مہاتما گاندھی اور باچا خان سے ملاقات کو بھی بہترین پیرائے میں لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے محمد علی جناح سے ملاقات کی تو میں نے انہیں بلوچستان کے ساتھ مخلص پایا۔ عبدالصمد خان اچکزئی مزید کہتا ہے کہ مہاتما گاندھی سے ملاقات کے دوران انہوں نے انہیں ایک سادہ آدمی پایا جس کے رویے میں کوئی غرور نہیں تھا۔ خان شہید کہتا ہے کہ ملاقات کے دوران میں نے گاندھی جی کو بلوچستان میں انگریز سرکار کے ظلم سے آگاہ کیا اور انہیں بلوچستان کا مسئلہ گول میز کانفرنس میں اٹھانے کی استدعا کی۔ خان عبدالصمد خان کا کہنا ہے کہ چونکہ میں باچا خان سے عمر میں تھا، میں ہمیشہ اس جستجو میں رہتا تھا کہ باچا خان کی خدمت کر لوں۔ لیکن اس نے کبھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی اور جب وہ خود چائے بنا کر مجھے پیش کرتا تو مجھے ہمیشہ شرمندگی کا احساس ہوتا۔

عبدالصمد خان اچکزئی جنہیں بلوچستان میں صحافت کا معمار کہا جاتا ہے، نے اپنا پہلا اخبار استقلال 1938 میں شروع کیا۔ مذکورہ اب بیتی میں وہ ان تمام کٹھن مسائل کا ذکر کرتا ہے جن سے گزر کر انہیں اخبار کی اجازت لینی پڑی۔

یہ کلاسک اب بیتی ادب کے چاہنے والوں کے لیے پڑھنا ضروری ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے کن مشکل حالات میں جدوجہد کی اور آنے والی نسلوں کی ترقی کے لیے آنے والے مشکلات کا کس جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ خان عبدالصمد خان اچکزئی شہید کی یہ اب بیتی بذات خود ایک تاریخ ہے۔ جو پشتونوں اور بلوچوں کے قبائلی رسم و رواج اور ثقافتوں کا گہرا مشاہدہ کرتا ہے۔ اور بیسویں صدی کے برصغیر پاک و ہند بشمول افغانستان کے واقعات کو انتہائی عرق ریزی کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments