اقسامِ شہرت


موجودہ عصر کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس مٹی کی دنیا کے خاکی پتلے بس ایک ہی چیز کو حاصل کرنے کی تگ و دود کر رہے ہیں۔ نہ صرف حال بلکہ ماضی کے پنوں کو اگر کھولا جائے تو یہی راز افشاں ہو گا کہ ہر خاص و عام شہرت حاصل کرنے کی کوشش میں ہی محو رہا۔ جب ہم لفظ شہرت بولتے ہیں تو اس کے کیا معنی ہوتے ہیں، کبھی کسی نے غور کیا؟ شہرت کا مطلب ہوتا ہے کہ اتنا مشہور ہو جانا کہ ہر خاص و عام میں چرچا ہو۔

کوئی بھی بات ہو کوئی بھی معاملہ ہو اس کا نام بحث میں شامل کیے بغیر بحث نامکمل معلوم ہو۔ اس خود غرض عالم میں شہرت کو دو پہلوؤں سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ایک وہ شہرت جو برائی کی بدولت حاصل ہو۔ جیسے مصطفیٰ خان شیفتہ فرماتے ہیں، ”بد نام اگر ہوں گے تو نام نہ ہو گا کیا“ ۔ ایسی شہرت عام طور پر دیہاتی علاقوں کے سرداروں میں عام ہوتی ہے۔ اور دوسری شہرت وہ شہرت ہے جو قابل ذکر اور لائق قدر کام انجام دینے پر حاصل ہوتی ہے۔

ایسی شہرت کا حاصل ہو جانا ہی ایک شہرت اور کمال کی بات ہے۔ ایسی شہرت کو حاصل کرنے کے لئے خاندان، مال اور یہاں تک کہ جان کا نذرانہ بھی کبھی کبھی معمولی سا بن جاتا ہے۔ اگر دیکھنے والی نظر اور سوچنے والا دماغ ہو تو ایسی شہرت کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اگر بات کی جائے 1965 ء میں میدان جنگ کی تو بے شمار نام ایسے آتے ہیں، مثلاً میجر شبیر شریف شہید، میجر راجہ عزیز بھٹی شہید، پائلٹ افسر راشد منہاس شہید، میجر طفیل محمد شہید، کیپٹن راجہ محمد سرور شہید اس طرح کے اور بے شمار نام جن کو اس وقت احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہے، جنہوں نے ملک کی آن کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے ایسی شہرت حاصل کی جو آج بھی ان کی قربانیوں کا ثبوت ہے۔

شہرت کو حاصل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک شہرت ایسی شہرت ہوتی ہے جو چند لمحات میں حاصل ہو جاتی ہے۔ مگر ایسی شہرت کا دورانیہ چند دن کا ہوتا ہے۔ چند ماہ قبل سوشل میڈٰیا پر دنانیر مبین کی ایک ویڈیو نے تہلکہ مچا دیا اور وہ اتنی مشہور ہو گئی کہ بھارت جیسے دشمن کی عوام بھی اس ویڈیو پر اپنے تاثرات کا اظہار کرنے لگی مگر اب کسی کو بھی یاد نہیں کی دنانیر مبین کون تھی یا کہاں ہے۔ کیونکہ یہ اصول ہے کہ جو چیز جتنی محنت سے ملتی ہے اس کا دورانیہ بھی اتنا ہی طویل ہوتا ہے۔

دوسرا طریقہ ہے تو بہت کار آمد مگر اس پر عمل کرنا ہر بشر کی بساط کی بات نہیں۔ زندگی کے سفر میں صبر و شکر کو ساتھی بنائے تکلیفیں برداشت کرنا اور آگے بڑھتے رہنا ہی اس شہرت کی کنجی ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے صد ہاں مخالفتوں کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا اور وہ شہرت حاصل کی جو رہتی دنیا تک پاکستان کے لیے سرمایہ افتخار رہے گی اور ان کا نام پاکستان کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ یہ شہرت وہ شہرت ہے جو مرزا اسد کو غالب، الطاف حسین کو حالی اور میر تقی کو میر بناتی ہے۔

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 65 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments