عام آدمی کی دانش



کچھ جملے اپنے اندر پوری کتاب ہوتے ہیں جیسے والٹئیر کا جملہ کہ لگتا ہے یہ دنیا ایک جہنم ہے جہاں ہمیں کسی اور سیارے پر کیے گئے برے اعمال کے نتیجے میں بھیجا گیا۔ یا گلیلیو کا معافی مانگنے کے بعد یہ جملہ کہنا کہ اب تو زمین گھوم گئی ہے چرچ اپنی تمام طاقت لگا کر بھی اسے گھومنے سے نہیں روک سکتا۔

صبح ایک سبزی لگانے والے دوست کی طرف جانا ہوا جو کہ پی ٹی آئی کا بہت بڑا حامی تھا اور اپنے پلے سے پیسے لگا کر مختلف شہروں میں خان کے جلسے اٹینڈ کرتا رہا۔ اسے چھیڑنے کے لیے میں نے کہا سناؤ خان کی حکومت کا مزا آیا۔ تو وہ بولا یار مجھے لگتا ہے کہ خان نواز شریف اور زرداری کا ایجنٹ تھا جو ہمیں یہ احساس دلانے کے لیے پلانٹ کیا گیا تھا کہ نواز۔ زرداری ان کے بات ان کے بچے اور پھر پوتے پوتیاں ہی ہمارے لیے بہتر ہیں۔

میں جملہ تو سن کر گھر آ گیا لیکن جب غور کرنا شروع کیا تو یہ جملہ اپنے اندر ایک کتاب نظر آیا اور سوچا احباب سے شیئر کیا جائے۔

جیسے قتل کے کیس میں پولیس سب سے پہلے شک اس آدمی پر کرتی ہے جسے اس قتل سے فائدہ ہو اسی اصول پر دیکھیں تو اشرافیہ چاہے وہ وردی میں ہو یا سویلین اس کے جورو ستم سے تنگ عوام ایک مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں۔ شاید ہم اسے ستر سال کا طویل انتظار بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ لوگ خان کے فیم سے زیادہ اشرافیہ کے خلاف ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔ جو کہ ان کی نادان نظر آنے والی لیکن نہایت عیاری سے بنائی گئی لوٹ مار کی وجہ سے بلبلا کر پچھلی اشرافیہ کی طرف ہی دوبارہ دیکھ رہے ہیں۔ عوام کی دانش اتنی کم نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے وہ احسان فراموش بھی نہیں جذباتی ضرور ہیں لیکن ادویات سکینڈل۔ آٹا سکینڈل چینی سکینڈل کا بھرپور تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے نظام کا بینیفیشری کون ہے۔ اگر ہم گہرائی سے دیکھیں تو پاکستان کے موجودہ حالات اٹھارہویں صدی کے بنگال جیسے نظر آتے ہیں۔ بنگال جو ہندوستان کا خوراک گھر کہلاتا تھا انگریز کی لوٹ مار کے بعد چند دہائیوں میں غربت اور بھوک کی سر زمین بن گیا دو صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس بھوک سے نہ نکل سکا۔ پاکستان بھی اب فوڈ سکیورٹی کی بات کریں یا پر کیپیٹا انکم کی جو بنگلہ دیش سے آدھی ہے قحط کے دہانے پر نظر آتا ہے دوسری طرف انڈیا پاکستان کا پانی بند کر کے زراعت کا گلا گھونٹنے پر تیار نظر آ رہا ہے۔

اور پاکستان میں آنے والا ہر حکمران عوام کو غریب سے غریب تر کر رہا ہے۔ لیکن اس سب میں کس کا فائدہ ہے کیا ساری کارروائی ہمارا کمبل یعنی ایٹم بم چرانے کی ہے یا ہمیں کچھ اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جب آپ کو پانی بھی خرید کر پینا پڑتا ہے اور سرکاری پانی پینے کے قابل نہیں رہا عوام کو آدھی بات سمجھ آ گئی ہے۔ کہ ایسا ہی خوراک کے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔ عوام کو صرف ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے جب تک اپنے جیسے کو ووٹ نہیں دیں گے ملک میں تبدیلی کا آغاز نہیں ہو گا سینکڑوں کنال کے رہائشی آپ کے مسائل کا ادراک نہیں کر سکتے۔ اپنے جیسے عام آدمی کا چناؤ ہی مسائل کا حل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments